بک ریویو: کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے ملزمان میں کمیونسٹ بھی شامل ہیں ۔ صاحب کتاب نے راجیہ سبھا میں بھی کانگریس کی نمائندگی کی لیکن کانگریس کے اندر فرقہ پرستی کا جو زہر پھیل رہا تھا وہ اسے نظر انداز نہیں کر سکے اور ایک سچے مؤرخ کی طرح انہوں نے حقائق سامنے رکھ دیے ۔
حقانی القاسمی لکھتے ہیں؛اس لائبریری میں اتنا قیمتی ذخیرہ ہے کہ برٹش میوزیم نے اس کے عوض غیرمعمولی رقم کی پیش کش کی مگر خدا بخش کے جذبے نے اس پیشکش کو یکسر مسترد کردیا۔ انہوں نے صاف کہا کہ ؛مجھ غریب آدمی کو یہ شاہی پیش کش منظور نہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ 1947میں تقسیم کے وقت جب پنجاب اور اس کے 24راجواڑوں میں کشت و خون کا بازار گرم تھا تو دہلی سے 300 کیلومیٹر دور مسلم اکثریتی مالیر کوٹلہ ایک جزیرہ امن کی طرح قائم رہا۔ یہاں کسی کا خون بہا نہ کسی کو ہجرت کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ پورے مغربی پنجاب میں یہ واحد علاقہ ہے، جہاں مسلمانوں کی تعداد 65فیصدہے۔
نوال السعدوی جدوجہد کے لیے لکھائی کو سب سے بڑا ہتھیار تصور کرتی تھیں۔شاید اسی لیے اُنھوں نے کہا تھا کہ،موت کی طرح لکھائی کو بھی کوئی ہرا نہیں سکتا۔انہوں نے پوری زندگی موت کی دھمکیوں کا سامنا کیا۔
آسام کی فلم ساز رجنی بسومتاری نے ان کی بوڈو فلم جو لے:دی سیڈ کو نیشنل ایوارڈ نہ دیے جانے پر مایوسی کا ا ظہار کرتے ہوئے ایوارڈ کمیٹی کے چیئرمین این چندرا کو خط لکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار کی جانب سے چھوٹی ثقافتی برادریوں ، ان کی زبان اور ثقافت کے تحفظ کے وعدوں کے بیچ کسی بوڈو فلم کا ایسی فلم کے ہی زمرے میں نہ چنا جاناجیوری ممبروں کی ناکامی ہے۔
انٹرویو:’ہم اردو شاعری کے عہد جالب میں رہ رہے ہیں…‘خواتین کی جو آزادی ہے، وہ ہمیشہ بڑی عزیز رہی ہے۔ وہ چاہے ایک رقاصہ ہو یا کوئی بڑی خاتون، مغنیہ ہو یا دفتر کی خاتون ان کی ایک عزت ہے۔مشاعرے میں پڑھنے کے میں پیسے نہیں لیتا۔ مشاعرے میں جاتا ہوں اپنی مرضی سے نظمیں پڑھتا ہوں۔
وقت کے آمروں کو للکارنے والی ایک توانا آواز اور شاعر عوام حبیب جالب کی انقلابی شاعری آج بھی تازہ ومعطر ہے۔
اردو میں شاعری کی کتابیں مسلسل چھپ رہی ہیں،لیکن کیا وہ پڑھی جارہی ہیں؟ اگر پڑھی جارہی ہیں تو کیا صرف شاعرا ور ادیب اور زیادہ تر صاحب ِ کتاب کے دوست ہی انھیں پڑھ رہے ہیں یا باقی لوگ بھی؟
کبیر کا بنیادی مقصد، آزادی، اخوت، اتحاد، مساوات اور ہر انسانی فرد کا ممکنہ ارتقا تھا۔
حبیب تنویر اور مالک رام کی کنوینر شپ کے زمانے میں کئی بار اردو کی کسی کتاب کو انعام کے لائق نہیں سمجھا گیا ۔اس زمانے میں بھی یہ سوالات اٹھے کہ یہ کیسی بد نصیب زبان ہے کہ تین برس کے دورانیے میں ایک بھی ایسی کتاب شائع نہ ہوسکی جسے ساہتیہ اکادمی قابل توجہ سمجھتی ۔سچا علمی حلقہ اسی زمانے میں یہ بات سمجھنے لگا تھا کہ کسی مصلحت ،سازش یا حسد میں کچھ لوگوں کو انعام کا مستحق نہیں ماننے کے لیے یہ روایت قائم کی گئی تھی۔
