ادبستان

دلیپ کمار۔ (فوٹوبہ شکریہ : وکی پیڈیا)

دلیپ کمار کا انتقال

ہندی فلموں میں‘ٹریجڈی کنگ’کے لقب سے مشہور دلیپ کمار 98سال کے تھے۔ پانچ دہائی کے لمبے کریئر میں انہوں نے ‘مغل اعظم’، ‘دیوداس’، ‘نیا دور’اور‘رام اور شیام’ جیسی متعدد ہٹ فلمیں دیں۔ ‘گنگا جمنا’، ‘مدھومتی’، ‘کرانتی’، ‘ودھاتا’، ‘شکتی’ اور ‘مشعل’ جیسی فلموں میں لاثانی اداکاری کے​ لیے انہیں جانا جاتا ہے۔

پارل کھکر۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک اکاؤنٹ)

گنگا میں بہہ رہی لاشوں کے لیے ’ننگے راجہ‘ پر انگلی اٹھانے والی گجراتی شاعرہ بی جے پی کے نشانے پر

گنگا میں بہتی لاشوں کو دیکھ کر افسردہ گجراتی شاعرہ پارل کھکر نے اپنی افسردگی کو چودہ مصرعوں کی ایک نظم میں ڈھال دیا ہے، جسے ادیبوں کے علاوہ عام لوگوں نے بھی پسند کیا۔ حالانکہ اس کے بعد بنیادی طور پرغیرسیاسی پارُل مقتدرہ بی جے پی کی ٹرول آرمی کے نشانے پر آ گئیں۔

شمیم حنف، فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

شمیم حنفی کی یاد میں

شمیم حنفی کی تنقید کو پڑھنے کا ایک لطف یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی بات ہمیشہ دھیمے پن سے اور دلیل سے کی ہے۔وہ اختلاف کو تنقید کے لیے باعث رحمت کہتے ہیں کہ اس سے ہی نئے مباحث کے دریچے کھلنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں تاہم اس میں بھی ایک تہذیب کے قائل رہے ہیں۔

رالف رسل، فوٹو بہ شکریہ: ارجمند آرا

رالف رسل کی یاد میں

رالف نے انگریزی دانوں کے درمیان اردو اور اپنے پسندیدہ شاعر غالب کو مقبول و معروف کرانے کاکام بھی اسی سنجیدگی سے عبادت کی طرح کیا۔ اردو کے ترویج کی ان کی کوششیں عملی ہیں— بحیثیت استاد بھی اور بہ حیثیت تنظیم کار بھی۔ غالب سے عشق ان متعدد کتابوں کی صورت میں ظاہر ہوا ہے جو انھوں نے وقتاً فوقتاً آکسفرڈ یونیورسٹی پریس اور دوسرے اشاعت گھروں سے شائع کرائی ہیں۔

Republic-of-Hindtva-Book-Photo-Amazon

ری پبلک آف ہندوتوا: ایک ایسی کتاب جو سنگھ کے اسٹرکچر اور طور طریقوں کے بارے میں بتاتی ہے

بک ریویو: پڑھے -لکھے شہریوں اور لیفٹ- لبرل طبقوں میں آر ایس ایس کو لےکر جو عقیدہ رہا ہے وہ یہ ہے کہ سنگھ بہت ہی پسماندہ تنظیم ہے۔ بدری نارائن کی کتاب ‘ری پبلک آف ہندوتوا: ہاؤ دی سنگھ از ری شیپنگ انڈین ڈیموکریسی’ دکھاتی ہے کہ سنگھ نے اس کے برعکس بڑی محنت سے اپنی امیج بنائی ہے۔

میری سیاسی سرگزشت

ایک قوم پرور مسلمان کی سیاسی سرگزشت

بک ریویو: کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے ملزمان میں کمیونسٹ بھی شامل ہیں ۔ صاحب کتاب نے راجیہ سبھا میں بھی کانگریس کی نمائندگی کی لیکن کانگریس کے اندر فرقہ پرستی کا جو زہر پھیل رہا تھا وہ اسے نظر انداز نہیں کر سکے اور ایک سچے مؤرخ کی طرح انہوں نے حقائق سامنے رکھ دیے ۔

