ہندوستان میں عورتوں کے خلاف جرائم پر لمبے وقتوں سے رپورٹنگ اور ریپ کے معاملوں پر- نو نیشن فار وومین کتاب لکھنے والی صحافی اور مصنفہ پرینکا دوبے سے میناکشی تیواری کی بات چیت ۔
ہم بھی بھارت کے اس ایپی سوڈ میں سنیےرافیل معاملے کی شنوائی کے دوران مرکزی حکومت کے ذریعے دی ہندو کی رپورٹ کو چوری کے دستاویز کے حوالے سے چھاپنے کے الزام اور اخبار پر آفیشیل سیکریٹس ایکٹ کے تحت کارروائی کی بات پر دی وائر کے بانی مدیر ایم کے وینو اور وکیل صارم نوید سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے یہاں وہاں کیے گئے مذاق اور طنز سے اگلی قطار میں بیٹھنے والوں کو ہنسایا تو جاسکتا ہے ، لیکن انتخابات میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔
ہندوستان میں دلت طلبا کے لیے ریزرویشن کی سہولت ہے، لیکن جو ملک سے باہر پڑھائی کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے کوئی سہولت نہیں ہے۔ ہندوستانی سرکار ہر سال کچھ لوگوں کو پڑھائی کے لیے باہر بھیجتی ہے، لیکن اس میں پسماندہ طبقات کو کوئی خصوصی رعایت نہیں دی گئی ہے۔ اسکالرشپ عموماً سماج کے اونچے اور مالدار طبقے کے لوگ لے جاتے ہیں۔
مہ جبیں کے مطابق اپنی رینک کے حساب سے ایڈمنسٹریٹو اور پولیس سروس سے لےکراپنی پسند کے ہر محکمے میں ان کی تقرری ہو سکتی تھی ،لیکن انہوں نے اپنے شوہر کے محکمہ میں افسر بننا منتخب کیا جس میں وہ پچھلے آٹھ سالوں سے بطور کلرک کام کر رہی تھیں۔
سیکریٹ آؤٹ ہونے پر ہی گھوٹالہ آؤٹ ہوتا ہے۔ گھوٹالہ آؤٹ ہونے پر فائل کو سیکریٹ بتانے کا فارمولہ پہلی بار آؤٹ ہوا ہے۔ وزیر اعظم کو ہر بات میں خود کو چوکیدار نہیں کہنا چاہیے۔ خود کو چوکیدار اور پردھان سیوک کہتےکہتے بھول گئے ہیں کہ وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں، اس لئے جاگتے رہو، جاگتے رہو بولکر کچھ بھی بول جاتے ہیں۔
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں وزیر اعظم نریندر مودی بےروزگاری پر بات نہیں کر رہے ہیں۔ پلواما کے بعد ایئر اسٹرائک ان کے لئے بہانہ بن گیا ہے۔راشٹر واد راشٹر واد کرتے ہوئے انتخاب نکال لیںگے اور اپنی جیتکے پیچھے خوفناک بےروزگاری چھوڑ جائیںگے۔
آدیواسیوں کی جنگل سے بے دخلی کا جو سلسلہ آزادی کے بعد سے کبھی وکاس تو کبھی ماحولیات کے نام پر چلا آ رہا ہے، کیا وہ کسی منطقی نتیجے کی طرف بڑھ رہا ہے؟ حالانکہ جیسےجیسےآدیواسی تباہ ہو رہے ہیں،پریڈوں،عجائب گھر،آرٹ میلہ اور شہری تہواروں میں ان کی نمائش میں اضافہ ہو رہا ہے۔
13 پوائنٹ روسٹرکے نفاذ کا فیصلہ ملک میں اب تک کی تمام سماجی حصولیابی کو ختم کر دےگا۔ اس سے یونیورسٹی کے اسٹاف روم یکساں سماجی اکائی میں بدل جائیںگے کیونکہ اس میں ہندوستانی سماج کے تنوع اور تکثیریت کو عزت دینے کا کوئی تصور نہیں ہے۔
صحافیوں کی اپنی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، لیکن رپورٹنگ کرتے وقت ان کو اس سے دور رہنا ہوتا ہے-کیونکہ رپورٹنگ ان کی حب الوطنی کا آئینہ نہیں ہے، بلکہ اپنے قارئین کے ساتھ پیشہ ورانہ ڈیل کا حصہ ہے۔
جتنے لوگ ریلی میں جمع ہوئے اس لحاظ سے اس کو فلاپ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ ریلی این ڈی اے رہنماؤں کے دعووں کے آس پاس بھی نہیں پہنچی۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ صرف نریندر مودی کی ریلی ہی نہیں نتیش کمار اور رام ولاس پاسوان کی بھی ریلی تھی۔
2015 – 2016 سےتین سال تک 10.4 فیصد کی شرح سے ترقی کرنے پر ہی ہم زراعتی شعبے میں دوگنی آمدنی کے ہدف کو پا سکتے تھے۔ اس وقت یہ 2.9 فیصد ہے۔ مطلب صاف ہے ہدف تو چھوڑئیے، آثار بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اب بھی اگر اس کو حاصل کرنا ہوگا تو باقی کے چار سال میں 15 فیصد کی شرح نمو حاصل کرنی ہوگی جو کہ موجودہ آثار کے حساب سے ناممکن ہے۔
