کیا گاندھی کے قتل میں آر ایس ایس کا ہاتھ تھا؟
گاندھی جی کے قتل میں آر ایس ایس کا ہاتھ ہونے کے معاملے کو عدالتی کارروائی پر چھوڑنا مناسب ہے۔لیکن تاریخ نگاری ان کے قتل کے پیچھے چھپے نظریہ کو پکڑنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
گاندھی جی کے قتل میں آر ایس ایس کا ہاتھ ہونے کے معاملے کو عدالتی کارروائی پر چھوڑنا مناسب ہے۔لیکن تاریخ نگاری ان کے قتل کے پیچھے چھپے نظریہ کو پکڑنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
عام آدمی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کے ترنگے کے رنگ پکے ہیں۔ خالص گھی کی طرح ہی وہ خالص قوم پرستی کا کاروبار کر رہی ہے۔ ہندوستان اور ابھی اتر پردیش کے رائے دہندگان کو قوم پرستی کا اصل ذائقہ اگر چاہیے تو وہ اس کی دکان پر آئیں۔اس کی قوم پرستی کی دال میں ہندوازم کی چھونک اور سشاسن کے بگھار کا وعدہ ہے۔
بھگت سنگھ کو اپنا ہیرو بنانے کی کوشش وہ لوگ کر رہے ہیں، جن کے اسلاف ہندوستان کی جدو جہد آزادی میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے بھگت سنگھ جیسے انقلابی لیڈروں کے فلسفے سے نہ صرف خود کو الگ تھلگ رکھا تھا بلکہ ان کی پھانسی کے وقت مجرمانہ خاموشی بھی اختیار کر لی تھی۔
بھگت سنگھ اپنے کھلے جسم اور قد کاٹھ کی وجہ سے ہر طرح سے ہیرو لگتا تھا۔ چنانچہ جب وہ اپنی پاٹ دار آواز میں ڈائیلاگ کی ادائیگی کرتا تو ڈرامہ سامعین کے دلوں میں اُتر جاتا۔ ان ڈراموں کا مقصد بھی یہی تھاکہ انگریزوں کے خلاف آواز بلند کی جائے اور لوگوں میں دیش بھگتی کے جذبات اُبھارے جائیں۔ جلد ہی حکومت نے کالجوں میں ایسے ڈرامے کرنے پر پابندی لگادی جن میں دیش بھگتی کا پیغام ہوتا تھاکیونکہ دیش بھگتی سے مراد انگریز حکومت سے بغاوت کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
بھگت سنگھ کی تحریروں سے سن و سال مٹا دیجیے ،اس کے بعد پڑھیے ،ایسا محسوس ہوگا کہ بھگت سنگھ ہمارے زمانے میں لکھ رہے ہیں موجودہ سیاسی منظر نامے اور اس کی “گودی میڈیا” کی بات کر رہے ہیں۔
ویڈیو: شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کے دوران جن چوک نیوز پورٹل کے صحافی سشیل مانو کو ایک گروپ نے روک کران کے ساتھ مار پیٹ کی اور مذہبی پہچان ثابت کرنے کو کہا۔ سشیل کی آپ بیتی۔
گجرات میں آنند ضلع کے کھنبھات قصبہ میں لگاتار تیسرے دن بھی کشیدگی برقرار رہی اور بھیڑ نے منگل کو کچھ ہندو کمیونٹی کے گروپوں کے ذریعے بند کے دن سڑک کنارے دو جھونپڑی اور موٹرسائیکل کو جلا دیا۔ اتوار کو اس قصبہ میں فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئی تھیں۔
ایک مہینے کے اندر دونوں کمیونٹی کے بیچ یہ دوسری جھڑپ ہے۔ اس سے پہلے 24 جنوری کو ہوئے اسی طرح کے معاملے میں ایک شخص کی موت ہو گئی تھی۔
ایک سال کی تاخیرسے جاری کئے گئے این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق،سال 2017 میں ملک میں فسادات کے کل 58729 معاملے درج کیے گئے۔ ان میں سے 11698 فسادات بہار میں ہوئے۔2017 میں ہی ملک میں کل 723 فرقہ وارانہ / مذہبی فسادات ہوئے۔ ان میں سے اکیلے بہار میں 163 معاملے ہوئے، جو کسی بھی صوبے سے زیادہ ہے۔
جنوبی اور مرکزی ایشیا معاملوں کی کارگزار اسسٹنٹ سکریٹری آف اسٹیٹ ایلس جی ویلز نے امریکی ایوان میں کہا کہ اقلیتوں کے خلاف تشدد اور جانبداری کے واقعات، گئو رکشک کے ذریعے دلتوں اور مسلمانوں پر حملے جیسے واقعات ہندوستان کے ذریعے اقلیتوں کو دیے گئے قانونی تحفظ کے مطابق نہیں ہیں۔
