حکومت نے فاروق عبداللہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیا
پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے )کے تحت بنا ٹرائل کے کسی شخص کو دو سال تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ 5 اگست سے ہی نظر بند ہیں۔
پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے )کے تحت بنا ٹرائل کے کسی شخص کو دو سال تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ 5 اگست سے ہی نظر بند ہیں۔
راجیہ سبھا ممبر اور ایم ڈی ایم کے کے بانی وائیکو نے اپنی عرضی میں کہا کہ فاروق عبداللہ پر کارروائی پوری طرح سے غیر قانونی اور غلط ہے۔یہ ان کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
جموں و کشمیر پیپلس موومنٹ کی رہنما شہلا رشید نے گزشتہ مہینے کشمیر میں ہندوستانی فوج پر اذیت رسانی کا الزام لگایا تھا، جس کے بعد سپریم کورٹ کے ایک وکیل کی شکایت پر دہلی پولیس نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔
ویڈیو: جموں وکشمیرکے خصوصی ریاست کا درجہ ختم کیے جانے کے بعد اس کو یونین ٹریٹری میں تقسیم کرنے کے حکومت کے فیصلے پر لداخ کے لیہ کے لوگ جہاں خوش ہیں وہیں کارگل میں لوگ اس کے خلاف ہیں ۔ حالاں کہ نوکری اور زمین کے تحفظ کو لے کر لیہ اور کارگل دونوں جگہوں کے لوگ فکر مند ہیں ۔
کشمیر پریس کلب نےصحافیوں اور میڈیا اداروں کے لیے انٹر نیٹ اور ٹیلی فون خدمات بحال کرنے کی مانگ کرتے ہوئے انتظامیہ کے ذریعے کچھ صحافیوں سے سرکاری رہائش گاہ خالی کرنے کے حکم کی تنقید کی ہے۔
برٹن کے وزیر خارجہ ڈومنک راب نے پارلیامنٹ میں کہا کہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کے بعد سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کی تفتیش ہونی چاہیے۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے گزشتہ منگل کو جموں و کشمیر کے سرپنچ اور پنچوں کے ایک وفد سے ملاقات کی اور ریاست میں موبائل فون خدمات اگلے 15-20 دنوں میں بحال کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
گراؤنڈ رپورٹ : ایک مزدور کا کہنا تھاکہ،اگر دفعہ 370 ہٹانا اور ریاست کی تقسیم کا فیصلہ کشمیریوں کے حق میں ہوتا تو یہاں حالات اس قدر ابتر نہیں ہوتے۔ مواصلاتی خدمات پر پابندی عائد نہیں ہوتی۔ ہر جمعہ کو کرفیو نہیں لگایا جاتا۔ اسکول، دفاتر اور بینک بند نہیں ہوتے۔ سڑکوں پر اتنے فورسز اہلکار تعینات نہیں ہوتے۔
ویڈیو:جموں و کشمیر کا خصوصی ریاست کا درجہ ختم کرنے کے بعد وہاں پر موبائل اور انٹرنیٹ خدمات پر روک لگی ہوئی ہے۔ 4 ہفتے گزر جانے کے بعد بھی ان خدمات کو بحال نہیں کیا گیا ہے۔اس مدعے پر کشمیریوں سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
سرینگر میئر جنید عازم مٹو نے کہا کہ ، بی جے پی حکومت کی حراست میں لینے کی پالیسی پوری طرح سے آپریشنل ہے۔
ہانگ کانگ اور کشمیر دونوں ہی اس وقت تاریخ کے ایک جیسے دور سے گزر رہے ہیں ؛ دونوں کی خودمختاری کے نام پر کیا گیا معاہدہ خطرے میں ہے اور ان سے معاہدہ کرنے والے ممالک کی حکومت ان معاہدوں سے انکار کر رہی ہیں۔
ویڈیو: جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیے جانے کے بعد وہاں تمام رہنماؤں کو حراست میں رکھا گیا ہے ۔ دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی نے سرینگر واقع سینٹور ہوٹل میں نظربند سجاد لون ، عمران انصاری ،عمر عبداللہ کے صلاح کار تنویر صادق اور شاہ فیصل سے بات چیت کی ۔
