Author Archives

کرشن پرتاپ سنگھ

بہرائچ تشدد۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@SaralPatel)

بہرائچ: اتر پردیش کا سب سے غریب ضلع دنگے کی آگ میں کیوں جھلسا؟

نیتی آیوگ کے مطابق، بہرائچ اتر پردیش کا غریب ترین ضلع ہے، جس میں کل آبادی کے 55 فیصد لوگ غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لیکن حالیہ دہائیوں میں تیزی سے طاقتور ہوتے گئے ہندوتوا کو یہ المناک یا توہین آمیز نہیں لگتا۔

(تصویر: دی وائر)

یوپی: ایودھیا کی ہارکا بدلہ لینے کے لیے بی جے پی ملکی پور ضمنی انتخاب کو فرقہ وارانہ رنگ دینے پر آمادہ

اتر پردیش میں ایودھیا ضلع کی ملکی پور اسمبلی سیٹ کے آئندہ ضمنی انتخاب میں بھدرسا قصبے کی ایک نابالغ کے ساتھ مبینہ گینگ ریپ کے معاملے کو دیگر انتخابی ایشوز پر حاوی کرنے کی کوششیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں، جبکہ بھدرسا ملکی پور اسمبلی حلقہ کا حصہ بھی نہیں ہے۔

یوگی آدتیہ ناتھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

یوپی: کیا ’ٹھوک دو‘ کے اصول پر عمل پیرا حکومت کے راج میں عام آدمی جرائم سے زیادہ محفوظ ہو گیا ہے؟

یوگی حکومت کے سات سالوں میں اتر پردیش میں جرائم کے خاتمے کے کئی بلند و بانگ دعوے کے باوجود ایسے پولیس ‘انکاؤنٹر’ کی ضرورت ختم نہیں ہو رہی جہاں فرار ہونے کی مبینہ کوشش میں ملزم کو مار گرایا جاتا ہے۔ یا پولیس جس کو زندہ گرفتار کرنا چاہتی ہے، گولی اس کے پاؤں میں لگتی ہے، ورنہ

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)

آج ملک میں آزادی ہے یا محض آزادی کا دھوکہ؟

مساوات کے بغیر آزادی اور آزادی کے بغیر مساوات مکمل نہیں ہو سکتی۔ بابا صاحب امبیڈکر کا بھی یہی ماننا تھا کہ اگر ریاست سماج میں مساوات قائم نہیں کرتی ہے تو ملک کے باشندوں کی شہری، اقتصادی اور سیاسی آزادی محض دھوکہ ثابت ہوگی۔

(تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

’میں یہاں نوکری کرنے نہیں آیا …‘ یوگی آدتیہ ناتھ کس سے اور کیا کہنا چاہتے ہیں؟

اتر پردیش اسمبلی میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ گزشتہ ہفتے یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ ‘میں یہاں نوکری کرنے نہیں آیا ہوں … مجھے اس سے زیادہ عزت اپنے مٹھ میں مل جاتی ہے ۔’ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کی نگاہ میں وزیر اعلیٰ کا باوقارعہدہ گئو رکش پیٹھادھیشور کے عہدے سے کمتر ہے؟

چندر بابو نائیڈو، پی ایم نریندر مودی اور نتیش کمار۔ (تصویر بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنز، پی آئی بی اور فیس بک)

’بادشاہ گروں‘ کے ساتھ مودی حکومت کا حشر کیا سابقہ مثالوں سے الگ ہوگا؟

اس ملک میں بادشاہ گروں کی سیاست کی تاریخ بتاتی ہے کہ عام طور پراس کا کوئی خوش کن انجام نہیں ہوتا، کیونکہ نہ تو کنگ میکر اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھانے میں صبر وتحمل سے کام لیتے ہیں اور نہ ہی ‘کنگ’ ان کے تمام مطالبات تسلیم کر پانے کے اہل ہوتے ہیں۔

