عوام کی غالب اکثریت یکساں سول کوڈ کو مسلمانوں کے نظریے سے دیکھتی ہے۔ ان کو نہیں معلوم کہ دیگر فرقے بھی اس کے مخالف ہیں۔ یہ خدشہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ کہیں اس کی آڑ میں ہندو کوڈ یا ہندو رسوم و رواج کو دیگر اقوام پر تو نہیں تھوپا جائے گا۔
یونیفارم سول کوڈ کے بارے میں نوبل انعام یافتہ ماہراقتصادیات امرتیہ سین نے سوال اٹھایا اور پوچھا کہ اس طرح کی قواعدسےکس کو فائدہ ہوگا۔ یہ عمل یقینی طور پر ‘ہندو راشٹر’ کے خیال سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ،’ہندو راشٹر’ ہی واحد راستہ نہیں ہو سکتا، جس کے ذریعے ملک ترقی کر سکتا ہے۔
ویڈیو: یونیفارم سول کوڈ کو لے کر ملک میں جاری سیاسی بحث نئی نہیں ہے، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ کہنا کہ یو سی سی ملک کی ضرورت ہے، کیا سچ میں ایسا ہے؟
ویڈیو: وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں یکساں سول کوڈ کی پرزور وکالت کی تھی۔ کیا یہ اگلے عام انتخابات سے پہلے بی جے پی کی طرف سے کوئی انتخابی چال ہے؟ اس بارے میں بتا رہی ہیں دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ غور کرنا دلچسپ ہے کہ ریاست کی پالیسی کے ڈائریکٹو پرنسپل سے جڑے حصہ چار میں آئین کے آرٹیکل 44 میں آئین سازوں نے امید کی تھی کہ ریاست پورے ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کے لئے کوشش کرےگی۔ لیکن آج تک اس بارے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
موجودہ سسٹم میں غلط حلف نامہ داخل کرنے والے امیدوار کے خلاف مجرمانہ قانون کے تحت دھوکہ دھڑی کا ہی معاملہ درج ہوتا ہے۔
یونیفارم سول کوڈ کے نام پر چینلوں اور اخباروں میں کتنی بحث چلائی گئی اور مسلمانوں کے متعلق نفرت کے برگدکا درخت کھڑا کیا جاتا رہا۔ اس بحث میں پہلے بھی کچھ نہیں تھا، اب بھی کچھ نہیں ہے۔
لاء کمیشن نے شادی، طلاق ،گزارہ بھتہ سے متعلق قوانین اور خواتین اور مردوں کی شادی کی عمر میں تبدیلی کے مشورے دیے ہیں۔
کمیشن نے کہا کہ حب الوطنی کا کوئی ایک پیمانہ نہیں ہے ۔ لوگوں کو اپنے طریقے سے ملک کے تئیں اپنی محبت کے اظہار کی آزادی ہونی چاہیے۔
ملک میں ایک ساتھ لوک سبھا اور اسمبلی انتخاب کرانے سے متعلق صلاح مشورے کے لئے لاء کمیشن نے تمام سیاسی پارٹیوں کی7 اور 8جولائی کومیٹنگ بلائی ہے۔
گزشتہ سال لاء کمیشن نے یہ اشارہ ضرور دیا تھا کہ اس کے مطابق ملک میں یونیفارم سول کوڈ لاگو کرنا بہت مشکل ہے اس لئے مختلف مذاہب کے پرسنل لاء کی اصلاح کرنے پر توجہ دینا بہتر ہوگا۔