بک ریویو: قمر صدیقی کا مجموعہ کلام مسلسل رابطہ کے محور پر گردش کرنے والی کائنات کے سلسلے میں پوری تخلیقی توانائی کے ساتھ باور کراتا ہے کہ اب تعلق نہیں بلکہ التباس تعلق ہی ہماری حسی کائنات کو منور کرتا ہے اور یہی اس عہد کا المیہ بھی ہے جس کا عرفان عام نہیں ہے۔
اگر کوئی مجھ سے کہے کہ اس کتاب کی خصوصیت کو ایک جملے میں بتائیں ، تو میں کہوں گا کہ اس کتاب میں شمس الرحمن فاروقی کو دوسروں کی زبان سے کم خود مرحوم کی اپنی زبان سے زیادہ یاد کیا گیا ہے ۔
ساحر بڑا شاعر ہے اس لیے بھی کہ ان کی شاعری میں اقتدار، آئین،سماج اور سیاست سے سوال ہے۔
ڈاکٹر رشید امجد حقیقی معنوں میں ’سیلف میڈ‘ انسان تھے۔ اپنی تعلیمی استعداد کو بڑھانے اور ایک عطا کرنے والے استاد کی حیثیت سے احترام پانے کا معاملہ ہو یا ایک تخلیق کار کی حیثیت سے اپنی راہ خود تراش کر نمایاں ترین ہوجانا، اس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد اور ’فنافی الادب‘ کاسا جنون صاف دیکھا جا سکتا ہے۔
فیض کا معاملہ یہ تھا کہ اس کے ہاں جسم کی موت اور زبان کی موت دو الگ الگ کیفیتیں تھیں جب کہ اس نئے عہد کے جملہ وارثان کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے لیے زبان کی موت سرے سے کوئی حادثہ ہی نہیں ہے۔
انتظار حسین کی پانچویں برسی پر خصوصی تحریر: پھر آئے گی، جی یہی نام ہے اُس افسانے کا اور یہ نام منٹو کا رکھا ہوا ہے۔انتظار حسین کے مطابق منٹو نے افسانے کا مسودہ نکال کر کہا یہ تم نے کیا لکھا ہے۔یہ “وہ” کون ہے۔ “وہ” اس کہانی کا پہلا نام تھا۔ انہوں نے کچھ اور اعتراض بھی کیے اور نہ نظر آنے والی لڑکی کا کردار ایک بار پھر لکھنے کو کہا۔ وہ تبدیل شدہ افسانہ لکھ کر لے گئے تو منٹو نے کہا “یہ عنوان بھی ٹھیک نہیں۔ “وہ” کیا ہوتا ہے؟ “بکواس”۔
منو بھائی کی تیسری برسی پرخصوصی تحریر:یہ ماں سے محبت ہی تھی کہ وہ لکنت کا شکار ہو گئے۔ اِس لکنت کا سبب ماں کے گال پر پڑنے والا وہ تھپڑ تھاجو طیش میں آکر منو بھائی کے والد نے جڑ دیا تھا۔ یہ منو بھائی کے بچپن کا واقعہ ہے مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ چیزوں کو بہت سمجھنے لگے تھے۔ ماں کو یوں پٹتا دیکھ کر وہ چارپائی کے نیچے چھپ گئے اور جب وہ وہاں سے نکلے تو لکنت کا شکار ہو چکے تھے۔
فراز کی غزل میں جذبوں کی شدت کا اظہار بھی کلیساؤں میں بجنے والی ان گھنٹیوں جیسا ہے جن پر لٹکنیں پڑتی ہیں تو ایک گونج اٹھتی ہے اور پھر گھنٹیوں کے پردے دیر تک ایک لرزاہٹ بھی فضا کا حصہ بنادیتے ہیں۔
نوے کی دہائی میں دوردرشن پر نشر ہوئے سیریل‘شانتی’ سے چرچہ میں آئے اداکار راجیش جیس حال ہی میں‘اسکیم 92’،‘پاتال لوک ’اور ‘پنچایت’جیسی ویب سیریز میں نظر آ چکے ہیں۔ ان سے پرشانت ورما کی بات چیت۔
نئےزرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے کسانوں کو پنجاب کے گلوکاروں کی طرف سےبھی بڑے پیمانے پر حمایت مل رہی ہے۔ نومبر کے اواخر سے جنوری کے پہلے ہفتے تک الگ الگ گلوکار وں کے دو سو سے زیادہ ایسے گیت آ چکے ہیں، جو کسانوں کے مظاہروں پرمبنی ہیں۔