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

نریندر مودی لفاظی کے سہارے کب تک زمینی حقائق سے چشم پوشی کر سکتے ہیں؟

نریندر مودی اپنی تقریروں میں لفظی بازی گری کا نمونہ پیش کرتے رہتے ہیں – کبھی معجز نمائی کے لیے تو کبھی ‘دانشوری’ بگھارنے کے لیے۔ حالاں کہ آئندہ 23 جولائی کو جب ان کی تیسری سرکار کا پہلا بجٹ آئے گا تو وہ اس ‘المیہ’ سے دو چار ہوں گے کہ لفظی بازی گری کا اب ایسا کون سا نیا نمونہ پیش کریں اور کس طرح پیش کریں؟

سرسنگھ چالک موہن بھاگوت۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@RSSOrg)

حزب اختلاف کا کردار اور آر ایس ایس کی وہی پرانی سازش …

اٹل بہاری واجپائی کی وزارت عظمیٰ میں طاقتور اپوزیشن کی جانب سے ان پر اور ان کی حکومت کے خلاف کیےجانے والے سفاک حملوں کی دھارکند کرنے کے لیے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے واجپائی پر اپنی طرف سے منصوبہ بند اور اسپانسر حملے کیے تھے۔ آج نریندر مودی کے سامنے بھی مضبوط اپوزیشن ہے، اور سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت اسی تجربے کا اعادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

2024 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد بی جے پی ہیڈ کوارٹر میں نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: بی جے پی)

بی جے پی کے بہی خواہ اتر پردیش کے رائے دہندگان کے فیصلے کو قبول کیوں نہیں کر پا رہے

جہاں بی جے پی ایس پی (اور کانگریس) کی جانب سے اتر پردیش میں دی گئی گہری چوٹ کو ٹھیک سے سہلا تک نہیں پا رہی، اس کے بہی خواہ دانشور اور تجزیہ کار مدعی سست گواہ چست کی طرز پر اس چوٹ کو معمولی قرار دینے کے لیے یکے بعد دیگرے ناقص اور بودی دلیل لا رہے ہیں۔

السٹریشن، دی وائر/ پری پلب چکرورتی

ملک کو 9 وزیراعظم دینے والا صوبہ اترپردیش کیوں ہے بد حال

وزرائے اعظم کے انتخابی حلقوں کے رائے دہندگان وی آئی پی سیٹ کے گمان میں بھلے جیتے رہیں، لیکن اس سے ان کے سماجی و سیاسی شعور پر کوئی فرق پڑتا نظر نہیں آتا۔ اور نہ ہی وزیر اعظم کی موجودگی ایسے علاقوں کے مسائل کو حل کر پاتی ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: PIB/Twitter)

انتخابی مہم میں مذہبی مقامات کو استعمال نہ کرنے کی الیکشن کمیشن کی نصیحت کا کیا مطلب ہے؟

اگر الیکشن کمیشن واقعی اپنی نئی ایڈوائزری کے حوالے سےسنجیدہ ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، اس کا جواب دیا جانا چاہیے کہ اس بار اس کی تعمیل کے لیے کون سا نیا نظام بنایا گیا ہے جن سے یقین ہو کہ پچھلی بار کی طرح اس بار کوئی جانبداری نہیں کی جائے گی؟

ایودھیا کے رام جنم بھومی پولیس اسٹیشن میں جمع ہوئے چھینا جھپٹی کا نشانہ بننے والے تلنگانہ کے عقیدت مند۔ (تصویر: کرشن پرتاپ سنگھ)

ایودھیا آنے والے عقیدت مندوں کے ساتھ پیش آنے والے حادثات اور واقعات کو میڈیا رپورٹ کرنے سے گریز کیوں کر رہا ہے؟

ایودھیا میں میڈیا کے ایک حصے کی طرف سے ‘منفی’ خبروں سے انکار کرنے کا سلسلہ رام مندر کی پران —پرتشٹھاکی تقریب کے اگلے دن ہی شروع ہو گیا تھا۔ اسی وقت، جب رام للا کے درشن کے لیے جمع ہونے والے ہجوم کی دھکا مکی میں کچھ لوگ زخمی ہوگئے تھے اور ان میں سے ایک کی موت ہو گئی تھی، تو میڈیا نے اسےنشر کرنے سے گریز کیا تھا۔

ایودھیا میں رام مندر کی پران—پرتشٹھا کی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

رام اتسو بنام جشن جمہوریہ !

