ریزرو بینک آف انڈیا کے ڈپٹی گورنر ویرل آچاریہ نے اپنی مدت کار پوری ہونے سے 6 مہینے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس سے پہلے دسمبر 2018 میں آر بی آئی کے گورنر ارجت پٹیل نے حکومت کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے اپنی مدت کار پوری ہونے سے 9 مہینے پہلے استعفیٰ دے دیا تھا۔
دی وائر کی خصوصی رپورٹ: آر ٹی آئی کے تحت حاصل اعداد و شمار کے مطابق ٹاپ 100 این پی اے قرض داروں کا این پی اے 446158 کروڑ روپے ہے، جو کہ ملک میں کل این پی اے 1009286 کروڑ روپے کا تقریباً 50 فیصدی ہے۔
آرٹی آئی کے تحت ریزرو بینک سے ڈیفالٹروں کے نام کی جانکاری مانگی گئی تھی۔
پردھان منتری غریب کلیان یوجنا کے تحت فرد کو غیراعلانیہ آمدنی کا 30 فیصدی کی شرح سے ٹیکس، ٹیکس کی رقم کا 33 فیصدی سر چارج اور غیراعلانیہ آمدنی کا 10 فیصدی جرمانے کے طور پر دینا تھا۔ اس اسکیم کو دسمبر 2016 سے 10 مئی 2017 تک کے لئے لایا گیا تھا
جنوری 2019 میں سپریم کورٹ نے آر ٹی آئی کے تحت بینکوں کی سالانہ جائزہ سے متعلق رپورٹ نہ دینے پر آر بی آئی کو ہتک عزت نوٹس جاری کیا تھا، حالانکہ جمعہ کو عدالت نے ہتک عزت کی کارروائی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کو آر ٹی آئی قوانین کے اہتماموں پر عمل کرنے کا آخری موقع دے رہی ہے۔
آر بی آئی کے مطابق؛ گزشتہ دس سالوں میں سات لاکھ کروڑ سے زیادہ کا بیڈ لون رائٹ آف ہوا یعنی نہ ادا کیے گئے قرض کو بٹے کھاتے میں ڈالا گیا۔ جس کا 80 فیصدی حصہ جو تقریباً555603 کروڑ روپے ہے،گزشتہ پانچ سالوں میں رائٹ آف کیا گیا ۔
سال17-2016 میں انکم ٹیکس ریٹرن داخل نہیں کرنے والوں کی تعداد16-2015 میں 8.56 لاکھ سے 10 گنابڑھکر 88.04 لاکھ ہو گئی۔ ٹیکس افسروں کا ماننا ہے کہ نوٹ بندی کی وجہ سے نوکریوں میں کمی اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔
اقتصادی نظام لوگوں کو یکساں مواقع فراہم نہیں کرا پایا ہے۔ اس لیے غریب اور غریب ہوتا جارہا ہے جبکہ امیر اور امیر ہوتے جارہے ہیں ۔
نوٹ بندی کے بعد پیٹرول پمپ، سرکاری ہاسپٹل، ریل، عوامی نقل وحمل اور بجلی-پانی وغیرہ کے بل کی ادائیگی کے لئے پانچ سو اور ہزار روپے کے پرانے نوٹ دینے کی چھوٹ دی گئی تھی۔ ایک آر ٹی آئی کے جواب میں آر بی آئی نے بتایا ہے کہ اس طرح جمع ہوئے نوٹوں کا کوئی اعداد و شمار نہیں ہے۔
آر بی آئی میں مالی سال جولائی سے جون کی مدت میں ہوتا ہے اور عموماً وہ اگست میں اکاؤنٹ بند ہونے کے بعد ہی حکومت کو ڈیویڈنڈ دیتی ہے۔ حالانکہ، آر بی آئی نے عبوری ڈیویڈنڈ کی رقم طے کرنے کے لئے پہلی بار اپنے ششماہی اکاؤنٹس کا آڈٹ کرایا ہے۔
18 دسمبر 2018 کو اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے راجیہ سبھا میں ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ نوٹ بندی کے دوران بھارتیہ اسٹیٹ بینک کے تین افسر اور اس کے ایک گراہک کی موت ہو گئی تھی۔
مرکزی حکومت کے پاس اس رپورٹ کو جمع کرائے 4 سال سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے ۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ان رپورٹس کی جانچ ایک پارلیامانی کمیٹی کر رہی ہے ، ایسے میں ان کو عام کرنے سے پارلیامنٹ کے خصوصی اختیار کی خلاف ورزی ہوگی۔
غور طلب ہے کہ وزارت خزانہ کے ایک سینئر افسر نے جمعرات کو کہا تھاکہ 2000 کے نوٹوں کی چھپائی ریزرو بینک آف انڈیا نے’ کم سے کم‘ کر دی ہے۔
ریزرو بینک کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 4 سالوں میں فراڈ کی وجہ سے بینکوں کو ہوئے نقصان کی رقم بڑھ کر چار گنا ہو گئی ہے۔ سال 14-2013 میں 10170 کروڑ روپے کے فراڈ کے معاملے سامنے آئے تھے جبکہ 18-2017 میں 41167.7کروڑ روپے کے معاملے آئے۔
مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ ملک بھر میں پبلک سیکٹر کے بینکوں کے 50 فیصدی اے ٹی ایم بند کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی نوٹ بندی کے بعد چھاپے گئے 2000 روپے اور 500 روپے کے نئے نوٹوں کے خراب معیار کو حکومت نے خارج کیا۔
نوٹ بندی کے دوران نوٹ بدلنے کے لیے بینکوں کی لائن میں لگے لوگوں کی موت کی جانکاری صرف اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے دی ہے۔ بینک نے بتایا کہ اس دوران ایک گاہک اور بینک کے 3ملازموں کی موت ہوئی تھی۔
میں گزشتہ دنوں دہلی اور ممبئی میں کئی لوگوں سے ملا ہوں جن کا نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے پہلے اچھاخاصہ کاروبار چل رہا تھا مگر اس کے بعد وہ برباد ہو گئے۔ کسی کا 60 لاکھ کا پیمنٹ پھنس گیا تو کسی کا آرڈر اتنا کم ہو گیا کہ وہ برباد ہو گیا۔ ان میں سے کئی لوگ اولا ٹیکسی چلاتے ملے جو نوٹ بندی کے پہلے 200سے300 لوگوں کو کام دیا کرتے تھے۔
مرکز کی مودی حکومت کے سابق چیف اکانومک ایڈوائزر اروند سبرامنین نے کہا کہ ہندوستان کی معیشت اس وقت بحران میں ہے۔ اس کو مندی جھیلنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
نوٹ بندی کے دو سال بعد اہم بینکر ادئے کوٹک نے 2000 روپے کا نوٹ لانے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر آپ 500 اور 1000 روپے کے نوٹ بند کر رہے ہیں تو اس سے بڑا نوٹ لانے کی کیا ضرورت تھی؟
سابق انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریولو نے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو خط لکھکر کہا ہے کہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن کو حکومت کے ذریعے اس کے خلاف دائر مقدموں کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اوپی راوت نے کہا کہ انتخابات کے دوران بھاری مقدار میں پیسے پکڑے گئے ہیں۔موجودہ وقت میں، پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں تقریباً 200 کروڑ روپے ضبط کئے گئے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، نئے نوٹوں کے کاغذ کی کوالٹی پرانے نوٹوں کے مقابلے بے حد بری ہے اس لیے یہ نوٹ جلدی خراب ہونے لگے ہیں ۔
اگریکلچر منسٹری نے 20نومبر کو پارلیامانی کمیٹی کو دی گئی وہ رپورٹ واپس لے لی ، جس میں کہا گیا تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے کسان کھاد اور بیج نہیں خرید سکے تھے ۔ کمیٹی کو دی گئی نئی رپورٹ میں وزارت نے کہا کہ نوٹ بندی کا زراعتی شعبے میں اچھا اثر پڑا۔
سابق چیف اکانومک ایڈوائزر سبرامنین کے زمانے میں ہوئی نوٹ بندی کی وجہ سے 500 اور 1000روپے کے نوٹ چلن سے باہر ہوگئے تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جی ایس ٹی کے نفاذ کے وقت بھی وہ چیف اکانومک ایڈوائزر تھے۔
گزشتہ اکتوبر مہینے میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے وزیر اعظم دفتر کو 2014 سے 2017 کے درمیان مرکزی وزراء کے خلاف ملی بد عنوانی کی شکایتوں، ان پر کی گئی کارروائی اور بیرون ملک سے لائے گئے بلیک منی کے بارے میں جانکاری دینے کا حکم دیا تھا۔
انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریولو نے چیف انفارمیشن کمشنر آر کے ماتھر کو خط لکھکر کہا کہ آر بی آئی کے ذریعے جان بوجھ کر قرض نہ چکانے والے لوگوں کی جانکاری نہیں دینے پر سینٹرل انفارمیشن کمیشن کو سخت قدم اٹھانا چاہیے۔
وزارت زراعت نے قبول کیا ہے کہ نوٹ بندی کی وجہ سے کسانوں کو کھاد اور بیج خریدنے میں سخت مسائل کا سا منا کر نا پڑا تھا۔