سرینگر سے گراؤنڈ رپورٹ : مین اسٹریم میڈیا میں آ رہی کشمیر کی خبروں میں سے 90 فیصد جھوٹی ہیں۔ کشمیر کے حالات معمولی مظاہرہ تک محدود نہیں ہیں اور نہ ہی یہاں کوئی سڑکوں پر ساتھ ملکر بریانی کھا رہا ہے۔
کشمیری صحافی اور قلمکار گوہر گیلانی نے کہا کہ وہ جرمنی کی میڈیا تنظیم ڈائچے ویلے کے تربیتی پروگرام میں حصہ لینے جا رہے تھے لیکن ان کو دہلی کے آئی جی آئی ہوائی اڈے پر روک لیا گیا۔
کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر نذیر احمد رونگا کو خصوصی ریاست کا درجہ ختم کرنے سے ایک دن پہلے 4 اگست کو پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ الزام ہے کہ وہ اس فیصلے کو لےکرلوگوں کو متاثر کر سکتے تھے۔
راج بھون کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی آدمی کو حراست میں لئے جانے یا رہا کئے جانے میں جموں و کشمیر کے گورنر شامل نہیں ہیں۔ اس طرح کے فیصلے مقامی پولیس انتظامیہ کے ذریعے کئے جاتے ہیں۔
کشمیر کے موجودہ حالات پرشہلا رشید نے ٹوئٹ کر کے فوج پر اذیت رسانی کا الزام لگایا تھا۔ مرکزی وزیر نے ان الزامات پر کہا کہ ملک کی بربادی چاہنے والوں کو کچلنا ہوگا۔
فوج کے ذریعے حلقے میں خوف کا ماحول بنادینے کے شہلا رشید کے الزام کو فوج نے خارج کرتے ہوئے اس کو بے بنیاد بتایا۔ شہلا کا کہنا ہے کہ اگر فوج اس کی غیر جانبدارانہ جانچ کرنا چاہے تو وہ ایسے واقعات کی جانکاری دے سکتی ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق، ایک مجسٹریٹ نے بتایا کہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم ہونے کے بعد سے کم سے کم 4000 لوگوں کو گرفتار کرکے پی ایس اے کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔
سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل کو واپس سرینگر بھیج دیا گیا ہے ، جہاں ان کو جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت نظر بند رکھا گیا ہے۔
انسداد دہشت گردی کے نام پر پچھلی کئی دہائیوں سے ہندوستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے جو کھیل کھیلا ہے، اس کی وجہ سے لاتعداد مسلم نواجوانوں کی زندگیاں تباہ و برباد ہوگئی ہیں۔ برسوں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے رہنے اور اس دوران مسلسل اذیت سے گذرنے کے بعد ان میں سے اکثر ملزمین کو عدالتوں نے بے قصور قرار دے کر رہا کردیاہے۔
1996 میں راجستھان میں ہوئے سملیٹی بلاسٹ معاملے کے 6 ملزمین رئیس بیگ، جاوید خان، لطیف احمد واجہ، محمد علی بھٹ، مرزا نثار حسین اور عبدالغنی کو 23 سال بعد بری کر دیاگیا۔ ان لوگوں کو کبھی ضمانت نہیں دی گئی۔ رئیس بیگ کے علاوہ دیگر لوگ جموں و کشمیر کے رہنے والے ہیں۔
غور طلب ہے کہ اس سے قبل نیشنل کانفرنس (این سی) نے بھی پنچایت انتخابات میں حصہ نہیں لینے کا اعلان کیا تھا۔
’حزب المجاہدین کمانڈر برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے بعد سے اب تک قریب دو سو مقامی نوجوانوں نے بندوقیں اٹھاکر جنگجو تنظیموں بالخصوص حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے۔‘
سری نگر کے مولانا آزاد روڑ پر واقع تاریخی ’ہولی فیملی کیتھولک چرچ‘ میں کرسمس کے موقع پر 50 برس بعد گھنٹا بجایا گیا۔ سری نگر: پوری دنیا کی طرح ریاست جموں وکشمیر کی مسیحی برادری نے بھی پیر کے روزکرسمس کا تہوار انتہائی جوش و خروش اور […]