ہندوستان ایک ریاست جمہوری کے طور پر اس حقیقت کو کیسے فراموش کرے گا کہ اس کے لیے وزیر اعظم نے ‘دھرم آچاریہ’ کا چولا پہن لیا تھا اور ان کے ‘سپہ سالار’ انھیں وشنو کا اوتار کہہ رہے تھے اور پران—پرتشٹھا کی تاریخ کو 15 اگست 1947 جیسا اہم بتا رہے تھے۔

دلکشا میں جاری تزئین و آرائش کا کام۔ (تمام تصاویر: کرشن پرتاپ سنگھ)

ایودھیا: آخری ٹریجڈی سے دو چار ہے نواب شجاع الدولہ کا ’دلکشا‘

گزشتہ دنوں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے سولہ کروڑ روپے کے اخراجات سےفیض آباد میں اودھ کے نواب شجاع الدولہ کےتاریخی محل ‘دلکشا’ کی تزئین و آرائش کا اعلان کیا، تو لوگ حیران رہ گئے۔ تاہم اس کے بعد ’دلکشا‘ کو ’ساکیت سدن‘ کا نام دے کر اس کی شناخت کو مٹانے میں بھی کوئی تاخیر نہیں کی گئی۔

ایودھیا میں زیر تعمیر رام مندر۔ (تصویر بہ شکریہ: شری رام جنم بھومی تیرتھ)

ایودھیا: بن بلائے ’پران — پرتشٹھا‘ کی تقریب میں نہ آنے کی اپیل کا کیا مطلب ہے؟

رام مندر ٹرسٹ کے سکریٹری چمپت رائے کی اپیل سن کر بے ساختہ ‘اگیہ’ یاد آ گئے، جن کا کہنا تھا کہ ‘جو نرماتا رہے/ اتہاس میں وہ / بندر کہلائیں گے’۔اگیہ کی اس شعری صداقت سےرام مندر کے لیے جدوجہد کرنے والے کار سیوکوں اور رام سیوکوں کو کیوں روبرو کرایا جا رہا ہے؟

اس سال کی شروعات میں ایودھیا میں ہوئی انہدام کی ایک کارروائی۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@AyodhyaDevelopmentAuthority)

اب ایودھیا بابری انہدام کے دور سے نکل کر مکانات اور دکانوں کے انہدام کے دور میں داخل  ہو چکی ہے

آج ایودھیا کے ‘بڑےبڑے’ مسائل نے کئی ‘چھوٹے’ مسائل کو اتنا چھوٹا بنا دیا ہے کہ وہ نہ صحافی کو نظر آتے ہیں اور نہ ہی سرکاری عملے کو۔ ایسے میں ایودھیا کے ان عام باشندوں کے مسائل بے توجہی کا شکار ہیں جو ‘اونچی اڑانوں’ پر نہیں جانا چاہتے یا جن کو ان اڑانوں کے منتظمین اپنے ہمراہ نہیں لے جانا چاہتے۔

ایودھیا کی ایک سڑک۔ (تصویر بہ شکریہ: پی پی یونس/CC BY-SA 4.0)

یوپی: اب جب کہ ایودھیا میں ڈینگو نیا ریکارڈ بنا رہا ہے تو کہیں درج کیوں نہیں ہو رہا؟

اس بار دیوالی کے موقع پر جب اتر پردیش حکومت ایودھیا میں دیپ اتسو منا رہی تھی، شہر کے لوگوں میں ڈینگو کا خوف نظر آ رہا تھا۔ ضلع میں 2021 میں ڈینگو کے کل 571 اور 2022 میں مجموعی طور پر 668 مریض پائے گئے تھے، جبکہ رواں سال میں اب تک یہ تعداد آٹھ سو سے تجاوز کر چکی ہے۔

'نئے لوگ' اور 'جن مورچہ' میں 1985 میں گمنامی بابا سے متعلق خبریں۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

