مغربی دنیا بشمول امریکہ کو احساس ہے کہ ہندوستان میں جمہوری قدروں کو پامال کیا جا رہا ہے، مگر یہ اس وقت چین کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اہم مہرا ہے، اس لیے اس کو پریشانی سے بچانے کے لیے بین الاقوامی برادری نے بڑی حد تک خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
اندازہ کریں کہ اگر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل، برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی یا آکسفیم جیسے خیراتی اور تحقیقی ادارہ کے دفاتر پر چین یا تیسری دنیا کے کسی ملک کی حکومتی ایجنسیوں نے ریڈ کی ہوتی تو مغربی دنیا میں کس طرح کی ہا ہا کار مچ گئی ہوتی۔اس ملک کو سبق سکھانے کے لیے اقوام متحدہ سے لےکرسبھی فورمز ایکشن میں آگئے ہوتے۔ کچھ نہیں تو پابندیا ں لگ چکی ہوتیں۔
عراق اور لیبیا پر تو اسی جمہوریت کے نام پرفوج کشی کرکے لاکھوں افراد کو ہلاک اور بے گھر کردیا گیا۔جمہوریت کی دیوی کو حاضر کرنے اور ان ممالک کے سپرد کرنے سے پیدا شدہ عدم استحکام سے یہ ممالک ابھی بھی سنبھل نہیں پا رہے ہیں۔
مگرمغربی دنیا کے بگڑے ہوئے شہزادے یعنی وزیر اعظم نریندو مودی کی حکومت نے ایمنسٹی کے ذمہ داروں کو تو اتنا تنگ کیا گیا کہ انہوں نے بوریہ بستر سمیٹنے میں ہی عافیت جانی۔
دارالحکومت دہلی کے وسط میں بی بی سی کے دفاتر پر تین دن تک حکومتی ایجنسیوں نے دھاوا بو ل دیا، مگر پوری دنیا کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ برطانوی حکومت نے بس زبانی جمع خرچ کے لیے ایک ہلکا سا بیان داغا۔
اگر برطانیہ میں آل انڈیا ریڈیو کے ہی دفتر کو اس طرح کا نشانہ بنایا جاتاتو ہندوستان میں تو طوفان مچ گیا ہوتا۔
جس دن بی بی سی کے دفتر پر انکم ٹیکس کا محکمہ ریڈ کر رہا تھا، اسی وقت لند ن میں ایر انڈیا کے ذمہ داران بوئنگ اور ایئربس جیٹ طیاروں کے حصول کے لیے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کر رہے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس معاہدے سےہندوستان ایرو اسپیس سیکٹر کے لیے دنیا کی سب سے اہم ابھرتی ہوئی مارکیٹ بن جائےگا۔ اب جمہوری اقدار کی بحالی، صحافتی آزادی جیسے ‘بے معنی’ نعروں کے لیے کون اس اہم معاہدہ کو کھٹائی میں ڈالنے کی ہمت کرتا۔
گزشتہ ہفتے، نئی دہلی نے جی 20ممالک کے وزراء خارجہ کی میزبانی کی، پھر اسی دن چار فریقی سیکورٹی ڈائیلاگ (جسے کوارڈکے نام سے جانا جاتا ہے) اور جس میں امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور ہندوستان شامل ہیں کی میٹنگ کی میزبانی کی۔
اسی ہفتے رائسینا ڈائیلاگ کا انعقاد کرکے دنیا بھر کے اسٹریٹجک ماہرین کا اجلاس منعقد کرنے کے علاوہ جرمن چانسلر اولاف شولز اور اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی کا بھی خیر مقدم کیا۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیس نئی دہلی کا دورہ کرکے ڈیکن یونیورسٹی کیمپس قائم کرنے کے منصوبے کا اعلان کر رہے ہیں، جو ہندوستان میں قائم ہونے والی پہلی غیر ملکی یونیورسٹی ہوگی۔
امریکی تھنک ٹینک ولسن انسٹی ٹیوٹ میں شعبہ ایشیاء کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کے مطابق گو کہ مغربی دنیا بشمول امریکہ کو احساس ہے کہ ہندوستان میں جمہوری قدروں کو پامال کیا جا رہا ہے، مگر چونکہ یہ اس وقت چین کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اہم مہرا ہے، اس لیے اس کو پریشانی سے بچانے کے لیے بین الاقوامی برادری نے بڑی حد تک خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
مسلم دنیا کے رہنما ؤں نے بھی ہندوستان میں آئے دن مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کے خلاف ہو رہی کاروائیوں پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
آزاد پریس کو ڈرانے سے لےکر سول سوسائٹی کی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کے علاوہ منی لانڈرنگ اور غیر ملکی فنڈنگ کے قوانین کا استعمال کرکے ملک میں اپوزیشن اور اس کے لیڈروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ 2014میں مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے لےکر ابھی تک صرف انفوسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے ہی تین ہزا ر کے قریب ریڈز کیے ہیں اور ایک ٹریلین سے زائد کی جائیدادیں ضبط کی ہیں۔