ویڈیو: بھگت سنگھ کی یوم پیدائش پر ان کے خیالات پر بات کر رہے ہیں پروفیسر اپوروانند۔
فیک نیوز راؤنڈ اپ: گزشتہ ہفتے عام کی گئی فیک نیوز کا مقصد فرقہ وارانہ تشدد، انتشار اور خوف کو عام کرنا تھا اور اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لئے پاکستان کے ویڈیو سے لے کر راجستھان میں معذور کی پٹائی والے ویڈیو کا سہارا لیا گیا۔
گزشتہ 21 جون کو امریکی وزارت خارجہ کے ذریعے جاری بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان میں گائے کے کاروبار یا گئو کشی کی افواہ پر اقلیتی کمیونٹی،بالخصوص مسلمانوں کے خلاف انتہاپسند ہندو گروپوں نے تشدد کیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری صرف مثالی ضابطہ اخلاق ہی نہیں بلکہ عوامی نمائندگی قانون کو بھی برقرار رکھنا ہے، جس کے تحت وزیر اعظم سمیت مختلف بی جے پی رہنماؤں کی نفرت بھری تقریر جرم کے زمرہ میں آتی ہیں۔
جودھپور میں ایک کمیونٹی کے لوگوں کے ذریعے سنیچر کو رام نومی کے جلوس پر پتھراؤ کے بعد فرقہ وارانہ تشدد شروع ہو گیا۔کچھ گاڑیوں میں آگ لگا دی گئی اور بھیڑ نے پولیس اور کچھ گھروں پر پتھراؤ بھی کیا۔
نتشب کمار نے ایک حالیہ انٹرویو مںم کہا تھا کہ ا ن کی 13 سالہ حکومت مں صرف ایک بار نوادہ مںا کرفوی لگا اور وہ بھی محض 48 گھنٹے کے لئے۔ مگر مڈییا رپورٹس کی مانں ، تو ان کا یہ دعویٰ بھی سچائی سے پرے ہے۔
وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ٹوئٹر پر دعویٰ کیا کہ ان کے دو سال کی حکومت میں کوئی فساد نہیں ہوا ہے۔ حالانکہ سرکاری رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف سال 2017 میں ہی اتر پردیش میں فرقہ وارانہ تشدد کے کل 195 واقعات ہوئے ہیں۔ اس دوران 44 لوگوں کی موت ہو گئی اور 542 لوگ زخمی ہوئے۔
وزارت داخلہ نے بتایا کہ ہندوستان میں سال 2004 سے 2017 کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد کے 10399 واقعات ہوئے۔ اس میں 1605 لوگ مارے گئے اور 30723 لوگ زخمی ہوئے۔
گزشتہ سال بھی حالات کچھ زیادہ بہتر نہیں تھے۔اس وقت اس طرح کے تشدد میں29 لوگ مارے گئے تھے۔ لیکن گزشتہ سال کے مقابلے اس سال زخمیوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
جے ڈی یوکے قانون سازکونسل کے رکن خالد انورکا میڈیامیں ایک بیان آیاکہ سیتامڑھی میں کچھ نہیں ہوا اورفسادمیں کسی کے مارے جانے کی بات محض افواہ ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
سیتامڑھی تشدد کے دوران ایک بزرگ کو زندہ جلا دیا گیا تھا ۔ اس معاملے کے 3 ہفتے بعد بھی ملزمین پولیس کی گرفت سے باہر ہیں ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی ان کا سارا دھیان چٹھ پوجا پر ہے۔
20 اکتوبر کو بہار کے سیتامڑھی میں درگا پوجا یاترا کے دوران بھیڑ نے 80 سالہ بزرگ زین الانصاری کو زندہ جلا دیا تھا۔
خاص رپورٹ : گزشتہ اپریل میں رام نومی کے دوران بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کے کئی واقعات ہوئے تھے۔ اب پچھلے کچھ ہفتوں میں ریاست کے مختلف ضلعوں سی بڑی تعداد میں پولیس نے تلواریں بر آمد کی ہیں۔
ترنگا لےکر آپ کانور یاترا میں چل سکتے ہیں۔ گنیش وسرجن میں بھی اس کو لہرا سکتے ہیں۔ بد عنوانی مخالف تحریک میں بڑے ڈنڈوں میں باندھکر موٹرسائیکل پر دوڑا سکتے ہیں۔ ترنگا سے آپ مسلمانوں کے خلاف تشدد کرنے والوں کی لاش ڈھک سکتے ہیں، لیکن اس سے آپ اپنی بےپردگی ڈھک نہیں سکتے!