’گمنامی بابا‘ کو نیتا جی ثابت کرنے کی کوششوں کے پس پردہ آخر منشا کیا تھی؟

تقریباً چالیس سال قبل ایودھیا میں رہنے والے ‘گمنامی بابا’ کو سبھاش چندر بوس بتائے جانے کی کہانی ایک مقامی اخبار کی سنسنی خیز سرخی کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد نیتا جی کےلیے جذبات کی رو نے لوگوں کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں دلیل اور منطق کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔

ایودھیا کی بدر مسجد۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

ایودھیا: ایک مسجد کی زمین شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کو فروخت کرنے پر تنازعہ کیوں ہوا؟

زیر تعمیر رام مندر کمپلیکس کے قریب واقع ‘مسجد بدر’ کی اراضی کے مبینہ متولی کی جانب سے اسے 30 لاکھ روپے میں شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کو فروخت کرنے کے ‘خفیہ’ معاہدے اور آدھی رقم پیشگی کے طور پرلینے پر مسلم نمائندوں نے سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سودا کرنے والے نہ ہی متولی ہیں، اور نہ ہی وقف بورڈ کی ملکیت ہونے کے باعث ان کے پاس اس کو فروخت کرنے کا اختیار ہے۔

قاضی نذرالاسلام۔ (فوٹو بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس)

قاضی نذرالاسلام:  ہندو ہیں یا مسلمان، یہ سوال کون پوچھتا ہے؟

یوم وفات پر خاص: تحریک عدم تعاون کے پس منظر میں لکھی گئی نظم میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی پکار کے بعد نذرالاسلام ‘باغی شاعر’ کہلائے۔ استعماریت، مذہبی انتہا پسندی اور فسطائیت کے خلاف ان کی شاعری سے ہی انڈو-اسلامک نشاۃ ثانیہ کا آغاز تصور کیا جاتا ہے۔

ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@HaryanaCMO)

منوہر لال کھٹر ہریانہ کے تمام لوگوں کو سیکورٹی کیوں نہیں دے سکتے؟

غلامی کے دور میں غیر ملکی حکمرانوں تک نے اپنی پولیس سے عوام کے جان و مال کے تحفظ کی امید کی تھی، لیکن اب آزادی کے امرت کال میں لوگوں کی چنی ہوئی حکومت اپنی پولیس کے بوتے سب کو تحفظ دینے سے قاصر ہے۔

ایودھیا میں کھجور والی مسجد۔ (تصویر: حسین رضوی)

ایودھیا کی ’کھجور والی مسجد‘ چرچے میں کیوں ہے

ایودھیا کے گدڑی بازار میں واقع کھجور والی مسجد کا ایک مینار شہر میں زیر تعمیر ‘رام پتھ’ کی مجوزہ چوڑائی کے دائرے میں آ رہا ہے۔ محکمہ تعمیرات عامہ کی جانب سے مسجد کمیٹی کو مینار ہٹانے کا نوٹس دیے جانے کے بعد معاملہ ہائی کورٹ پہنچ چکا ہے۔

اندرا گاندھی اور نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/ پی آئی بی)

اندرا گاندھی نریندر مودی جتنی ’خوش قسمت‘ ہوتیں، تو انہیں ایمرجنسی کی ضرورت نہ پڑتی !

اندرا گاندھی اگر نریندر مودی کی طرح ایمرجنسی کے بغیرہی ویسے حالات پیدا کر کے جمہوری اور آئینی اداروں کو تنزلی کی راہ پر گامزن کر سکتیں، توبھلا وہ ایمرجنسی کا اعلان کیوں کراتیں؟

ایک پینٹنگ جس میں اورنگ زیب(بیچ میں) کے دربار کو دکھایا گیا ہے۔ ( بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس)

مغلیہ دور کی تاریخ کو نصاب سے باہر نکال کر ’اورنگ زیب–اورنگ زیب‘ کھیلنا کیا کہتا ہے؟

