بی بی سی کی ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ سے ہندوستان کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کی بھرپائی کے لیے معاوضہ مانگنے والے گجرات کے ایک این جی او کی عرضی پر شنوائی کر رہے دہلی ہائی کورٹ کے جج نے خود کو معاملے سے الگ کرنے کی وجہ نہیں بتائی ہے۔
جو لوگ یقین کرتے ہیں کہ ہندوستان اب بھی ایک جمہوریت ہے، انہیں گزشتہ چند مہینوں میں منی پور سے مظفر نگر تک رونما ہونے والے واقعات پر نگاہ کرنی چاہیے۔ وارننگ کا وقت ختم ہو چکا ہے اور ہم اپنے عوام الناس کے ایک حصے سے اتنے ہی خوفزدہ ہیں جتنے اپنے رہنماؤں سے۔
سخن ہائے گفتنی: ایک مسلمان وہ نہیں کہہ سکتا جو ایک ہندو کہہ سکتا ہے؟ ایک کشمیری وہ نہیں کہہ سکتاہے جو دوسرے لوگ کہہ سکتے ہیں۔آج یکجہتی، بھائی چارہ اور دوسروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے ،لیکن ایسا کرنا نہایت خطرناک اور جان جوکھم میں ڈالنے کی طرح ہے ۔
ویڈیو: گزشتہ دنوں بی بی سی ڈاکیومنٹری کی نشریات کے بعد ادارے کے دفتر پہنچے انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ اور صنعتکار گوتم اڈانی کے کاروبارکے سلسلے میں سوال اٹھانے والی ہنڈن برگ رپورٹ سے متعلق تنازعہ پردہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند اور دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کی بات چیت۔
مودی حکومت کی جانب سے پریس کی آزادی اور جمہوریت پر جاری حملوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے، لیکن تازہ ترین حملے سے پتہ چلتا ہے کہ پریس کی آزادی ‘مودی سینا’ کی مرضی کی غلام بن ہو چکی ہے۔
بی بی سی ہنڈن برگ معاملے کو ہندوستانی میڈیا اس طرح پیش کر رہا ہے کہ یہ ہندوستان کےٹوین ٹاورز پر کسی حملے سے کم نہیں ہے۔ یہ ٹوین ٹاور ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی اور ہندوستان کے سب سے بڑے صنعت کار گوتم اڈانی۔ ان دونوں پر لگائے گئے الزامات ہلکے نہیں ہیں۔
بی بی سی کے دہلی اور ممبئی کے دفاتر میں محکمہ انکم ٹیکس کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کئی میڈیا اداروں نے اسے صحافتی اداروں کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے سرکاری ایجنسیوں کا غلط استعمال قرار دیا ہے۔
بی بی سی کے دہلی اورممبئی واقع دفاتر میں یہ کارروائی 2002 کے گجرات فسادات میں نریندر مودی کے کردار اور ہندوستان میں اقلیتوں کی صورتحال پر دو حصوں پر مشتمل ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ کے نشر ہونے کے چند ہفتوں بعد ہوئی ہے۔ اس ڈاکیومنٹری پر حکومت ہند نے پابندی عائد کر رکھی ہے۔
بی بی سی ڈاکیومنٹری سیریز ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ پر ہندوستانی حکومت کی جانب سے عائد پابندیوں کو 500 سے زیادہ ہندوستانی سائنسدانوں اور ماہرین تعلیم نے ملک کی خودمختاری اور سالمیت کے لیے نقصاندہ بتایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکیومنٹری پر روک لگانا ہندوستانی شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
گجرات دنگوں میں وزیر اعظم نریندر مودی کے رول پر بنی بی بی سی ڈاکیومنٹری کے خلاف اوورسیز انڈین کمیونٹی کے بڑے پیمانے پر احتجاج کےمدنظر برطانوی وزیر اعظم رشی سنک کے ترجمان نے کہا کہ وہ اس بات پر زور دینا چاہیں گے کہ ہم ہندوستان کو ناقابل یقین حد تک اہم بین الاقوامی شراکت دارتسلیم کرتے ہیں۔