مجھے اعتراف ہے کہ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنہیں فاروقی صاحب نے بھارت میں متعارف کروایا۔ میرے ناول’’مٹی آدم کھاتی ہے‘‘ کا دیباچہ لکھا۔ میرے افسانے ’’شب خون‘‘ میں شائع کیے۔ اور جب ایک درسی کتاب ’’انتخاب نثر اردو ‘‘ کو مرتب کرنے کا موقع نکلا تو پاکستان سے انہوں نے دو افسانہ نگاروں کے افسانے اس کا حصہ بنائے ؛ انتظار حسین کا ’’بادل‘‘ اور اس خاکسار کا ’’لوتھ‘‘۔
خصوصی تحریر: میرے الٰہ آباد کے اس مسلسل سفر میں فاروقی صاحب سے ہونے والی ملاقاتوں کا حاصل یہ ہے کہ میں نے انھیں ان مضامین کی فہرست تیار کرنے پر آمادہ کرلیا تھا، جو شائع نہیں ہوئے تھے۔ ان مضامین میں بڑی تعداد انگریزی تحریروں کی تھی […]
آج میرے سر سے ایک سایہ پھر سے اٹھ گیا، آج پھر سے یتیمی کا احساس شدید تر ہوتا چلاگیا۔ آج پھر کوئی ‘ بولو بیٹا’ کہنے والا نہیں رہا۔ ایک پھر میں اسی صدمے سے دوچار ہوں جب اپنے والد کی محبتوں سے محروم ہوئی تھی ۔
اردو شاعری خصوصاً جدید اردو شاعری میں دلچسپی رکھنے والوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے ـ۔
بک ریویو: آڈری ٹروشکی نے اپنی اس کتاب کے ذریعے ان کی درست تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ کتاب ہمیں بہت سی ایسی باتیں بتاتی ہے، جو ملک کی بھگوا سیاست اور بھگوا تاریخ و صحافت ہم سے چھپاتی ہے ۔ مثلاً یہ تو بتایا جاتا ہے کہ اورنگزیب نے ہولی پر روک لگائی تھی مگر یہ چھپایا جاتا ہے کہ اورنگزیب نے عید اور بقرعید پر بھی روک لگائی تھی ۔
’گرم ہوا‘پہلی فلم تھی جس میں تقسیم ملک کے فوراً بعد ہندوستانی مسلمانوں کے تجربے کو سلیقے سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔گرم ہواکے بننے سے پہلے تک مقبول ہندی فلموں میں خاص کر مسلم کرداروں کو ٹوکن کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔
بھگت سنگھ کی تحریروں سے سن و سال مٹا دیجیے ،اس کے بعد پڑھیے ،ایسا محسوس ہوگا کہ بھگت سنگھ ہمارے زمانے میں لکھ رہے ہیں موجودہ سیاسی منظر نامے اور اس کی “گودی میڈیا” کی بات کر رہے ہیں۔
یوم وفات پر خاص:عاشق فوٹو گرافر کی آواز گو بہت پتلی تھی لیکن وہ ‘اے عشق کہیں لے چل’ بڑے سوز سے گایا کرتا تھا۔ میں نے جب بھی اس کے منہ سے یہ نظم سنی مجھ پر بہت اثر ہوا۔ اس زمانے میں چونکہ طبیعت میں انتشار تھا۔ اس لیے یہ نظم مجھے اپنے کندھوں پراٹھاکر دور، بہت دور اَن دیکھے جزیروں میں لے جاتی تھی۔
اس کتاب نے ’مجرموں‘ کے چہروں کو، کچھ پختہ شہادتیں اور ثبوت پیش کر کے مزید عیاں کر دیا ہے ۔سیکولر چہرے جنہوں نے ایودھیا تنازعے کا ’استعمال‘ یا ’استحصال‘ اپنے سیاسی قد کو بڑھانے کے لیے کیا، اور مسلم قیادت کے وہ چہرے جو جان دینے اور لینے کی باتیں کرکے عام مسلمانوں کو بیچ راہ میں چھوڑ گئے، اور اس طرح چھوڑ گئے کہ ’ہندوتوادیوں‘ کو اپنے مذموم منصوبے پر عمل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی ۔
استعارہ کا پہلا شمارہ شائع ہوا تو اس پر نصرت ظہیر نے اپنے مخصوص انداز میں ایک کالم لکھا اور میرا ً بھی ذکر خیر نمبر دو کے مدیر کی حیثیت سے کیا۔ اس سے قطع نظر کہ نمبر دو سے ان کی مراد کیا تھی مجھے ان […]