اس کثیر لسانی اورکثیر المذاہب ملک میں صلح، مفاہمت،ہم آہنگی اور امن کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے،اس اہم نکتے کو اکبر کے زمانے میں یعنی سولہویں صدی میں ہی سمجھ لیا گیا تھا، پھر اس کو آج کیوں نہیں سمجھا جا سکتا؟

ایودھیا میں مہنت متھلیش نندنی شرن کے آشرم میں برج بھوشن شرن سنگھ ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/@brijbhushansharan)

کون ہیں ایودھیا کے وہ ’سنت‘ جو جنسی ہراسانی کے ملزم برج بھوشن شرن سنگھ کا دفاع کر رہے ہیں؟

پہلوانوں کی طرف سے جنسی ہراسانی کے الزام کا سامنا کر رہے بی جے پی ایم پی برج بھوشن شرن سنگھ کی حمایت میں ایودھیا کے ‘سنتوں’ کا ایک گروپ آواز بلند کر رہا ہے، اور الزام لگانے والی خواتین کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس کےساتھ ہی وہ پاکسو قانون کو ‘ناقص’ قرار دیتے ہوئے اس میں تبدیلی کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔

سینئر صحافی شیتلا سنگھ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

شیتلا سنگھ: ’مجھے اس بات کا اطمینان ہے کہ میں ساری عمر عوامی حقوق کی نگہبانی کرتا رہا‘

وفاتیہ: بزرگ صحافی شیتلا سنگھ نہیں رہے۔صحافت میں سات دہائیوں تک سرگرم رہتے ہوئے انہوں نے ملک اور بیرون ملک راست گفتارکی سی امیج اور شہرت حاصل کی اور اپنی صحافت کو اس قدرمعروضی بنائے رکھا کہ مخالفین بھی ان کے پیش کردہ حقائق پر شک و شبہ کی جرأت نہیں کرتے تھے۔

وزیر اعظم نریندر مودی انتخابی مہم کے دوران۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/نریندر مودی)

کرناٹک انتخابات: بی جے پی کے ہندوتوا کی گدگداہٹ اب ہنسانے کے بجائے رلانے لگی ہے

وزیر اعظم نریندر مودی نے جس طرح کرناٹک اسمبلی انتخابات کو اپنی شخصیت سے جوڑ کر پوری مہم میں اپنے عہدے کے وقارتک سےسمجھوتہ کیا اوررائے دہندگان نے جس طرح ان کی باتوں کو نظر انداز کیا، اس سے یہ پیغام واضح ہے کہ بی جے پی کے ‘مودی نام کیولم’ والے سنہرے دن بیت گئے ہیں۔

(السٹریشن: دی وائر)

’ہم کو شاہوں کی عدالت سے توقع تو نہیں، آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں‘

وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘جب کورٹ کوئی فیصلہ سناتا ہے تو کورٹ پر سوال اٹھایا جاتا ہے…(کیونکہ) کچھ پارٹیوں نے مل کر بھرشٹاچاری بچاؤ ابھیان (بدعنوانی کرنے والے کو بچانے کی مہم)چھیڑا ہوا ہے۔’ تاہم یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ جمہوریت کا کوئی بھی تصور ‘عدالت پر سوالوں’ سے منع نہیں کرتا۔

(فوٹو بہ شکریہ: اسکرین گریب)

وہ رہنماؤں کی دشمنی کے نہیں، آپسی تعاون اور لین–دین کے دن تھے

اس وقت ہماری سیاست میں اس قدر تنزلی نہیں آئی تھی کہ سیاست دان اپنے حریفوں کو دشمن کی طرح دیکھتے، دشمنوں کی طرح ان کی لعنت ملامت کی جاتی یا ان کو نیچا دکھانے کی کوشش میں اپنے آپ کو ان سےبھی نیچے گرا لیا جاتا۔

اروند کیجریوال سومناتھ مندر میں۔ (فوٹو بہ شکریہ: Facebook/@AAPkaArvind)