امریکہ کےنیشنل پریس کلب نےاپنے بیان میں ہندوستانی حکومت سے بی بی سی کی دستاویزی سیریز ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ سے پابندی ہٹانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہندوستان ‘پریس کی آزادی کو تباہ کرنا جاری رکھتا ہے’ تو وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر اپنی پہچان کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔
ہندوستان میں گجرات دنگوں میں نریندر مودی کے رول سےمتعلق بی بی سی ڈاکیومنٹری کے ٹیلی کاسٹ کو روکنے کے لیے مرکزی حکومت کی ہر ممکن کوشش کے باوجود جمعرات کو ملک میں کم از کم تین جگہوں- ترواننت پورم میں کانگریس اورکولکاتہ اور حیدرآباد میں اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا نے اس کی اسکریننگ کا اہتمام کیا۔
بی بی سی کی دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ میں گجرات دنگوں کے حوالے سے برطانوی حکومت کی غیرمطبوعہ تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے نریندر مودی کو تشدد کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد منصوبہ بندتھا اور گودھرا کے واقعہ نے صرف ایک بہانہ دے دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی اور بہانہ مل جاتا۔
غیرت نہایت ہی غیر ضروری اور فضول شے ہے۔ اس کے بغیر انسان بنے رہنا بھلے مشکل ہو، غیرت کے ساتھ وائس چانسلر بنے رہنا ناممکن ہے۔ جامعہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وی سی وقتاً فوقتاً اس کی تصدیق کرتے رہتے ہیں۔
بی بی سی کی دستاویزی سیریز ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ کی دوسری اور آخری قسط منگل کو برطانیہ میں نشر کی گئی۔ اس میں بی جے پی حکومت کے دوران لنچنگ کے واقعات میں ہوئے اضافہ، آرٹیکل 370 کے خاتمہ، سی اے اے اور اس کے خلاف مظاہروں اور دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
گزشتہ ہفتے اطلاعات و نشریات کے سکریٹری کی طرف سے آئی ٹی رول 2021 کے رول 16 کا استعمال کرتے ہوئے گجرات فسادات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے رول کو اجاگر کرنے والی بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کو بلاک کرنے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔
انٹرنیٹ آرکائیودنیا بھر کے صارفین کے ذریعےویب پیج کے مجموعوں اور میڈیا اپ لوڈ کا ایک ذخیرہ ہے۔ بی بی سی کی ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ کی پہلی قسط کے بارے میں اس کی ویب سائٹ پر لکھا ہوا نظر آرہا ہے کہ ‘یہ مواد اب دستیاب نہیں ہے’۔
دی ہندو کے سابق ایڈیٹراین رام نے مودی حکومت کی جانب سے بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کو سوشل میڈیا پر بلاک کرنے کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہندوستان کا قومی سلامتی اور عوامی نظام اتنا نازک ہے کہ اسے ایک ایسی ڈاکیومنٹری سے خطرہ ہے جو ملک میں نشر نہیں ہوئی ہےاور یوٹیوب/ٹوئٹر تک رسائی رکھنے والی بہت کم آبادی نے اس کو دیکھا ہے۔
برطانیہ میں نشر ہونے والی دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ میں بی بی سی نے کہا ہے کہ برطانوی حکومت کی خفیہ تحقیقات میں نریندر مودی گجرات دنگوں کے لیے ذمہ دار پائے گئے تھے۔ اس ڈاکیومنٹری کے سامنے آنے کے بعد 2002 میں برٹن کے سکریٹری خارجہ رہے جیک سٹرا کے ساتھ کرن تھاپر کی بات چیت۔
برطانیہ میں نشر ہونے والی ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ میں بی بی سی نے کہا ہے کہ برطانوی حکومت کی خفیہ تحقیقات میں نریندر مودی گجرات دنگوں کے ذمہ دار پائے گئے تھے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے اسے ‘پروپیگنڈہ’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں تعصب ہے،غیرجانبداری کا فقدان ہے اور نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی ہے۔