فوٹو بہ شکریہ خدا بخش لائبریری فیس بک پیج

خدا بخش لائبری کی بلڈنگ خطرے میں؛ کیا آپ اس کے ماضی و حال سے واقف ہیں؟

حقانی القاسمی لکھتے ہیں؛اس لائبریری میں اتنا قیمتی ذخیرہ ہے کہ برٹش میوزیم نے اس کے عوض غیرمعمولی رقم کی پیش کش کی مگر خدا بخش کے جذبے نے اس پیشکش کو یکسر مسترد کردیا۔ انہوں نے صاف کہا کہ ؛مجھ غریب آدمی کو یہ شاہی پیش کش منظور نہیں۔

بیساکھی، فوٹو: پی ٹی آئی

بیساکھی کا تہوار اور جزیرہ امن مالیر کوٹلہ

بتایا جاتا ہے کہ 1947میں تقسیم کے وقت جب پنجاب اور اس کے 24راجواڑوں میں کشت و خون کا بازار گرم تھا تو دہلی سے 300 کیلومیٹر دور مسلم اکثریتی مالیر کوٹلہ ایک جزیرہ امن کی طرح قائم رہا۔ یہاں کسی کا خون بہا نہ کسی کو ہجرت کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ پورے مغربی پنجاب میں یہ واحد علاقہ ہے، جہاں مسلمانوں کی تعداد 65فیصدہے۔

نوال السعدوی، فائل فوٹو: رائٹرس

نوال السعدوی جن سے جیلر نے کہا تھا-آپ کی سیل میں بندوق کا ملنا کاغذ قلم کے ملنے سے کم خطرناک ہے…

نوال السعدوی جدوجہد کے لیے لکھائی کو سب سے بڑا ہتھیار تصور کرتی تھیں۔شاید اسی لیے اُنھوں نے کہا تھا کہ،موت کی طرح لکھائی کو بھی کوئی ہرا نہیں سکتا۔انہوں نے پوری زندگی موت کی دھمکیوں کا سامنا کیا۔

 فلم جولے :دی سیڈ کا پوسٹر(فوٹو بہ شکریہ : فیس بک)

فلم ساز نے نیشنل فلم ایوارڈ کمیٹی کو لکھا، بوڈو فلم کو ایوارڈ نہ ملنا مایوس کن

آسام کی فلم ساز رجنی بسومتاری نے ان کی بوڈو فلم جو لے:دی سیڈ کو نیشنل ایوارڈ نہ دیے جانے پر مایوسی کا ا ظہار کرتے ہوئے ایوارڈ کمیٹی کے چیئرمین این چندرا کو خط لکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار کی جانب سے چھوٹی ثقافتی برادریوں ، ان کی زبان اور ثقافت کے تحفظ کے وعدوں کے بیچ کسی بوڈو فلم کا ایسی فلم کے ہی زمرے میں نہ چنا جاناجیوری ممبروں کی ناکامی ہے۔

HabibJalib_FridayTimes

باتیں حبیب جالب کی : ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں…

انٹرویو:’ہم اردو شاعری کے عہد جالب میں رہ رہے ہیں…‘خواتین کی جو آزادی ہے، وہ ہمیشہ بڑی عزیز رہی ہے۔ وہ چاہے ایک رقاصہ ہو یا کوئی بڑی خاتون، مغنیہ ہو یا دفتر کی خاتون ان کی ایک عزت ہے۔مشاعرے میں پڑھنے کے میں پیسے نہیں لیتا۔ مشاعرے میں جاتا ہوں اپنی مرضی سے نظمیں پڑھتا ہوں۔

حسین الحق، فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

حسین الحق کو ساہتیہ اکادمی انعام تخلیقی ریاضتوں کا اعتراف تو ہے لیکن…

حبیب تنویر اور مالک رام کی کنوینر شپ کے زمانے میں کئی بار اردو کی کسی کتاب کو انعام کے لائق نہیں سمجھا گیا ۔اس زمانے میں بھی یہ سوالات اٹھے کہ یہ کیسی بد نصیب زبان ہے کہ تین برس کے دورانیے میں ایک بھی ایسی کتاب شائع نہ ہوسکی جسے ساہتیہ اکادمی قابل توجہ سمجھتی ۔سچا علمی حلقہ اسی زمانے میں یہ بات سمجھنے لگا تھا کہ کسی مصلحت ،سازش یا حسد میں کچھ لوگوں کو انعام کا مستحق نہیں ماننے کے لیے یہ روایت قائم کی گئی تھی۔