ویڈیو: میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سنیے ایئر اسٹرائک پر رپورٹنگ کے موضوع پر صحافی آشوتوش اور دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن سے ارملیش کی بات چیت۔
میڈیا کا کام آگ بجھانے کا ہوتا ہے نہ کہ آگ لگانے کا۔ ہندی کے بعض اخبارات نے اور ٹی وی چینلوں نے عموماً پوری قوم کو جنگی جنون میں مبتلا کر کے رکھا۔ اس تجربے کے بعد ایک بار پھر سے میڈیا ریگولیشن کے قوانین پر نظر ثانی کرنے اور ان پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
میرا سیاسی نصب العین یہ تھا کہ ملّتِ مسلمۂ ہند اور قومی سیاست کے مابین حائل خلیج کو پُر کیا جائے اور دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے۔
26 فروری کے فضائی حملے نے سارے حساب کتاب اور معاملات بدل ڈالے ہیں۔ ایک پر امید کانگریس اب پھر اگلے پانچ سالوں کے لیے حزب اختلاف کی نشستوں پر نظر ڈال رہی ہے۔
اندازہ لگایئے کہ تاریخ سے کھیلنے والے ہمارے وزیر اعظم کے لیے جوانوں کی شہادت پر سیاست کیا مشکل ہے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ جنگ کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں ایک ٹی وی اسکرین کے سامنے ایک ضعیفہ کھڑی ہوکر رو رہی ہے اور اسکرین پاکستانی پرائم منسٹر عمران خان کی تصویر نظر آ رہی ہے۔اس تصویر کو اس دعوے کے ساتھ شئیر کیا گیا کہ ہندوستانی پائلٹ ابھی نندن کی ماں بیٹے کی رہائی کے لئے عمران خان سے رو رو کر فریاد کر رہی ہے۔
اپنے ردعمل میں جماعت اسلامی کشمیر نے اس پابندی کو غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی قرار دے کر عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حملہ کتنا بھی افسوس ناک کیوں نہ ہو، نریندر مودی کےلیے یہ ایک شاندار سیاسی موقع تھا ایسا کچھ کرنے کا جس میں وہ ماہر ہے—شاندار نمائش۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے مہینوں پہلے پیش گوئی کرکے آگاہ کر دیا تھا کہ بی جے پی ، جس کے پیروں سے سیاسی زمین کھسک رہی ہے، انتخابات سے ٹھیک پہلے آسمان سے آگ کا گولہ اتار لائے گی۔
پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زمین پر پنپ رہی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف قدم اٹھائے۔ وزیر اعظم عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے ایسا نہ کرنے کی صورت میں بات چیت کی تجویز سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
ہندوستانی وزیر اعظم نے ‘پائلٹ پروجیکٹ’والا بیان دےکر ثابت کیا ہے کہ نفرت سے بنائے گئے رویے کا گھٹیاپن کسی بھی لمحے کی سنجیدگی اور کسی عہدے کے وقار سےمشروط نہیں ہوتا۔
وزیر اعظم ملک کے مفادات کا خیال رکھنے کے بجائے پارٹی اور اپنی ذات کے لیے کام کرتے دکھ رہے ہوں، تو کیا ہمیں سرکار کی دروغ گوئی اور غلط بیانی کو ٹھکرا دینا چاہیے؟ کیا ہمیں اس پر اور توجہ مرکوز نہیں کرنی چاہیے کہ ہندوستان مستقبل قریب میں یا طویل مدت کے لیے دہشت گردی کے سائے سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟
ویڈیو: ہم بھی بھارت کے اس ایپی سوڈ میں سنیے ہندو پاک کے درمیان موجودہ حالات پر سیاسی تجزیہ کار پریم شنکر جھا اور سینئر صحافی سمتا گپتا سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
ویڈیو: آج کی ماسٹر کلاس میں اپوروانند ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بڑھ رہی کشیدگی پر بات کر رہے ہیں۔
ذات پات کو صحیح ٹھہرانے والے نریندر مودی نے گجرات کا وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے اپنی کتاب’ کرم یوگی ‘میں غلاظت صاف کرنے والے دلتوں کو ان کی مجبوری کا کام نہیں بلکہ روحانیت کا کام قرار دیا تھا۔
