رواں سال جنوری میں دہلی کی ایک عدالت نے 2019 کے سی اے اے اور این آر سی مخالف مظاہروں کے دوران مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقاریر کے الزام میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالبعلم شرجیل امام کے خلاف سیڈیشن کا الزام طےکیا تھا۔ اسی ماہ سپریم کورٹ نے سیڈیشن کے قانون پر غوروخوض ہونے تک اس سے متعلق تمام کارروائیوں پر روک لگانے کی ہدایت دی ہے۔
نئی دہلی: جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالبعلم شرجیل امام نے ملک میں سیڈیشن کی تمام کارروائیوں پر روک لگانے کے سپریم کورٹ کے آرڈر کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے خلاف سیڈیشن کے الزامات میں عبوری ضمانت کے لیے دہلی ہائی کورٹ کا رخ کیا ہے۔
امام نے اپنی عرضی میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ ان کے خلاف سیڈیشن کے الزامات کو ختم کیا جائے۔
امام کو 2019 میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے خلاف مظاہروں کے دوران مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریر کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
جسٹس سدھارتھ مردل اور جسٹس رجنیش بھٹناگر کی بنچ امام کی درخواست پر منگل کو سماعت کرسکتی ہے۔ امام نے پہلے سے زیر التوا اپنی ضمانت عرضی میں عبوری ضمانت کے لیے عرضی داخل کی ہے۔
یہ عرضی ایڈوکیٹ طالب مصطفیٰ، احمد ابراہیم اور کارتک وینو کے توسط سے داخل کی گئی ہے۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ امام کی ضمانت عرضی کوخارج کرنے کا فیصلہ بنیادی طور پر اس بات پر مبنی ہے کہ ان کے خلاف معاملہ سیڈیشن کے تحت موزوں پائے جانے کے مد نظر عدالت کے پاس سی آر پی سی کی دفعہ 437 کے تحت مذکور حدود میں ضمانت دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے پیش نظر خصوصی عدالت کے حکم میں مذکور رکاوٹیں ختم ہو جاتی ہیں اور آئی پی سی کی دفعہ 124اے (سیڈیشن) کے تحت جرم کے لیے تبصروں کو درخواست گزار (امام) کے خلاف کارروائی میں پیش نظر نہیں رکھا جا سکتا ہے۔
عرضی میں کہا گیا کہ امام تقریباً 28 ماہ سے جیل میں ہیں، جبکہ جرائم کی زیادہ سے زیادہ سزا، جس میں 124اے شامل نہیں ہے ، سات سال ہے۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ امام کی مسلسل قید کا جواز نہیں اور اس میں عدالت کی مداخلت ضروری ہے۔
واضح ہوکہ رواں سال جنوری میں دہلی کی ایک عدالت نے سال 2019 میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہروں کے دوران مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقاریر کے الزام میں شرجیل امام کے خلاف سیڈیشن کا الزام طے کیا تھا۔
ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا، معاملے میں آئی پی سی کی دفعہ 124 (سیڈیشن)، 153 اے (دو مختلف گروہوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر نفرت کو فروغ دینا)، 153 بی (قومی یکجہتی کے خلاف بیان)، 505 (عوامی امن و امان کو متاثر کر نے کے لیے بیان)یو اے پی اے کی دفعہ 13 (غیر قانونی سرگرمی کے لیے سزا) کے تحت الزامات طے کیے جاتے ہیں۔
استغاثہ کے مطابق شرجیل امام کی جانب سے 13 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ اور 16 دسمبر 2019 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کی گئی تقریروں میں مبینہ طور پرآسام اور بقیہ شمال مشرق کو ہندوستان سے الگ کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔
امام کو ان مبینہ تقریروں کے لیے یو اے پی اے اورسیڈیشن کے تحت ایک اور کیس میں بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
گزشتہ دسمبر میں شرجیل کو جامعہ تشدد کیس میں ضمانت ملی تھی۔ اس کے علاوہ امام کو جنوری 2020 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کی گئی تقریر کے لیے ان کے خلاف درج سیڈیشن کے مقدمے میں ضمانت مل چکی ہے۔
غور طلب ہے کہ 11 مئی کو سپریم کورٹ نےسیڈیشن کے معاملوں میں تمام کارروائیوں پر روک لگا دی ہے اور مرکز اور ریاستوں کو ہدایت دی ہے کہ جب تک حکومت نوآبادیاتی دور کے قانون پر نظر ثانی نہیں کرلیتی، تب تک کسی پر بھی سیڈیشن کے الزام میں کوئی نئی ایف آئی آر درج نہیں کی جانی چاہیے۔
اس سے پہلے 7 مئی کو،مرکز کی مودی حکومت نے سیڈیشن سے متعلق تعزیری قانون (آئی پی سی کی دفعہ 124 اے) اور سپریم کورٹ میں اس کے جواز کو برقرار رکھنے کے آئینی بنچ کے 1962 کے ایک فیصلے کا دفاع کیا تھا۔ مرکز نے کہا تھا کہ یہ قانون تقریباً چھ دہائیوں سے نافذ ہے اور اس کے غلط استعمال کی مثالیں کبھی بھی اس پر نظر ثانی کی وجہ نہیں بن سکتی ہیں۔
سپریم کورٹ سیڈیشن قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی مختلف درخواستوں پر سماعت کر رہی ہے۔ سیڈیشن کا قانون ان الزامات کے درمیان تنازعات کے مرکز میں رہا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسے مختلف حکومتیں سیاسی دشمنی طے کرنے کے لیے ہتھیار کی طرح استعمال کر رہی ہیں۔
ان الزامات نے سی جے آئی کو یہ پوچھنے پر مجبور کیا تھاکہ کیا مجاہد آزادی کو دبانے کے لیے استعمال ہونے والے نوآبادیاتی دور کے قانون کی آزادی کے 75 سال بعد بھی ضرورت ہے۔
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا، سابق میجر جنرل ایس جی وومبٹکیرے اور ترنمول کانگریس کی ایم پی مہوا موئترا کی طرف سے آئی پی سی کی دفعہ 124 اے (سیڈیشن) کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی جانچ کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اس کی بنیادی تشویش ‘غلط استعمال’ ہے۔ جس کی وجہ سے معاملے کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں