’لو جہاد‘ مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کی تیاری
اگرہندوستان میں رہنے والے تمام 172ملین مسلمان بھی صرف ہندو لڑکیوں سے ہی شادیا ں کرتے ہیں، تو بھی 966ملین ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل نہیں کرسکتے ہیں۔
اگرہندوستان میں رہنے والے تمام 172ملین مسلمان بھی صرف ہندو لڑکیوں سے ہی شادیا ں کرتے ہیں، تو بھی 966ملین ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل نہیں کرسکتے ہیں۔
کرناٹک میں‘مورل پولیس’کا کام کرنے سے لےکر اتر پردیش کے مظفرنگر میں فسادات بھڑ کانے تک‘لو جہاد’کا راگ چھیڑ کر ہندو رائٹ ونگ تنظیموں نے اپنے کئی مقاصد کی تکمیل کی ہے۔
ایک طرف ہندوستانی آئین بالغ شہریوں کو اپنا شریک حیات منتخب کرنے کااختیار دیتا ہے، مذہب چننے کی آزادی دیتا ہے، دوسری طرف بی جے پی مقتدرہ حکومتیں آئین کی بنیادی قدروں کے برعکس قانون بنا رہی ہیں۔
ویڈیو: مبینہ لو جہاد کو لےکر اتر پردیش سرکار نے آرڈیننس کو منظوری دے دی ہے۔ اس کے تحت شادی کے لیے فریب، لالچ یا جبراًمذہب تبدیل کرائے جانے پر زیادہ سے زیادہ10 سال کی قیداور جرما نے کی سزا کا اہتمام ہے۔
بی جے پی لو جہاد کے راگ کو کیوں نہیں چھوڑ رہی؟وہ ہندوؤں میں خوف بٹھا رہی ہے کہ ‘ہماری’عورتوں کا استعمال کرکے ‘ودھرمی’اپنی تعداد بڑھانے کی سازش کر رہے ہیں۔ ‘ودھرمیوں’ کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا سبب ہے۔ تعداد ہی طاقت ہے اور وہی برتری کی بنیاد ہے۔ اس لیے ایسی ہر شادی یا رشتے کی مخالفت کی جانی ہے، کیونکہ اس سے ‘ودھرمی’ کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
اتر پردیش کے کانپور شہر میں کچھ رائٹ ونگ ہندو تنظیموں نے الزام لگایا تھا کہ مسلم نوجوان مذہب تبدیل کرانے کے لیے ہندو لڑکیوں سے شادی سے کر رہے ہیں۔ اس کے لیے انہیں دوسرے ملکوں سے فنڈ مل رہا ہے اور لڑکیوں سے انہوں نے اپنی پہچان چھپا رکھی ہے۔ اس کی جانچ کے لیے کانپور رینج کے آئی جی نے ایس آئی ٹی بنائی تھی۔
ٹھاکرگنج کے رہنے والے 16سالہ حسین کو سی اے اےمخالف مظاہرہ میں شامل ہونے کے الزام میں25 دسمبر 2019 کو ان کے دوست کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔حسین کا کہنا ہے کہ انہوں نے سی اے اے مخالف کسی بھی مظاہرہ میں کبھی حصہ نہیں لیا تھا۔
اتر پردیش کے بلندشہر کا معاملہ۔نابالغ لڑکی سے ریپ کا ملزم نوجوان جیل میں ہے۔ لڑکی کو زندہ جلانے کےالزام میں سات لوگوں کے خلاف کیس درج کرکے تین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
آگرہ میں بن رہے مغل میوزیم کاسنگ بنیاد2016 میں اس وقت کےوزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے رکھا تھا۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس کا نام بدلتے ہوئے کہا کہ نئے اتر پردیش میں غلامی کی علامتوں کی کوئی جگہ نہیں۔ ہمارے ہیرو شیواجی مہاراج ہیں۔ نئی دہلی: اتر […]
یوگی آدتیہ ناتھ حکومت ریاست میں ایک نئے اسپیشل سکیورٹی فورس کی تشکیل کرنے جا رہی ہے، جس کےاختیارات سی آئی ایس ایف کے برابر ہوں گے۔ بتایا گیا ہے کہ فورس کا کوئی بھی ممبرمجسٹریٹ کے کسی آرڈر اور وارنٹ کے بغیر کسی کو گرفتار کر سکتا ہے، ساتھ ہی اسے بنا وارنٹ تلاشی لینے کااختیار بھی ہوگا۔
اتر پردیش کے سلطان پور ضلع سے بی جے پی کے ایک ایم ایل اے نے خط لکھ کرکورونا وائرس کے علاج کے لیے خریدے گئے طبی آلات کی قیمت میں گھوٹالے کےالزام لگائے ہیں۔الزام ہے کہ ریاست کے کئی اضلاع میں آکسی میٹر اور تھرمامیٹر طے قیمت سے کئی گنازیادہ قیمت پرخریدے گئے۔
ااس سال 19 اگست تک یوپی پولیس نے ریاست میں 139 لوگوں کے خلاف این ایس اے لگایا ہے، جن میں سے 76 معاملے گئوکشی سے جڑے ہیں۔ 31 اگست تک صرف بریلی پولیس زون میں ہی 44 لوگوں پر این ایس اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔
اتر پردیش اسمبلی میں ایک بی جے پی ایم ایل اے نے ریاست میں برہمنوں کے قتل، ہتھیارکےلائسنس کے لیےدرخواست دینے والے اور لائسنس رکھنے والے برہمنوں سے متعلق اعدادوشمار کو لےکر ایک سوال پوچھا تھا، جس کے جواب میں یوپی حکومت نے تمام ضلع حکام کو خط لکھ کر تفصیلات طلب کی تھی۔
واقعہ الہ آباد کے سوروپ رانی ہاسپٹل کے باہر کا ہے، جہاں ہاسپٹل کے باہر بیٹھی ایک معمرخاتون کے ساتھ وہاں تعینات سکیورٹی گارڈ نے بےرحمی سے مارپیٹ کی۔ بتایا گیا ہے کہ خاتون ذہنی طور پرمعذور ہیں۔
ایک ملک اور ایک مجرم میں یہی فرق ہوتا ہے کہ ملک قانون کا پابند ہوتا ہے جبکہ مجرم اس کو توڑتا ہے۔ اگر ملک ایک بار بھی قانون توڑ دےتو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ بھی مجرم کےخانے میں آ گیا اور اس کو حکومت کرنے کا اخلاقی حق نہیں ہے۔
اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کی مدت کارمیں انکاؤنٹر کے 61 معاملوں میں پولیس نے کلوزر رپورٹ بھی دائر کر دی ہے، جس کوعدالتوں نے قبول بھی کر لیا تھا۔
ویڈیو:اتر پردیش پولیس کی ایس ٹی ایف نےجمعہ کو دعویٰ کیا تھا کہ مدھیہ پردیش کے اجین میں گزشتہ نو جولائی کو گرفتار کیے گئے آٹھ پولیس اہلکاروں کے قتل کے کلیدی ملزم وکاس دوبے کو کانپور لاتے وقت پولیس ٹیم کی ایک گاڑی پلٹ گئی۔ اس دوران وہ بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا، تو پولیس کو گولی چلانی پڑی۔
معاملہ بلندشہر کا ہے، جہاں گزشتہ سال فروری میں ایک نابالغ سے ریپ کیا گیا تھا۔ اہل خانہ نے الزام لگایا کہ ملزم انہیں دھمکاتا تھا اور ان پر معاملے میں سمجھوتہ کرنے کا دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔
کانپور کے بکرو گاؤں میں جان گنوانے والے پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ وکاس دوبے کے مبینہ انکاؤنٹر سے مطمئن ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اب اس کے ساتھیوں اور سرپرستوں کا پردہ فاش نہیں ہو پائےگا۔
کانپور میں پچھلے ہفتے آٹھ پولیس اہلکاروں کےقتل کے کلیدی ملزم اور ہسٹری شیٹر وکاس دوبے کے مبینہ انکاؤنٹر پراپوزیشن نے سوال اٹھاتے ہوئے اس کو دوبے کے سیاسی سرپرستوں کو بچانے کی کوشش بتایا ہے اور جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔
معاملہ بریلی کے روہیل کھنڈ یونیورسٹی کا ہے، جہاں ایک پروفیسر پر فیس بک کی پروفائل پکچر میں پاکستان کا جھنڈا لگانے کا الزام ہے۔پروفیسر کا کہنا ہے کہ انہوں نے کووڈ 19 تھیم کی تصویر لگائی، لیکن غلطی سے دوسری تصویر لگ گئی، غلطی کا احساس ہونے پر انہوں نے اس کو ہٹا دیا تھا۔
مدھیہ پردیش سے ہسٹری شیٹر وکاس دوبے کو کانپور لا رہی یوپی پولیس کی ٹیم کے قافلے کے پیچھے چل رہے میڈیااہلکاروں نے بتایا ہے کہ ‘انکاؤنٹر’ سے کچھ ہی منٹ پہلے اچانک پولیس نے اس سڑک پر گاڑیوں کو روک دیاتھا۔
معاملہ مظفرنگر کے شکرتال کے گوڑی مٹھ کا ہے، جہاں بچوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کی شکایت پر پولیس اور چائلڈ لائن کی ٹیم نے دس نابالغوں کو آزادکرایا تھا۔ بچوں نے مٹھ کےمالک بھکتی بھوشن مہاراج پر شراب پلانے کے بعد فحش ویڈیو دکھاکر جنسی استحصال کےالزام لگائے ہیں۔
دو جولائی کی دیر رات اتر پردیش میں کانپور کے چوبےپور تھانہ حلقہ کے بکرو گاؤں میں پولیس کی ایک ٹیم گینگسٹر وکاس دوبے کو پکڑنے گئی تھی، جب وکاس اور اس کے ساتھیوں نے پولیس پر حملہ کر دیا تھا۔ اس تصادم میں آٹھ پولیس اہلکاروں کی موت ہو گئی تھی۔ گزشتہ نو جولائی کو پولیس نے وکاس دوبے کو مدھیہ پردیش کے اجین شہر سے گرفتار کیا تھا۔
اتر پردیش کے علی گڑھ کا معاملہ۔ اہل خانہ کا الزام ہے ہاسپٹل کی جانب سے مریض سے ملنے کے نام پر 4000 روپے اضافی مانگا جا رہا تھا، جس کو لےکر تنازعہ شروع ہوا ہے۔ پولس کیس درج کرکے معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔
پولیس کے مطابق، کانپور کے چوبے پور تھانہ حلقہ کے دکرو گاؤں میں ایک پولیس ٹیم جمعرات کو دیر رات ہسٹری شیٹر وکاس دوبے کو گرفتار کرنے جا رہی تھی، جب ان کا راستہ روک کر پاس کی چھت سے گولیاں چلائی گئیں۔اس میں سات لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ دوبے کے خلاف تقریباً60مجرمانہ معاملے چل رہے ہیں۔
اتر پردیش کے بجنور میں 20 دسمبر 2019 کو ہوئے سی اے اے مخالف مظاہرہ کے دوران پولیس فائرنگ میں21 سالہ سلیمان کی موت ہو گئی تھی۔ ایس آئی ٹی نے پولیس اہلکاروں کو کلین چٹ دیتے ہوئے سلیمان کو ملزم ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ وہ مظاہرہ کے دوران ہوئے تشددمیں شامل تھے۔
ویڈیو: آف لائن امتحان کو لےکر اتر پردیش کی لکھنؤ یونیورسٹی اور عبدالکلام ٹیکنیکل یونیورسٹی کے طلبا اگزام کے لیے دوسرے شہرآنے جانے کو لےکرفکرمند میں ہیں۔الزام ہے کہ انٹرنیٹ کی بدتر حالت کی وجہ سے آن لائن کلاسز میں طلبامیں شریک نہیں ہو پارہےہیں۔
معاملہ اتر پردیش کے فیروزآباد کا ہے۔مقامی بی جے پی رہنما نے پولیس سے کی گئی شکایت میں الزام لگایا ہے کہ ایک وہاٹس ایپ گروپ میں کیے جا رہے پوسٹ لوگوں کے جذبات کو مشتعل کر سکتے ہیں۔
معاملہ کانپور شیلٹر ہوم کا ہے، جہاں 12 جون کو رینڈم سیمپلنگ کے دوران ایک لڑکی کو رونا پازیٹو پائی گئی تھی، جس کے بعد تمام171 لڑکیوں کا ٹیسٹ کرایا گیا۔ اب تک یہاں 57 لڑکیاں اور ایک اسٹاف کو رونا پازیٹوپائی گئی ہیں۔
اتر پردیش کے سابق آئی اے ایس افسرسوریہ پرتاپ سنگھ نے ٹوئٹ کر کے ریاست میں کم کورونا ٹیسٹنگ ہونے کو لےکر سوال کھڑے کیے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ چیف سکریٹری نے زیادہ ٹیسٹ کرانے والے ضلع مجسٹریٹوں کی سرزنش کی ہے۔ ایف آئی آر میں اس ٹوئٹ کو گمراہ کن بتایا گیا ہے۔