ویڈیو: ایکٹر سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے بعد سے بالی وڈ میں اقربا پروری اورنیپوٹزم کو لےکر بحث تیز ہو گئی ہے۔اس موضوع پرمعروف ایکٹر منوج باجپائی سےعارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
تقسیم کے بعد بہت سے لوگ پاکستان چلے گئے۔ جو ہندوستان میں رہے وہ فکر مند ہونے لگے کہ کتب خانے کا مستقبل کیا ہو۔ 1960 میں 16 بیل گاڑیوں میں کتب خانے کی 7914 جلدیں لادی جانے کے بعد وہ پٹنہ کے خدا بخش لائبریری لائی گئیں جہاں وہ آج بھی محفوظ ہیں۔
خواجہ احمد عباس کی سنیمائی زندگی اور ان کےتخلیقی استعداد کے بارے میں بہت سی باتیں کہی اورلکھی جا چکی ہیں، لیکن آج ہندستان اور چین کے بیچ جاری کشیدگی میں ان کےناول ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی کی اہمیت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
گریش کرناڈ کے ڈراموں میں بےحد خوبصورت توازن دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں وہ ہندوستان کے اور مبینہ سنہری ماضی یا اسطوری دنیا کو خام موادکی طرح استعمال تو کرتے ہیں، لیکن اس کے پس پردہ عصری مسائل یا عصری سماج کے تضادات کو نمایاں کرتے ہیں۔
کشور ناہید کی 80 ویں سالگرہ پر لکھی گئی خصوصی تحریر: آج کی کشور ناہید، لب گویا، بے نام مسافت، گلیاں دھوپ دروازے، ملامتوں کے درمیان، بری عورت کی کتھا والی عورت ہے۔ کیا آپ ایک ایسی خاتون کو جانتے ہیں جو 80 ویں سالگرہ منارہی ہیں مگر […]
ویڈیو: معروف بالی وڈ اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی اچانک موت کے بعد بالی وڈ میں الزام تراشیوں کا دور شروع ہو گیا ہے اور انڈسٹری میں اقربا پروری کی روایت پر سوال اٹھنے شروع ہو گئے ہیں۔ اس مدعے پر دی وائر کے شیکھر تیواری کی ایکٹر جتن سرنا سے بات چیت۔
باسو چٹرجی کو سارا آکاش، رجنی گندھا، چھوٹی سی بات، اس پار، چت چور، کھٹا میٹھا، باتوں باتوں میں، شوقین، ایک رکا ہوا فیصلہ اور چمیلی کی شادی جیسی فلموں کے لیے جانا جاتا ہے۔ دوردرشن پرنشر ہونے والے مشہور سیریل بیومکیش بخشی اور رجنی کا ڈائریکشن بھی انہوں نے ہی کیا تھا۔
انتظار حسین مر گئے تو آصف جنازے میں شریک ہونے کے لیے کراچی سے فلائٹ لے کے لاہور پہنچے تھے۔ادھر اسلام آباد سے میں اور کشور ناہید وہاں پہنچے توآصف پہلے سےپہنچ گئے تھے ۔ مجھے دیکھا ، لپک کر آئے اور میرے گلے لگ کر یوں دھاڑیں مار مار کر روئے کہ میرے دل کا بوجھ بھی اتر گیا تھا۔ مجھے اپنے دل کا بوجھ اتارنا تھا کسی سے گلے لگ کر اور اُسی طرح دھاڑیں مار کر رونا تھاجیسے آصف اور میں انتظار حسین کی موت پرروئے تھے ۔
ویڈیو: امیزان پرائم پر آئی ویب سیریز ‘پاتال لوک’ لگاتار تنازعہ کے مرکز میں ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کو ہندوفوبک بتایا جا رہا ہے۔ اس کو لےکر آخر تنازعہ کیا ہے؟ سرشٹی شریواستو کا ریویو۔
ہندوستانی سنیما میں بھائی ساجد خان کے ساتھ ان کی جوڑی‘ساجد واجد’کے نام سے مشہور ہے۔ ‘وانٹیڈ’، ‘دبنگ’ اور ‘ایک تھا ٹائیگر’ جیسی سلمان خان کی کئی ہٹ فلموں میں انہوں نے موسیقی دی۔