بی جے پی سے زیادہ ہندوتوادی بن کر کیا پائے گی عام آدمی پارٹی

ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اروند کیجریوال کے نوٹ–راگ نے ضروری مسائل اور جواب دہی سے ہم وطنوں کی توجہ ہٹا کر فائدہ اٹھانے میں بی جے پی کی بڑی مدد کی ہے۔ اگر ماہرین صحیح ثابت ہوئے تو کیجریوال کی پارٹی کی حالت بھی ‘مایا ملی نہ رام’ والی ہو سکتی ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

آر ایس ایس کی صرف زبان بدلی ہے، سوچ نہیں

پچھلے کچھ دنوں سے آر ایس ایس لیڈروں کی زبان بدلی بدلی سی نظر آ رہی ہے، لیکن تبدیلی سنگھ کے ایجنڈے کا حصہ کبھی نہیں رہی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سنگھ نے ‘غیر سیاسی ہونے کی سیاست’ کرتے ہوئے اپنے سویم سیوکوں کو اقتدار کی چوٹی تک پہنچایا ہے اور کیسے وہ جمہوری اور آئینی اقدار کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

ہیٹ اسپیچ پر مودی حکومت خاموش ہےکیوں کہ اس کاسب سے زیادہ فائدہ وہی اٹھا رہی ہے

سپریم کورٹ نے ہیٹ اسپیچ کی بات کر کے ملک کی دکھتی نبض پر ہاتھ رکھا ہے، لیکن جہاں تک اس سلسلے میں’مرکز کے خاموش تماشائی بن کر بیٹھنے’ والے سوال کی بات ہے تویہ سوال پوچھنے والے کو بھی پتہ ہے اور ملک کی عوام کو بھی کہ اس سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے۔

وی پی سنگھ (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

وی پی سنگھ : سیاست میں سماجی انصاف نافذ کرنے والا شخص

یوم پیدائش پر خاص : وی پی سنگھ کہا کرتے تھے کہ سماجی تبدیلی کی جو مشعل انہوں نے جلائی ہے اور اس کے اجالے میں جو آندھی اٹھی ہے، اس کا منطقی عروج تک پہنچنا ابھی باقی ہے۔ ابھی تو سیمی فائنل ہوا ہے اور ہو سکتا ہے کہ فائنل میرے بعد ہو۔ لیکن اب کوئی بھی طاقت اس کا راستہ نہیں روک پائے‌گی۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

بی جے پی کے لیے ملک کی شبیہ کا مطلب آخر کیا ہے …

اگر سنگھ پریوار سے وابستہ حکمراں اور ان کے پیروکارسمجھتے ہیں کہ ملک کی شبیہ مدھیہ پردیش میں محمد ہونے کے شبہ میں بھنور لال کو بھاجپائیوں کے ذریعےپیٹ پیٹ کر مار دیے جانے سے نہیں، بلکہ راہل گاندھی کے لندن میں یہ کہنے سے خراب ہوتی ہے کہ بی جے پی نے ملک میں مٹی کا تیل اس طرح چھڑک دیا ہے کہ ایک چنگاری بھی ہمیں بڑی مصیبت میں مبتلا کرسکتی ہے، تو انہیں بھلا کون سمجھا سکتا ہے!

جہانگیر پوری میں ترنگا یاترا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نفرت کے خلاف عام شہریوں کا متحد ہونا مطمئن کرتا ہے کہ نفرت ہارے گی

ملک میں جہاں ایک طرف نفرت کے علمبردار فرقہ واریت کی خلیج کو مزید گہرا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف ان کی بھڑکانے اور اکسانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود عام لوگ فرقہ وارانہ خطوط پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہیں ہو رہے بلکہ ان کے منصوبوں کو سمجھ کرزندگی کی نئی سطحوں کوتلاش کرنے کی سمت میں بڑھن رہے ہیں۔

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

کیا ایگزٹ پول کے نتائج پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟

ایگزٹ پول کی شکل میں جو قیاس آرائیاں مشتہر کی جارہی ہیں ان کی سب سے بڑی ٹریجڈی یہ ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی اپنے طریقہ کار کی سائنس اور معروضیت پر اتنا یقین نہیں ہے کہ اسے قیاس آرائیوں سے زیادہ کچھ سمجھا جائے۔