اس بیچ مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ 2019 میں یو اے پی اے کے تحت 1948 لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور 34 ملزمین کو قصوروار ٹھہرایا گیا۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ 31 دسمبر 2019 تک ملک کی مختلف جیلوں میں478600قیدی بند تھے،جن میں144125 قصوروار ٹھہرائے گئے تھے جبکہ 330487 زیر سماعت و 19913 خواتین تھیں۔
دو سال قبل یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پچاس ہزار نوکریاں فوری طور فراہم کی جائیں گی۔تاہم دوسال بعد صورتحال یہ ہے جموں وکشمیر میں بےروزگار نوجوانوں کی تعداد 6لاکھ سے زائد ہے جن میں ساڑھے تین لاکھ کشمیر اور تقریباًاڑھائی لاکھ جموں صوبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ایک طرف ترقی و خوشحالی کی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری جانب عملی طور یہاں روزگار کے مواقع محدود کیے جارہے ہیں۔
جے کے سی سی ایس نے اپنی ایک جامع رپورٹ میں بتایا ہے کہ مواصلاتی رابطوں کو بند کرنے میں کشمیر دنیا کی تاریخ میں پہلی مثال ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال رواں کے ماہ جنوری میں جب ٹو جی موبائل انٹرنیٹ خدمات بحال کی گئیں، تب سے بھی 70 بار عارضی طور پر اس کو معطل کرنے کے احکامات صادر کیے گئے ہیں۔
ویڈیو: جموں وکشمیر سےآرٹیکل 370کے خاتمہ کو ایک سال ہونے والے ہیں۔ریاست کاخصوصی درجہ ختم کر کے اس کو یونین ٹریٹری میں بانٹنے کے بعدمودی سرکار کی جانب سے کئی طرح کے دعوے کیے گئے تھے، آج ان کی زمینی سچائی کیا ہے؟ اس بارے میں پی ڈی پی کے سینئررہنما نعیم اختر سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹرعارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
ایک سال کے بعد اس آئینی اسٹرئیک کی افادیت اور حصولیابیو ں کی جو دستاویز ہندوستانی حکومت نے جاری کی ہے، اس کے مطابق کشمیر کو ہندوستان میں ضم کرنے سے کھلے میں رفع حاجت کرنے کو روکنے پر صد فیصد کامیابی حاصل ہوئی ہے۔لیجیے ہم تو سمجھےتھے کہ پانچ اگست کو اٹھائے گئے اقدامات کا مقصد کشمیر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانا، سڑکوں کو سونے سے مزین کرنا اور ہندوستان کے تئیں عوام میں نرم گوشہ پیدا کروانا تھا، مگر مودی حکومت نے تو اس سے بھی بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔
ویڈیو: آف لائن امتحان کو لےکر اتر پردیش کی لکھنؤ یونیورسٹی اور عبدالکلام ٹیکنیکل یونیورسٹی کے طلبا اگزام کے لیے دوسرے شہرآنے جانے کو لےکرفکرمند میں ہیں۔الزام ہے کہ انٹرنیٹ کی بدتر حالت کی وجہ سے آن لائن کلاسز میں طلبامیں شریک نہیں ہو پارہےہیں۔
جموں و کشمیر انتظامیہ نے سپریم کورٹ میں کہا کہ ملک کی خودمختاریت، سالمیت اور سلامتی کے تحفظ کے لیے انٹرنیٹ کی رفتارکو کم کرنے کی بہت مناسب پابندی لگائی گئی ہے۔
گزشتہ 5 مارچ کو سات مہینے کے بعد جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ سے پابندی ہٹائی گئی ہے۔ ایک طبقے کا ماننا تھا کہ یہ پابندی امن امان کی بحالی کے لئے ضروری تھی ، حالانکہ مقامی لوگوں کے مطابق یہ پابندی تفریح یا سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ عوام کے جاننے اور بولنے پرتھی۔
پولیس نے آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 66 اے کے تحت بھی معاملہ درج کیا ہے، جس کو سپریم کورٹ کے ذریعے رد کیا جا چکا ہے۔
