کشمیر میں میڈیا بلیک آؤٹ اور ریاستی جبر پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے 15 مارچ کو گاندھی پیس فاؤنڈیشن میں ایک سیمینارہونے والاتھا۔ چند روز قبل ہی بھارت میں فاشزم کے موضوع پر ایک اور سیمینار کوپولیس نے منظوری نہیں دی، منتظمین نے اسے دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، پھر پولیس کے فیصلے کو رد کیاگیا۔
نئی دہلی: دہلی پولیس نے کشمیر میں میڈیا بلیک آؤٹ اور ریاستی جبر پر چرچہ کرنے کے لیے ایک اور پروگرام کومنظوری دینے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ پروگرام بدھ (15 مارچ) کو گاندھی پیس فاؤنڈیشن میں ہونا تھا۔
ابھی کچھ دن پہلے دہلی ہائی کورٹ نے ‘موجودہ ہندوستان کے تناظر میں فاشزم کی تفہیم‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کو رد کرنے کے دہلی پولیس کے آرڈر کو منسوخ کر دیا تھا۔
دہلی پولیس نے ایک حکم نامے میں کہا کہ اس کے پاس ان پٹ ہیں کہ اگر پروگرام کو ہونے دیا گیا تو لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔
دہلی پولیس نے کہا ہے کہ ان کو موصول ہوئے ان پٹ میں کہا گیا ہے کہ ایونٹ کا انعقاد ایک ‘نامعلوم گروپ’ کر رہا تھا اور منتظمین سے رابطہ کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔
تاہم، سیمینار کا اعلان کرنے والے پوسٹر میں معروف منتظمین کی ایک لمبی فہرست ہے، جیسے اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی)، آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (آئیسا)، دہلی ٹیچرز فورم (ڈی ٹی ایف) اور نیشنل الائنس آف پیپل موومنٹس (این پی اے ایم)۔ ان تمام تنظیموں کے دفاتر دہلی میں ہیں اور یہ مختلف مسائل پر کافی سرگرم ہیں۔
اسی طرح مقررین میں ملک کے مختلف حصوں سے معروف لوگ بھی تھے۔ ان میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے سابق جج حسین، جموں و کشمیر سے سی پی آئی (ایم) کے سابق ایم ایل اے ایم وائی تاریگامی، سینٹ اسٹیفن کالج کی پروفیسر نندتا نارائن، مشہور دستاویزی فلمساز سنجے کاک اور مبصر انل چمڑیا شامل تھے۔
واضح ہو کہ اس سے قبل سماجی کارکنوں، وکلاء اور سیاست دانوں کے اجتماعی پلیٹ فارم ‘بھارت بچاؤ’ کے زیر اہتمام ‘موجودہ ہندوستان کے تناظر میں فاشزم کی تفہیم‘ کے موضوع پر دو روزہ قومی سیمینار کی منظوری دہلی پولیس نے نہیں دی تھی۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھاکہ یہ سیمینار لاء اینڈ آرڈر کومتاثر سکتا ہے۔ اس کے پیش نظر وہ اس پروگرام کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اس کے بعد منتظمین نے دہلی پولیس کے اس اقدام کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس نے پولیس کے حکم کو منسوخ کردیا۔ تاہم ہائی کورٹ نے سیمینار کے مقررین اور مدعو کرنے والوں کی تفصیلات پولیس کے ساتھ شیئر کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اس کے بعد یہ سیمینار 11 اور 12 مارچ کو دہلی کے ہرکشن سنگھ سرجیت بھون میں منعقد کیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں احکامات آئی پی اسٹیٹ کے ایس ایچ او نے پاس کیے تھے۔ چونکہ بھارت بچاؤ کے نمائندوں کو واقعے سے دو دن پہلے انکار موصول ہوا تھا، اس لیے وہ عدالت سے رجوع کر سکتے تھے اور حکم کو کالعدم کروا سکتے تھے۔ تاہم بدھ کو ہونے والے کشمیر پر سیمینار کے منتظمین کو دہلی پولیس کی جانب سے اسی دن دوپہر کو پروگرام منسوخ کرنے کے حکم کا علم ہوا، جس سے انہیں پولیس کی ہدایات پر عمل کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
سیمینار کے منتظمین میں سے ایک کارکنوں اور طلبہ کی ایک تنظیم، ‘اگینسٹ اسٹیٹ ریپریشن’ کے دیپک کمار نے کہا کہ دہلی پولیس کی جانب سے تقریب کی اجازت دینے سے انکار کا حکم 14 مارچ کا ہے، لیکن انہیں یہ تقریب کے دن (15 مارچ) سیمینار شروع ہونےسے تقریباً تین گھنٹے پہلے ہی ملا۔
انہوں نے کہا کہ جب تک منتظمین پروگرام کے لیے پہنچتے، پولیس نے گاندھی پیس فاؤنڈیشن کے دونوں دروازے بند کر دیے۔
دستاویزی فلم بنانے والے سنجے کاک، جنہیں سیمینار میں خطاب کرنا تھا، بدھ کو کہا، ‘جب میں آج دوپہر تقریباً 2 بجے گاندھی پیس فاؤنڈیشن پہنچا تو میں نے وہاں پولیس کی تعیناتی دیکھی۔ مجھے پولیس والوں نے بتایا کہ پروگرام منسوخ کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘لوگوں کے لیے یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ یہ خاموشی صرف کشمیر کی بحث تک نہیں رکتی اورنہ ہی آگے نہیں رکے گی۔ اس نے پہلے ہی ہندوستان میں جمہوری حقوق کے مختلف اظہار کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اور یہ خاموشی محض اظہار خیال کو دبانے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ جمہوریت کا تیزی سے گلا گھونٹ رہی ہے۔
اپنے فیس بک پروفائل پر تبصرہ کرتے ہوئے، نندتا نارائن نے کہا،آخری لمحات میں توہین آمیز طریقے سےسیمینار کی اجازت دینے سے منع کرنانہ صرف کشمیر میں ہی نہیں، بلکہ دارالحکومت دہلی سمیت پورے ہندوستان میں آزادی اظہار کو دبانے کے بارے میں وسیع پیمانے پر بھروسے کو مضبوط کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ہم نے 28 فروری کو سیمینار کے لیے گاندھی پیس فاؤنڈیشن کو بک کیا تھا۔ فاؤنڈیشن کے پاس منتظمین کے نام اور پروگرام کی تفصیلات تھیں۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ دہلی پولیس کس طرح منتظمین کو ‘نامعلوم’ کہہ سکتی ہے اور اس نے پروگرام کی تفصیلات کے لیے ہم سے یا گاندھی پیس فاؤنڈیشن سے رابطہ تک نہیں کیا۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Categories: خبریں