معاملہ جون پور ضلع کے سرائےخواجہ حلقہ کے بھدیٹھی گاؤں کا ہے۔ 9 جون کو آم توڑنے کو لےکر دوکمیونٹی کے بچوں میں تنازعہ ہوا، جس کے بعد ان کے بیچ پرتشدد جھڑپ ہوا۔ سو کے قریب لوگوں پر معاملہ درج ہوا ہے اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ملزمین پر این ایس اے اور گینگسٹر ایکٹ لگانے کی ہدایت دی ہے۔
فتح پور کے صحافی اجئے بھدوریا نے گزشتہ13 مئی کو ٹوئٹ کیا تھا، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ فتح پور کے وجئے پور میں ایک کمیونٹی کچن کو بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد جھوٹی خبر پھیلانے کے الزام میں انتظامیہ نے ان کے خلاف معاملہ درج کر لیا۔
ایک دوسرے معاملے میں اتر پردیش کے باندہ ضلع میں پولیس نے ایک لیکھ پال کے خلاف ایک دلت لڑکی کامبینہ طور پراغوا کرکے اس کے ساتھ چلتی جیپ میں ریپ کرنے کا معاملہ درج کیا ہے۔
سال 2011 میں اتر پردیش کے کوشامبی ضلع میں نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ پر ایک مظاہرہ کے دوران اشتعال انگیز تقریرکرنے اور ان کے پانچ ساتھیوں پر دوسری کمیونٹی کے ایک نوجوان کو ہراساں کرنے اور ان کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کرنے کا معاملہ درج کیا گیا تھا۔
ویڈیو: اتر پردیش کے شاملی ضلع میں پولیس کی بربریت کا ایک معاملہ سامنے آیا ہے۔ شاملی کے ٹپرنا گاؤں کے لوگوں کا الزام ہے کہ گزشتہ 26 مئی کو دیر رات پولیس نے لگ بھگ 35 مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر توڑپھوڑ کی۔ مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ مارپیٹ کی۔
کانپور کے گنیش شنکر ودیارتھی میڈیکل کالج کی پرنسپل ڈاکٹر آرتی لالچندانی کا اپریل میں بنایا گیا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے، جس میں وہ دہلی میں تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شامل ہوئے لوگوں کے بارے میں قابل اعتراض تبصرہ کرتی نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹر آرتی کا کہنا ہے کہ ویڈیو سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔
اس بارےمیں الہ آباد پولیس نے معاملہ درج کیا ہے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ملزم نوجوان نے اپنی فیس بک پوسٹ کے ذریعے ملک میں امن وامان کو متاثر کرنے اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی توہین کرنے کی کوشش کی ہے۔
رضوانہ دی وائر سمیت مختلف میڈیا ویب سائٹ کے لیے کام کیا کرتی تھیں۔ ان کے لکھے ایک نوٹ کی بنیاد پر ان کےوالد نے شمیم نعمانی نام کے شخص کے خلاف خودکشی کے لیے اکسانے کا معاملہ درج کروایا ہے۔
ہندوستان میں جہاں اس وقت پورا ملک لاک ڈاؤن کی زد میں ہے، پولیس نے اس کا فائدہ اٹھا کر چن چن کر ایسے نوجوان مسلمانوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، جو پچھلے کئی ماہ سے شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ میں پیش پیش تھے۔