جموں و کشمیر انتظامیہ کے ہوم ڈپارٹمنٹ کے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق، موبائل فون پر 2جی اسپیڈ کے ساتھ انٹرنیٹ سہولت 25 جنوری سے شروع ہو جائےگی۔ سوشل میڈیا کی سائٹ تک وادی کے لوگوں کی رسائی نہیں ہوگی اور طے شدہ ویب سائٹس تک ہی ان کی رسائی ہو سکےگی۔
جموں کشمیر انتظامیہ کے افسروں نے بتایا کہ یونین ٹریٹری میں سبھی مقامی پری پیڈ موبائل فون پر کال کرنے اور ایس ایم ایس بھیجنے کی سہولت بحال کر دی گئی ہے۔ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر سے جموں علاقے کے سبھی دس ضلعوں اور شمالی کشمیر کے دو ضلعوں کپواڑہ اور باندی پورا میں فکس لائن انٹرنیٹ کمیونی کیشن سروس مہیا کرنے کو کہا گیا ہے۔
امریکہ کی خاتون رکن پارلیامان کن ڈیبی ڈنگیل نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں غیرمنصفانہ طریقے سے ہزاروں لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے اور لاکھوں لوگوں کی پہنچ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون تک نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے پچھلے ہفتہ اپنے ایک بےحد اہم فیصلے میں جموں و کشمیر انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر پابندی سے متعلق تمام احکام پر غور کرے۔ یہ پابندی گزشتہ سال پانچ اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد سے لگائی گئی تھی۔
جن 26 لوگوں پر سے پبلک سیفٹی ایکٹ ہٹایا گیا ہے ان میں سے کچھ یونین ٹریٹری سے باہر اتر پردیش اور راجستھان جیسی ریاستوں میں بند ہیں۔ ان میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر نذیر احمد رونگا بھی شامل ہیں، جنہیں اتر پردیش کی مرادآباد سینٹرل جیل میں حراست میں رکھا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ کہ انٹرنیٹ کا حق آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کا حصہ ہے۔ انٹرنیٹ پر پابندی لگانے کا کوئی بھی حکم جوڈیشیل جانچ کے دائرے میں ہوگا۔
گزشتہ اگست میں مرکزی حکومت کے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے اور یونین ٹریٹری بنا کر دو حصوں میں باٹنے کے فیصلے کے پہلے سے 3 وزیراعلیٰ سمیت کئی مقامی رہنما حراست میں ہیں۔
گزشتہ سال 5 اگست کو جموں و کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ ختم کرنے کے بعد سے انتظامیہ نے کمیونی کیشن کی سبھی لائنوں –لینڈ لائن ٹیلی فون خدمات، موبائل فون خدمات اور انٹر نیٹ خدمات کو بند کر دیا تھا۔
انٹرنیٹ نے موبائل فون میں بھی گھس پیٹھ کر لی ہے، سو ہر کس و نا کس کے ہاتھ یہ جالِ جدید لگ گیا ہے۔ اب ہر ایرا غیرا نتھو خیرا غالب کے نام سے بے تُکی باتیں نیٹ پر ڈال دیتا ہے۔
ہندنژاد-امریکی رکن پارلیامان پرمیلا جئے پال نے امریکی پارلیامنٹ میں جموں و کشمیر پر ایک تجویز پیش کرتے ہوئے ہندوستان سے وہاں لگائی گئی مواصلات پر پابندیوں کو جلد سے جلد ہٹانے اور سبھی باشندوں کی مذہبی آزادی محفوظ رکھے جانے کی اپیل کی۔
درخواست گزار نے الزام لگایا ہے کہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کے اہتماموں کو رد کرنے سے متعلق صدر جمہوریہ کا حکم غیر آئینی ہے۔
کانگریسی کارکن تحسین پوناوالا کے ذریعے دائر عرضی میں ریاست کی زمینی حقیقت کا پتا لگانے کے لئے ایک عدالتی کمیشن کی تشکیل کرنے اور عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے رہنماؤں کو رہا کرنے کی بھی مانگ کی گئی ہے۔
روس اپنا ایک آزاد انٹرنیٹ بنانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے، جس کا انحصار مغربی ممالک پر نہیں ہو گا، کم از کم سائبر اسپیس کی حد تک نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ روس ایسا کرنا کیوں چاہتا ہے؟