علی گنج کے ایس ایچ او وشال پرتاپ سنگھ کی طرف سے یہاں کی 250 فیملیوں کو ‘ ریڈ کارڈ’ دیے گئے۔ یہ کارڈ ان کے لیے ایک وارننگ تھی کہ کانوڑ یاترا کے دوران کوئی شرارت نہیں ہونی چاہیے۔
گراؤنڈ رپورٹ :بہار کے اورنگ آباد میں مارچ میں رام نومی کے وقت ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں کئی دکانوں میں لوٹ پاٹ کرکے آگ لگا دی گئی تھی۔اس وقت نتیش حکومت نے متاثر دکانداروں کو معاوضہ دینے کی بات کہی تھی، لیکن چار مہینے کے بعد بھی زیادہ تر دکانداروں کو ایک روپیہ بھی معاوضہ نہیں ملا ہے۔
مرکزی وزیر جیسے اور بھی کئی ہیں جو ایک امیر اور تعلیم یافتہ بیک گراؤنڈ سے آتے ہیں، جو دکھتے لبرل ہیں لیکن جن کے من میں فرقہ وارانہ سڑاند بھری ہوتی ہے۔
تنظیمیں چاہے کوئی بھی ہوں ان سب کی فکر ایک ہی ہے: ہندو دھرم کی رکشا کے نام پر مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں سے بے انتہا نفرت کا اظہار اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے جھوٹ اور فریب کے ساتھ تشدد اور دہشت گردی کا استعمال۔
اگر آپ صرف وزیر اعظم نریندر مودی کی ٹوئٹر ٹائم لائن دیکھیںگے، تو آپ کو پتہ نہیں لگےگا کہ ملک میں کیا چل رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے سال 2017 کی بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ جاری کی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں سال کے پہلے 6 مہینوں میں عیسائیوں کو زدوکوب کرنے کے 410 واقعات سامنے آئے ہیں۔
گجرات دنگے کے دوران آنند ضلع کے اوڈے قصبے میں ایک گھر میں آگ لگائی گئی جس میں اقلیتی طبقے کے 23لوگ جل کر مر گئے تھے۔
’مسلمانوں کی دکانیں جلائی جا رہی تھیں، تو ہندو بہنیں دکانوں کے سامنے کھڑی ہو گئی تھیں اور شرپسندوں سے کہا کہ ہمیں جلا دو، پر ان کی دکان نہ جلاؤ۔ ہمارے درمیان ایسا بھائی چارہ ہے۔ ہم کیسے کہہ دیں کہ یہ سب ہمارے ہندو بھائیوں نے کیا ہے؟ ‘
آن لائن ہزاروں کی تعداد میں تلواریں ایڈوانس میں ہی خریدی گئی تھیں۔یہاں ایک سوال اٹھ سکتا ہے کہ کیا واقعی آن لائن تلوار خریدنا اتنا آسان ہے کہ کوئی بڑی تعداد میں اس کو خرید سکتا ہے؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب ہے ہاں۔
نفرت پھیلانے والی تقریر کرنے والے رکن پارلیامان / ایم ایل اے کی تعداد کے لحاظ سے بی جے پی کی حکومت والی ریاست اتر پردیش سر فہرست ہے۔ ریاست میں فرقہ وارانہ تشدد کے معاملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
وہ ساری نفرت بھری باتیں جو ایک دوسرے کے کھان پان، رہن سہن اور اخلاقیات کے بارے میں پہلے اتنی شدت سے نہیں سنی جاتی تھیں، اب ان باتوں میں ؛’ہم سب،اُو سب ،ای لوگ اُو لوگ ، اوکنی کے ‘ زیادہ اثردار ہونے لگا ہے۔
ریاست کے فرقہ وارانہ تشدد سے بچے رہنے کا کریڈٹ اس وقت کے وزیراعلیٰ لالو پرساد یادو کو جاتا ہے ۔لالو کے بعد نتیش آئے جنہوں نے فرقہ وارانہ تشددکے متعلق ’ زیرو ٹالرینس ‘ پالیسی اپنائی تھی۔ اس وقت ان کی معاون بی جے پی کمزور تھی، اس لئے وہ اپنی شرطیں نافذ کرنےمیں کامیاب رہے۔
یہ نفرت اور تشدد، بہاری سماج کو گہرا زخم دینے والا ہے۔ سڑکوں پر اترے لوگوں کے تیور دیکھئے۔ اس تیور میں نفرت کی گرمی دیکھئے۔ ان کی چال، ان کے ہاتھ سے اٹھتی تلوار، ہاکی سٹک اور منھ سے نکلے قول اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔
نکلیے چوراہے پر، پڑوسی کا دروازہ کھٹکھٹائیے۔ آواز دیجئے کہ آپ فسادات کی اس ذہنیت کے خلاف ہے۔
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے بڑھتے واقعات اور الیکشن کمیشن کے رول پر اٹھتے سوالات پر ونود دوا کا تبصرہ
ہمارے عظیم کھلاڑیوں کو عوام سرآنکھوں پر بٹھاتی ہے، مگر عوام پر جب ایسا کوئی برا وقت آتا ہےجس کے لئے حکومت یا سماج کا ایک طبقہ ذمہ دار ہو تو وہ ایسے غائب ہو جاتے ہیں، گویا اس دنیا میں رہتے نہ ہوں۔