Shab Aavez

رابطہ اور عدم تعلق کی تخلیقی آویزش کا شاعر، قمر صدیقی

بک ریویو: قمر صدیقی کا مجموعہ کلام مسلسل رابطہ کے محور پر گردش کرنے والی کائنات کے سلسلے میں پوری تخلیقی توانائی کے ساتھ باور کراتا ہے کہ اب تعلق نہیں بلکہ التباس تعلق ہی ہماری حسی کائنات کو منور کرتا ہے اور یہی اس عہد کا المیہ بھی ہے جس کا عرفان عام نہیں ہے۔

ڈاکٹر رشید امجد

ڈاکٹر رشید امجد: اُردو افسانے کا ایک عہد رخصت ہوا

ڈاکٹر رشید امجد حقیقی معنوں میں ’سیلف میڈ‘ انسان تھے۔ اپنی تعلیمی استعداد کو بڑھانے اور ایک عطا کرنے والے استاد کی حیثیت سے احترام پانے کا معاملہ ہو یا ایک تخلیق کار کی حیثیت سے اپنی راہ خود تراش کر نمایاں ترین ہوجانا، اس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد اور ’فنافی الادب‘ کاسا جنون صاف دیکھا جا سکتا ہے۔

Intizar Husain, Credit: Tanveer Shehzad, White Star/Herald

جب انتظار حسین کے افسانے کا عنوان منٹو نے رکھا…

انتظار حسین کی پانچویں برسی پر خصوصی تحریر: پھر آئے گی، جی یہی نام ہے اُس افسانے کا اور یہ نام منٹو کا رکھا ہوا ہے۔انتظار حسین کے مطابق منٹو نے افسانے کا مسودہ نکال کر کہا یہ تم نے کیا لکھا ہے۔یہ “وہ” کون ہے۔ “وہ” اس کہانی کا پہلا نام تھا۔ انہوں نے کچھ اور اعتراض بھی کیے اور نہ نظر آنے والی لڑکی کا کردار ایک بار پھر لکھنے کو کہا۔ وہ تبدیل شدہ افسانہ لکھ کر لے گئے تو منٹو نے کہا “یہ عنوان بھی ٹھیک نہیں۔ “وہ” کیا ہوتا ہے؟ “بکواس”۔

منو بھائی ، فوٹو بہ شکریہ محمد حمید شاہد

منو بھائی

منو بھائی کی تیسری برسی پرخصوصی تحریر:یہ ماں سے محبت ہی تھی کہ وہ لکنت کا شکار ہو گئے۔ اِس لکنت کا سبب ماں کے گال پر پڑنے والا وہ تھپڑ تھاجو طیش میں آکر منو بھائی کے والد نے جڑ دیا تھا۔ یہ منو بھائی کے بچپن کا واقعہ ہے مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ چیزوں کو بہت سمجھنے لگے تھے۔ ماں کو یوں پٹتا دیکھ کر وہ چارپائی کے نیچے چھپ گئے اور جب وہ وہاں سے نکلے تو لکنت کا شکار ہو چکے تھے۔

راجیش جیس۔

’اسکیم 92‘ اس بات کی مثال ہے کہ بنا گندگی دکھائے بھی ویب سیریز بن سکتی ہے: راجیش جیس

نوے کی دہائی میں دوردرشن پر نشر ہوئے سیریل‘شانتی’ سے چرچہ میں آئے اداکار راجیش جیس حال ہی میں‘اسکیم 92’،‘پاتال لوک ’اور ‘پنچایت’جیسی ویب سیریز میں نظر آ چکے ہیں۔ ان سے پرشانت ورما کی بات چیت۔

کنول گریوال اور حرف چیمہ کے نئے البم کسانوں کے مظاہروں پر مبنی ہیں۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/حرف چیمہ)

پنجابی نغموں میں سنائی دے رہی ہے کسانوں کے مظاہرے کی بازگشت

نئےزرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے کسانوں کو پنجاب کے گلوکاروں کی طرف سےبھی بڑے پیمانے پر حمایت مل رہی ہے۔ نومبر کے اواخر سے جنوری کے پہلے ہفتے تک الگ الگ گلوکار وں کے دو سو سے زیادہ ایسے گیت آ چکے ہیں، جو کسانوں کے مظاہروں پرمبنی ہیں۔

hameed shahid

ہمارے شمس الرحمن فاروقی!