بی بی سی نے برطانیہ میں ‘انڈیا: دی مودی کویشچن’ کے نام سے ایک ڈاکیومنٹری نشر کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سےکروائی گئی گجرات دنگوں کی جانچ (جو آج تک غیر مطبوعہ رہی ہے) میں نریندر مودی کو براہ راست تشدد کے لیے ذمہ دار پایا گیا تھا۔
ذکیہ جعفری کے شوہراور کانگریس کے ایم پی رہے احسان جعفری 28 فروری 2002 کو احمد آباد میں گلبرگ سوسائٹی قتل عام میں مارے گئے 68 افراد میں شامل تھے۔ سپریم کورٹ نے جمعہ کو ذکیہ کی عرضی خارج کر دی۔سپریم کورٹ 5 اکتوبر 2017 کو ہائی کورٹ کی میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی ان کی اپیل کی سماعت کر رہی تھی، جس میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی اور 63 دیگر کو گجرات فسادات سے متعلق معاملوں میں کلین چٹ دےدی گئی تھی۔
ذکیہ جعفری کے شوہراور کانگریس ایم پی احسان جعفری 28 فروری 2002 کو احمد آباد میں گلبرگ سوسائٹی میں مارے گئے 68 لوگوں میں شامل تھے۔ 2017 میں ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے اس فیصلےبرقرار رکھا تھا جس میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی اور 63 دیگر کو فسادات سے متعلق معاملات میں کلین چٹ دی گئی تھی۔
گجرات فسادات کے دوران ہلاک ہوئے کانگریس کے سابق رکن پارلیامنٹ احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری نے 2002 کے فسادات کے دوران گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سمیت 64 لوگوں کو ایس آئی ٹی کی کلین چٹ کو چیلنج کیاہے۔انہوں نے کہا کہ گجرات فسادات میں تشدد کو ‘سوچ سمجھ کر’ انجام دیا گیا تھا۔
گجرات فسادات میں مارے گئے کانگریس رہنماحسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری نے ایس آئی ٹی کی جانب سےنریندر مودی سمیت کئی رہنماؤں، نوکرشاہوں کو ملی کلین چٹ کو چیلنج دیا ہے۔ کئی بار ٹل چکی شنوائی کی اگلی تاریخ طے کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ اب اسےملتوی کرنے کی کسی درخواست کو قبول نہیں کرےگی۔
گجرات فسادات میں مارے گئے کانگریسی رہنما احسان جعفری کی بیوی ذکیہ جعفری نے ایس آئی ٹی کے ذریعےنریندر مودی سمیت کئی رہنماؤں اور نوکرشاہوں کو کلین چٹ دینے کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اس پرشنوائی اتنی بار ٹل چکی ہے اس لیے ایک تاریخ لیجیے اور یہ یقینی بنائیے کہ سب موجود ہوں۔
2002 کے گلبرگ سوسائٹی قتل عام کے متاثرین امتیاز پٹھان نے گجرات کے کھیڑا اور فیروز پٹھان نے گاندھی نگر لوک سبھا سیٹ سے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کر دیا ہے۔
ایس آئی ٹی نے سال 2012 میں معاملہ بند کرنے کی رپورٹ داخل کی تھی جس میں نریندر مودی اور سینئر سرکاری افسروں سمیت 63 دوسرے لوگوں کو کلین چٹ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف مقدمہ چلانے لائق ثبوت نہیں ہیں۔
گجرات فسادات کے دوران مارے گئے کانگریس کے سابق ایم پی احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری نے اسپیشل جانچ ٹیم کے فیصلے کے خلاف ان کی عرضی خارج کرنے کے گجرات ہائی کورٹ کے 5 اکتوبر 2017کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔
اس معاملے میں ملزم مودی اور دوسروں کو ایس آئی ٹی کی کلین چٹ کو برقرار رکھنے کے گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے کو ذکیہ جعفری نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
گجرات حکومت نے اسپیشل جانچ ایجنسی کو 11 ملزموں کی سزا میں اضافہ اور 14 ملزمین کو بری کئے جانے کے خلاف ہائی کورٹ جانے کی اجازت نہیں دی۔