خبریں

پیغمبر پر تبصرہ: پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ نے مظاہرین پر پولیس کارروائی کی مذمت کی

مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام کے بارے میں متنازعہ تبصرے پر پرامن احتجاج کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں، لاٹھی چارج کیا جا رہا ہے اور ان کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ جب تک  کہ کوئی شخص عدالت میں مجرم ثابت نہیں ہوتا، وہ صرف ایک ملزم  ہوتاہے۔ وہیں جمعیۃ نے کہا ہے کہ پولیس نے مظاہرے میں شامل لڑکوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا۔ یہ بہت ہی افسوسناک ہے۔

جھارکھنڈ کے رانچی میں تشدد کے بعد تعینات ریپڈ ایکشن فورس اور پولیس اہلکار ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

جھارکھنڈ کے رانچی میں تشدد کے بعد تعینات ریپڈ ایکشن فورس اور پولیس اہلکار ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: پیغمبر اسلام کے بارے میں کیے گئے تبصروں کے لیے بی جے پی سے معطل نوپور شرما اور نوین جندل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے مظاہرین کے خلاف ملک بھر میں پولیس کی طرف سے کی گئی کارروائی کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے سوموار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، ایک بیان میں اے آئی ایم پی ایل بی کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے مظاہرین کے خلاف ‘حکومت کی طرف سے انارکی کا مظاہرہ’ اور ‘ریاست کی طرف سے تشدد’ کرنے کی بات کہی ہے۔

انہوں نے کہا، جو لوگ اس ناشائستہ فعل اور نفرت انگیز تقاریر کے خلاف پرامن احتجاج کر رہے ہیں، ان کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں، لاٹھی چارج کیا جا رہا ہے اور ان کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔جب تک کہ کسی شخص کو عدالت میں مجرم قرار نہیں دیا جاتا وہ صرف ایک ملزم ہوتا ہے اور ان کے ساتھ مجرم جیسا سلوک انارکی کے علاوہ کچھ نہیں۔

رحمانی نے مزید کہا کہ اگرچہ شرما کو ان کی پارٹی سے معطل کر دیا گیا ہے، لیکن قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے ان کے خلاف کوئی بامعنی کارروائی نہیں کی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ،یہ مکمل انصاف کی ناکامی ہے۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ان تمام لوگوں کی فوری رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے جنہیں اس معاملے پر احتجاج کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اس نے کہا  کہ پولیس کی تفتیش ہونی چاہیے اور ملزمان کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔

دریں اثنا، جمعیۃ علماء ہند کے ایک وفد نےسوموار کو رانچی کا دورہ کیا، جہاں جمعہ کو ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں دو افراد ہلاک اور ایک درجن سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔

جمعیۃ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ،رانچی میں پولیس فورس نے پیغمبر اسلام کے خلاف کیے گئے تبصروں کی مخالفت میں جلوس نکالنے والوں کے ساتھ بربریت کی بدترین مثال پیش  کی۔ پولیس کی اندھا دھند فائرنگ سے دو افراد جاں بحق اور ایک درجن سے زائد افراد شدید زخمی ہو گئے۔

وفد نے مبینہ پولیس فائرنگ میں جاں بحق ہونے والے محمد مدثر اور محمد ساحل کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کی۔

جمعیۃ کے وفد نے رانچی کے ڈپٹی کمشنر چھوی رنجن سے ملاقات کی اور مقتولین کے اہل خانہ کو انصاف اور مناسب معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا۔

جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی نے کہا، پولیس فورس نے شہر کے لڑکوں کے ساتھ غیر ملکی دشمنوں جیسا سلوک کیا۔ یہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ مظاہرین کو روکنے کے اور بھی طریقے ہیں۔ دیگر ممکنہ اختیارات کی موجودگی میں، پیٹھ اور سینے میں گولی مارنا صرف بربریت ہے۔ مہلوکین کے لواحقین کو مناسب معاوضہ دیا جانا چاہیے اور گھر کے کسی بھی مستحق فرد کو نوکری دی جانی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ، رانچی پولیس نے ایک غلط مثال قائم کی ہے، جو ملک میں کہیں نہیں ہوئی ہے۔ پولیس کا یہ رویہ انتہائی وحشیانہ ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اقلیتی برادری کے افراد کو دشمن سمجھتے ہیں۔

جمعیۃ کے وفد نے جھارکھنڈ کے ڈی آئی جی انیس گپتا اور اے ڈی جی پی سنجے لتاکر سے بھی ملاقات کی۔

معلوم ہو کہ بی جے پی کے معطل رہنما نوپور شرما اور نوین جندل کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خلاف تبصرہ کرنے کے لیے ان کی گرفتاری کے مطالبے پر  10 جون کو ملک بھر کے کئی شہروں اور قصبوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔

اتر پردیش کے الہ آباد اور مغربی بنگال کے ہاوڑہ میں بھی مظاہرے پرتشدد ہو گئے۔ سری نگر میں بند کے علاوہ دہلی اور مدھیہ پردیش، تلنگانہ، گجرات، بہار اور مہاراشٹر کے کچھ حصوں میں احتجاج پرامن رہا۔

اتر پردیش کے مختلف شہروں میں تشدد کے سلسلے میں اب تک کل 13 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور 300 سے زیادہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