مجھے اعتراف ہے کہ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنہیں فاروقی صاحب نے بھارت میں متعارف کروایا۔ میرے ناول’’مٹی آدم کھاتی ہے‘‘ کا دیباچہ لکھا۔ میرے افسانے ’’شب خون‘‘ میں شائع کیے۔ اور جب ایک درسی کتاب ’’انتخاب نثر اردو ‘‘ کو مرتب کرنے کا موقع نکلا تو پاکستان سے انہوں نے دو افسانہ نگاروں کے افسانے اس کا حصہ بنائے ؛ انتظار حسین کا ’’بادل‘‘ اور اس خاکسار کا ’’لوتھ‘‘۔

Shamsur Rahman Faruqi. Photo: Twitter/@MayaramArvind

ایک ہی چاند تھا سرِ آسماں

خصوصی تحریر: میرے الٰہ آباد کے اس مسلسل سفر میں فاروقی صاحب سے ہونے والی ملاقاتوں کا حاصل یہ ہے کہ میں نے انھیں ان مضامین کی فہرست تیار کرنے پر آمادہ کرلیا تھا، جو شائع نہیں ہوئے تھے۔ ان مضامین میں بڑی تعداد انگریزی تحریروں کی تھی […]

Shamsur Rahman Faruqi. Photo: Twitter/@MayaramArvind

شمس الرحمن فاروقی، آہ …اب کون اس شفقت پدری سے مخاطب کرے گا

آج میرے سر سے ایک سایہ پھر سے اٹھ گیا، آج پھر سے یتیمی کا احساس شدید تر ہوتا چلاگیا۔ آج پھر کوئی ‘ بولو بیٹا’ کہنے والا نہیں رہا۔ ایک پھر میں اسی صدمے سے دوچار ہوں جب اپنے والد کی محبتوں سے محروم ہوئی تھی ۔

اختر شیرانی

اختر شیرانی پر منٹو کا یادگار خاکہ

یوم وفات پر خاص:عاشق فوٹو گرافر کی آواز گو بہت پتلی تھی لیکن وہ ‘اے عشق کہیں لے چل’ بڑے سوز سے گایا کرتا تھا۔ میں نے جب بھی اس کے منہ سے یہ نظم سنی مجھ پر بہت اثر ہوا۔ اس زمانے میں چونکہ طبیعت میں انتشار تھا۔ اس لیے یہ نظم مجھے اپنے کندھوں پراٹھاکر دور، بہت دور اَن دیکھے جزیروں میں لے جاتی تھی۔

Copy-of-Untitled-1200x560

بابری مسجد: آنکھوں دیکھا حال-ایک دستاویز

اس کتاب نے ’مجرموں‘ کے چہروں کو، کچھ پختہ شہادتیں اور ثبوت پیش کر کے مزید عیاں کر دیا ہے ۔سیکولر چہرے جنہوں نے ایودھیا تنازعے کا ’استعمال‘ یا ’استحصال‘ اپنے سیاسی قد کو بڑھانے کے لیے کیا، اور مسلم قیادت کے وہ چہرے جو جان دینے اور لینے کی باتیں کرکے عام مسلمانوں کو بیچ راہ میں چھوڑ گئے، اور اس طرح چھوڑ گئے کہ ’ہندوتوادیوں‘ کو اپنے مذموم منصوبے پر عمل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی ۔

فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹڑ

قصہ 1899 کے ایک مشرقی کتب خانہ کا

تقسیم کے بعد بہت سے لوگ پاکستان چلے گئے۔ جو ہندوستان میں رہے وہ فکر مند ہونے لگے کہ کتب خانے کا مستقبل کیا ہو۔ 1960 میں 16 بیل گاڑیوں میں کتب خانے کی 7914 جلدیں لادی جانے کے بعد وہ پٹنہ کے خدا بخش لائبریری لائی گئیں جہاں وہ آج بھی محفوظ ہیں۔

(فوٹوبہ شکریہ: cinestaan.com)

ہندوستان اور چین کے دوستانہ تعلقات کی مثال ہے ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی

خواجہ احمد عباس کی سنیمائی زندگی اور ان کےتخلیقی استعداد کے بارے میں بہت سی باتیں کہی اورلکھی جا چکی ہیں، لیکن آج ہندستان اور چین کے بیچ جاری کشیدگی میں ان کےناول ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی کی اہمیت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