خبر رساں ادارے آرٹیکل 14 کے جائزے کے مطابق مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت کے پہلے چھ سالوں میں ہی7100 سے زیادہ افراد پرسیڈیشن یعنی بغاوت کے الزامات میں مقدمات درج کیے گئے تھے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبہ اترپردیش میں2017 اور 2021 کے درمیان 8500 پولیس مقابلے ہوئے ہیں اور ان میں 40فیصد مہلوکین مسلمان تھے۔
فریڈم ہاؤس نے اپنی سالانہ ‘فریڈم ان دی ورلڈ’رپورٹ میں ہندوستان کی پوزیشن کو ‘آزاد’ کے درجہ سے ‘جزوی طور پر فری’ میں منتقل کر دیا ہے۔ سویڈن کے وی ڈیم انسٹی ٹیوٹ نے اپنے سالانہ ڈیموکریسی لیگ ٹیبلز میں اس تجزیے کی بازگشت کرتے ہوئے بتایا کہ ہندوستان میں جمہوریت انتخابات کے انعقاد تک محدود ہو کر رہی گئی ہے۔ طرہ تو یہ ہے کہ ہندوستان دنیا میں اپنے آپ کو ایک جمہوری چیمپین کے بطور پیش کرتا ہے۔
بقول کوگل مین، چین کے مقابل ہندوستانی لیڈران اپنی آستینوں پر ‘دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت’ کا لیبل پہن کے دنیا بھر میں گھومتے ہیں۔ وہ کامیاب آزادانہ اور متواتر انتخابات سے لے کر فوج کی سویلین قیادت کے تابع ہونے کی کہانیاں سناکر جمہورت کے پٹارہ کو بجاتے ہیں۔
مزید برآں، چین کا مقابلہ کرنے کے لیے کواڈ او، جو جمہوری ممالک کا اتحاد بھی ہے، میں ایک نقیب کا رول ادا کرتے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایک طرف امریکی صدر جوائے بائیڈن انتظامیہ نے جمہوریت اور انسانی حقوق کے فروغ کو خارجہ پالیسی میں ترجیح کے طور پرشامل کیا ہے، اور اس سمت میں دنیا کے متعدد ممالک کے خلاف اس نے کارروائیاں بھی کی ہیں۔ وہیں وہ ہندوستان کے معاملے میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے قاصر ہے۔
کوگل مین کے مطابق نئی دہلی کو جتنے زیادہ مفت پاس ملیں گے، اتنی ہی حوصلہ افزائی ہوگی اور ملک میں جمہوری اداروں، اقلیتوں اور اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن اور تیز ہوگا۔
اسکالر فرانسس فوکویاما دلیل دیتے ہیں کہ لبرل جمہوریت قانون کی حکمرانی، جمہوری احتساب، اور ایک مؤثر ریاستی اپریٹس پر مبنی ایک میکانز ہے۔ اگرچہ ہندوستان نے قانون کی حکمرانی کے نفاذ اور مضبوط ریاستی اداروں کے قیام میں کامیابی حاصل کی ہے، مگر اس کی جمہوری سند اس وقت انتہائی تناؤکا شکار ہے۔
جب ہندوستان کی جمہوریت کی تنزلی کی بات آتی ہے، تو اس تشویش کے تین اہم جز ہیں۔ سیاست میں ہندو اکثریتی برانڈ کے عنصر کا داخل ہونا،ایگزیکٹو کے ہاتھوں میں ضرورت سے زیادہ طاقت کا ارتکاز، آزاد اداروں میں تنزلی؛ اور سیاسی اختلاف اور آزادی صحافت پر پابندی اور گودی میڈیا کا قیام اور اس کی حوصلہ افزائی۔ ان میں سے زیادہ اہم ہندو قوم پرستی کا عروج ہے۔
بی جے پی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کا ایک سیاسی بازو ہے جو کم از کم تین درجن ہندو قوم پرست تنظیموں کی نمائندگی کرتی ہے۔آر ایس ایس اور اس کے اتحادیوں کا استدلال ہے کہ ہندو ثقافت کو 12 صدیوں سے مسلم حکمرانوں اور پھر برطانوی نو آبادی نے دبا کر رکھا تھا، حتیٰ کہ 1950 کے آئین کو بھی وہ برطانیہ کے زیر اثر لبرل عناصر کی دین سمجھتے ہیں اور اس کو بھی ایک غیر ملکی استعمار کی نشانی کے طور پر مانتے ہیں۔
گو کہ کانگریس بھی آزادی اظہار پر حملوں کے معاملے میں کچھ کم نہیں تھی۔ ہمارے کئی سینئر کولیگ اندرا گاندھی کے دور کو یاد کرکے اس کے ذریعے 1975میں لگائی گئی ایمرجنسی کی یاد دلاتے ہیں۔ مگر اگر دیکھا جائے، کانگریس موقع پرستی کا استعمال کرتے ہوئے ان کو لوگوں نشانہ بناتی تھی، جو اس کے سیاسی مفادات کی راہ کاکا نٹا ہوتے تھے۔ مگر بی جے پی کا محور نظریاتی تنگ نظری کے ارد گرد گھومتا ہے۔
اس نے تو اب ہندو قوم پرستی کی حمایت کوہندوستان کے ساتھ وفاداری کے ساتھ نتھی کیا ہوا ہے۔ دنیا کی سب سے اس بڑی جمہوریت میں اقدار کی تنزلی جلد یا بدیر اس کے سماجی استحکام کو نشانہ بناکر خوشحالی اور اقتصادی ترقی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
مغربی دنیا چین کے خلاف جس مہرہ کو استعمال کرنا چا رہے ہیں، وہ کام کرنے سے قبل ہی پٹ جائےگا۔ یہ ان ممالک کے مفاد میں بھی ہے کہ ہندوستان میں جمہوری اقدار کو بچانے کے لیے فعال کردار ادا کریں اور اپنے تعلقات کو اداروں کی آزادی، اقلیتوں کے تحفظ نیز دیگر ایسے ایشوز کے ساتھ مشروط کردیں۔
Categories: فکر و نظر