عوام کی غالب اکثریت یکساں سول کوڈ کو مسلمانوں کے نظریے سے دیکھتی ہے۔ ان کو نہیں معلوم کہ دیگر فرقے بھی اس کے مخالف ہیں۔ یہ خدشہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ کہیں اس کی آڑ میں ہندو کوڈ یا ہندو رسوم و رواج کو دیگر اقوام پر تو نہیں تھوپا جائے گا۔
یونیفارم سول کوڈ کے بارے میں نوبل انعام یافتہ ماہراقتصادیات امرتیہ سین نے سوال اٹھایا اور پوچھا کہ اس طرح کی قواعدسےکس کو فائدہ ہوگا۔ یہ عمل یقینی طور پر ‘ہندو راشٹر’ کے خیال سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ،’ہندو راشٹر’ ہی واحد راستہ نہیں ہو سکتا، جس کے ذریعے ملک ترقی کر سکتا ہے۔
ویڈیو: یونیفارم سول کوڈ کو لے کر ملک میں جاری سیاسی بحث نئی نہیں ہے، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ کہنا کہ یو سی سی ملک کی ضرورت ہے، کیا سچ میں ایسا ہے؟
ویڈیو: وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں یکساں سول کوڈ کی پرزور وکالت کی تھی۔ کیا یہ اگلے عام انتخابات سے پہلے بی جے پی کی طرف سے کوئی انتخابی چال ہے؟ اس بارے میں بتا رہی ہیں دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی۔
سال 1976 میں آئین کی تمہید میں‘سوشلزم’اور‘سیکولر’لفظ42ویں آئینی ترمیم کے تحت جوڑے گئے تھے۔ اب دو وکیلوں نے انہیں ہٹانے کی مانگ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ترمیم ہندوستان کے تاریخی اورثقافتی موادکے منافی تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ غور کرنا دلچسپ ہے کہ ریاست کی پالیسی کے ڈائریکٹو پرنسپل سے جڑے حصہ چار میں آئین کے آرٹیکل 44 میں آئین سازوں نے امید کی تھی کہ ریاست پورے ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کے لئے کوشش کرےگی۔ لیکن آج تک اس بارے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
یونیفارم سول کوڈ کے نام پر چینلوں اور اخباروں میں کتنی بحث چلائی گئی اور مسلمانوں کے متعلق نفرت کے برگدکا درخت کھڑا کیا جاتا رہا۔ اس بحث میں پہلے بھی کچھ نہیں تھا، اب بھی کچھ نہیں ہے۔
لاء کمیشن نے شادی، طلاق ،گزارہ بھتہ سے متعلق قوانین اور خواتین اور مردوں کی شادی کی عمر میں تبدیلی کے مشورے دیے ہیں۔
آئین میں کسی سیٹنگ جج کو اس کے عہدے سے ہٹائے جانے کا عمل بےحد پیچیدہ ہے۔ قانون سازمجلس کے دونوں ایوانوں کے ذریعے منظور شدہ تجویز کی بنیاد پر صدر ہی ان کو ہٹا سکتے ہیں۔
گزشتہ سال لاء کمیشن نے یہ اشارہ ضرور دیا تھا کہ اس کے مطابق ملک میں یونیفارم سول کوڈ لاگو کرنا بہت مشکل ہے اس لئے مختلف مذاہب کے پرسنل لاء کی اصلاح کرنے پر توجہ دینا بہتر ہوگا۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے ایک عرضی کے جواب میں کہا کہ مرکز اور ریاستی حکومتوں کو خط وکتابت میں دلت لفظ کے استعمال سے بچنا چاہیے کیونکہ یہ لفظ آئین میں نہیں ہے۔