وزیر اعظم نے کہا ؛آج مودی کی طاقت دیکھیے کہ پائی پائی بینک میں جمع کرنے کو مجبور کردیا ۔ کانگریس کے راج سے اس طرح بدعنوانی پھیلی کہ مجھے نوٹ بندی جیسی کڑوی دوا کا استعمال کرنا پڑا، تاکہ غریبوں کو لوٹ کر لے جایا گیا پیسہ ملک کے خزانے میں واپس آئے ۔
اسپیشل رپورٹ : سپریم کورٹ نے تین سال پہلے دسمبر 2015 میں آر بی آئی کی تمام دلیلوں کو خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آر بی آئی ملک کے ٹاپ 100 ڈفالٹرس کے بارے میں جانکاری دے اور اس سے متعلق اطلاع ویب سائٹ پر اپلوڈ کرے۔
مرکز کی نریندر مودی حکومت نے نوٹ بندی نافذ کرتے وقت بتا یا تھا کہ اس سے بلیک منی اور نقلی نوٹ ختم ہو جائیں گے ۔ حالاں کہ آر بی آئی کے ڈائریکٹر نے اس دلیل کو خارج کر دیا تھا۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا کہ نوٹ بندی نے کروڑوں لوگوں کی زندگی اور معیشت کو برباد کر دیا۔ جن لوگوں نے یہ کیا ہے لوگ ان کو سزا دیںگے۔ وزیر ریل نے کہا کہ نوٹ بندی نے بد عنوانی کی کمر توڑ دی۔
ریزرو بینک آف انڈیا نے آر ٹی آئی ایکٹ کے ایک اہتمام کا حوالہ دیتے ہوئے یہ ظاہر کرنے سے انکار کر دیا کہ 500 اور 1000 روپے کےان بند ہو چکے نوٹوں کو تباہ کرنے میں سرکاری خزانے سے کتنی رقم خرچ ہوئی۔
سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) نے 50 کروڑ روپے اور اس سے زیادہ کا قرض لینے اور جان بوجھ کر اس کو ادا نہیں کرنے والوں کے نام کے بارے میں اطلاع نہیں مہیا کرانے کو لے کر آر بی آئی گورنر ارجت پٹیل کو وجہ بتاؤ نوٹس بھیجا ہے۔
این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر مہر شرما نے لکھا ہے کہ ریزرو بینک اپنے منافع سے ہرسال حکومت کو 50 سے 60 ہزار کروڑ دیتی ہے۔ اس کے پاس ساڑھے تین لاکھ کروڑ سے زیادہ کا ریزرو ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اس ریزرو سے پیسہ دے تاکہ وہ انتخابات میں عوام کے بیچ گل چھرے اڑا سکے۔
دی وائر کی اسپیشل رپورٹ: ایک آر ٹی آئی کے جواب میں آر بی آئی نے بتایا کہ سابق آر بی آئی گورنر رگھو رام راجن نے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت وزارت خزانہ کو این پی اے گھوٹالےبازوں کی فہرست بھیجی تھی۔ فہرست کے تعلق سے ہوئی کارروائی پر جانکاری دینے سے مرکزی حکومت نے انکارکیاہے۔
بینکوں کے 31 مارچ، 2018 کےحالات کے مطابق 9.61 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کے این پی اے میں صرف 85344 کروڑ روپے زراعت اور متعلقہ شعبے کا ہے جبکہ 7.03 لاکھ کروڑ روپے کی موٹی رقم صنعتی شعبے کو دیے گئے قرض سے جڑا ہے۔
ریزرو بینک کے سابق گورنر بمل جالان نے کہا کہ ملک خراب سسٹم ، مختلف مدعوں پر ریاستوں میں مظاہرے اور مذہبی شدت پسندی جیسے مسائل کا سامنا کررہا ہے۔
بی جے پی رکن پارلیامانٹ نشی کانت دوبے کی رہنمائی میں پارٹی کے دیگر ممبروں نے سینئر رہنما مرلی منوہر جوشی کی مخالفت کی۔
اب یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ کیا مودی حکومت ان بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے خلاف کارروائی کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہے، جو آنے والے عام انتخابات میں نامعلوم انتخابی بانڈس کے سب سے بڑے خریدار ہو سکتے ہیں۔
وجے مالیا نے ہر پارٹی کی مدد سے خود کو راجیہ سبھا میں پہنچا کر ہندوستان کی پارلیامانی روایت پر احسان کیا ۔میں مالیا کا اس وجہ سے احترام کرتا ہوں ۔ اس معاملے میں میں پرو-مالیا ہوں ۔کیا مالیا بہت بڑے سیاسی مفکر تھے؟ جن جن لوگوں نے ان کو پارلیامنٹ پہنچایا وہ آکر سامنے بولیں تو ون سنٹینس میں !