خبریں

یونیفارم سول کوڈ متعارف کرانے کا قدم ایک دھوکہ ہے، جو ہندو راشٹر سے جڑا ہوا ہے: امرتیہ سین

یونیفارم سول کوڈ کے بارے میں نوبل انعام یافتہ ماہراقتصادیات امرتیہ سین نے سوال اٹھایا اور پوچھا کہ اس طرح کی قواعدسےکس کو فائدہ ہوگا۔ یہ عمل یقینی طور پر ‘ہندو راشٹر’ کے خیال سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ،’ہندو راشٹر’ ہی واحد راستہ نہیں ہو سکتا، جس کے ذریعے ملک ترقی کر سکتا ہے۔

(امرتیہ سین۔ فوٹو بہ شکریہ: amazon.in)

(امرتیہ سین۔ فوٹو بہ شکریہ: amazon.in)

نئی دہلی: نوبل انعام یافتہ پروفیسر امرتیہ سین نے بدھ کو کہا کہ یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) کو لاگو کرنے کی کوششیں ایک ‘دھوکہ’ ہے۔

انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی قواعد سے کس کو فائدہ ہوگا؟ پرو فیسرسین مغربی بنگال کے وشو بھارتی واقع اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے بات کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عمل یقینی طور پر ‘ہندو راشٹر’ کے خیال سے جڑا ہوا ہے۔

دی ہندو میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ، ماہر اقتصادیات امرتیہ سین نے کہا، ‘میں نے آج اخبارات میں دیکھا کہ یو سی سی کے نفاذ میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ اتنی احمقانہ  باتیں کہاں سے آگئیں؟ ہم ہزاروں سالوں سے اس کے بغیر رہے ہیں اور مستقبل میں بھی اس کے بغیر رہ سکتے ہیں۔

پروفیسر سین نے کہا کہ ‘ہندو راشٹر’ ہی واحد راستہ نہیں ہو سکتا جس کے ذریعے ملک ترقی کر سکتا ہے اور ان سوالوں کو وسیع تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، ان کا کہنا تھا کہ ،’یقیناً ہندو مذہب کو استعمال کرنے یا غلط استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یو سی سی کو نافذ کرنے کی کوشش اس معاملے کو کھلم کھلانارمل بتانے کی کوشش ہے، جو پیچیدہ ہے اور جس کے بارے میں لوگوں میں بہت سے اختلافات ہیں۔

واضح ہو کہ گزشتہ جون میں وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے یونیفارم سول کوڈ کی پرزور وکالت کے بعد میگھالیہ، میزورم اور ناگالینڈ میں مختلف تنظیموں نے اس کے خلاف احتجاجی رویہ  اختیار کرلیا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں نے مودی کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم کئی محاذوں پر اپنی حکومت کی ناکامی سے توجہ ہٹانے کے لیےتفرقہ انگیز سیاست کا سہارا لے رہے ہیں۔ مسلم تنظیموں نے بھی یو سی سی پر وزیر اعظم کے تبصرے کو غیر ضروری قرار دیا تھا۔

گزشتہ 4 جولائی کو شمال–مشرقی ریاست میزورم کے وزیر اعلیٰ زورامتھانگا نے لا کمیشن آف انڈیا کو ایک خط لکھا ہےجس میں کہا گیا ہے کہ یو سی سی نسلی اقلیتوں اور بالخصوص میزو برادری کے مفادات کے خلاف ہے۔

زورامتھانگا حکمران میزو نیشنل فرنٹ (ایم این ایف) کے صدر بھی ہیں۔ ایم این ایف بی جے پی کی قیادت والی نارتھ ایسٹ ڈیموکریٹک الائنس (این ای ڈی اے) کا ایک حصہ ہے، جو کہ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کی علاقائی شکل ہے۔

اس سے قبل 30 جون کو میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ کونراڈ کے سنگما نے بھی کہا ہے کہ یو سی سی اپنی موجودہ شکل میں ہندوستان کی روح کے خلاف ہے۔ سنگما کی نیشنل پیپلز پارٹی (این پی پی) بھی این ای ڈی اے کی رکن ہے۔

اس سے قبل ناگالینڈ میں سینٹرل ناگالینڈ ٹرائبس کونسل (سی این ٹی سی) نے بھی لاء کمیشن کو خط لکھ کر کہا ہے کہ آئین ہندوستان کے لوگوں میں تنوع اور کثرتیت کو تسلیم کرتا ہے اور اس لیے یو سی سی اپنی موجودہ شکل میں آئیڈیا آف انڈیاکے خلاف ہے۔

غورطلب ہے کہ یو سی سی کی مخالفت میگھالیہ، میزورم اور ناگالینڈ میں سب سے زیادہ مضبوط رہی ہے، جہاں 2011 کی مردم شماری کے مطابق، عیسائیوں کی آبادی بالترتیب 74.59 فیصد، 86.97 فیصداور 87.93 فیصد ہے۔ دیگر شمال–مشرقی ریاستوں نے ردعمل ظاہر کرنے سے پہلے مسودے کا مطالعہ کرنے کی بات کہی ہے۔

اسی طرح چھتیس گڑھ کی ایک قبائلی تنظیم–سرو آدیواسی سماج کا بھی کہنا ہے کہ قبائلی سماج میں یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ناقابل عمل لگتا ہے۔ اس سے قبائلی معاشرے میں صدیوں کے رسوم و رواج متاثر ہو سکتے ہیں، جس سے ان برادریوں کی شناخت اور وجود کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

غور طلب ہے کہ یونیفارم سول کوڈ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اہم ایشوز میں سے ایک رہا ہے۔ یہ 2014 اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے بڑے انتخابی وعدوں میں سے ایک تھا۔ اتراکھنڈ کے علاوہ مدھیہ پردیش، آسام، کرناٹک اور گجرات کی بی جے پی حکومتوں نے اسے نافذ کرنے کی بات کہی تھی۔

اتراکھنڈ اور گجرات جیسی بی جے پی مقتدرہ ریاستوں نے اس کے نفاذ کی سمت میں  قدم اٹھائے ہیں۔ نومبر-دسمبر 2022 میں ہوئے گجرات اور ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات میں بھی یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ بی جے پی کے اہم ایشوز میں سے ایک تھا۔