کیا آپ پبلک کے طور پر ان چینلوں میں پبلک کو دیکھ پاتے ہیں؟ ان چینلوں نے آپ پبلک کو ہٹا دیا ہے۔ کچل دیا ہے۔ پبلک کے سوال نہیں ہیں۔ چینلوں کے سوال پبلک کے سوال بنائے جا رہے ہیں۔
ویڈیو: پلواما حملے کے بعد کس طرح میڈیا اصل مدعے سے ہٹ کر سیاست کرنے پر زیادہ دھیان دے رہا ہے،میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں وکیل ایم ایم انصاری اور سینئر صحافی ونود شرما سے ارملیش کی بات چیت۔
یہ مقدمہ کسی فلمی کہانی سے کم نہیں کیوں کہ اس مقدمہ کی تفتیش قانون کے مطابق کیے جانے کے بجائے ، انتہائی من مانے طریقہ سے کی گئی جیسے سب ملزمین پر تعزیرات ہند کی دفعات 153, 120Bکا اطلاق کیا گیا اور پھر اس کے بعد اچانک ٹاڈا قانون کی دفعات 3(3), (4), (5) 4(1), 4 لگا دی گئیں۔
ویڈیو: دی وائر ہندی کے 2 سال پورے ہونے پر منعقد دی وائر ڈائیلاگس میں سینئر صحافی رویش کمار سے میناکشی تیواری کی بات چیت۔
پاکستان کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کے لئے نریندر مودی کی ایک اور جیت سے اچھا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔ان کی پالیسیوں نے پاکستانیوں کو یہ یقین دلانے کا کام کیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکتے ہیں۔
حکومت نے پیغام دیا ہے کہ گالی اور دھمکیاں دینے والے ہمارے لوگ ہیں۔ان کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔اس کی یہ کارروائی ایک ایماندار اور باضمیر افسر کو مایوس کرتی ہے اور بد قماش لوگوں کی جماعت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
ذرائع کے مطابق پلواما حملے کے بعد سخت دباؤ کی وجہ سے مرکزی حکومت باضابطہ طور سپریم کورٹ میں اس دفعہ پراپنا موقف رکھ سکتی ہے ۔چند میڈیا حلقوں کی مانیں تو بی جے پی اس دفعہ کے خاتمے کے لئے آڈیننس لانے پر غور کر رہی ہے ۔
اگر دونوں ممالک ایک ودسرے کو پچھاڑنے اور نیچا دکھانے کے شغل میں عوامی فلاح وبہبود مثلاً تعلیم ، صحت، روزگار کوہی اپنا مقصود بنالیں، تو یہ خطہ ایک بار پھر اقتصادی طاقت بن سکتا ہے۔
پاکستان کو اس طرح کراری شکست سے دو چار کر دینے پر تب حزبِ اختلاف میں صفِ اول کے قائد اٹل بہاری واجپائی نے اندرا گاندھی کو ’ابھینو چنڈی دُرگا‘ کا لقب دیا۔ واجپائی کے ذریعہ دیے گئے اس لقب نے کانگریس کی وزیر اعظم کو ایک عظیم شخصیت کی شکل دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
نیوز چینلوں کی حب الوطنی سے ہوشیار رہیے۔ اپنی حب الوطنی پر بھروسہ کیجئے۔ جو چینل ملک کی حکومت سے سوال نہیں پوچھ سکتے وہ پاکستان سے پوچھ رہے ہیں۔ فوج اپنے جوانوں سے کہے کہ نیوز چینل نہ دیکھیں ورنہ گولی چلانے کی جگہ ہنسی آنے لگےگی۔
کیا کسی بے روزگار کے گھر سموسہ کھالینے سے بے روزگاروں کی عزت ہوسکتی ہے ؟ ان کو نوکری چاہیے یا وزیر اعظم کے ساتھ سموسہ کھانے کا موقع؟ اگر پاؤں دھونا ہی عزت ہے تو پھر آئین میں ترمیم کرکے پاؤں دھونے اور دھلوانے کا حق جوڑ دیا جانا چاہیے۔
2019 کے لوک سبھا انتخاب میں ایس پی اپنے قیام کے بعد سے سب سے کم سیٹوں پر لڑےگی۔ ایک طرح سے وہ بنا لڑے تقریباً 60 فیصد سیٹیں ہار گئی ہے۔ ایس پی کا بی ایس پی سے کم سیٹوں پر انتخاب لڑنے کے لئے تیار ہو جانا حیران کرتا ہے۔
پلواما حملے کے بعد حالات ایسے ہیں کہ بی جے پی اس کا سیاسی فائدہ لینے کے لالچ سے بچ ہی نہیں سکتی۔ نریندر مودی کے لئے اس سے بہتر اور کیا ہوگا کہ نوکریوں کی کمی اور زرعی بحران سے دھیان ہٹاکر انتخابی بحث اس بات پر لے آئیں کہ ملک کی حفاظت کے لئے سب سے زیادہ اہل کون ہے؟
مان لیجئے خبر آتی کہ ممبئی حملے کے بعد تک منموہن سنگھ ڈسکوری چینل کے لئے شوٹنگ کر رہے تھے تب آپ کا کیا رد عمل ہوتا؟ بی جے پی ترجمان ہر گھنٹے پریس کانفرنس کر رہے ہوتے۔