ویڈیو: کچھ دن پہلے ٹوئٹر پر بی جے پی رہنما کپل مشراکی جانب سے ہندو اِکوسسٹم بنانے کی بات کی گئی تھی۔ اس کے بعد ایک ٹیلی گرام گروپ بنایا گیا، جس میں کئی سارے لوگ جڑے ہوئے ہیں، جو عیسائی اور مسلم کمیونٹی کے لوگوں کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ اس پر نیوزلانڈری ویب سائٹ کے رپورٹر میگھ ناد ایس سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
اب لگتا ہے کہ دلتوں کی طرح کرکٹ میں مسلمانوں کو بھی اب زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جائےگا۔ حال ہی میں جس طرح اتراکھنڈ صوبہ کی کرکٹ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں اور بعد میں وزیروں نے معروف بلے باز وسیم جعفر کو نشانہ بناکر ان پر فرقہ پرستی کا الزام لگا کر کوچنگ سے فارغ کروایا، وہ ہندوستان کی عمومی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔
گزشتہ سال فروری میں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئےتشددکے دوران گوکل پوری اوردیال پوری علاقوں میں آگ زنی اور توڑ پھوڑ کے معاملوں کے تین ملزمین کو ضمانت دیتے ہوئے مقامی عدالت نے کہا کہ ان کے نام نہ ایف آئی آر میں ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی خصوصی الزام ہیں۔
ملزمین کو ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کے ذریعے کی گئی شناخت کا بہ مشکل کوئی مطلب ہے، کیونکہ بھلے ہی وہ واقعہ کے وقت علاقے میں تعینات تھے، پر انہوں نے ملزمین کا نام لینے کے لیے اپریل تک کا انتظار کیا، جبکہ انہوں نے صاف طور پر کہا ہے کہ انہوں نے ملزمین کو 25 فروری 2020 کو دنگے میں مبینہ طور پر شامل دیکھا تھا۔
ہندوستان میں ایک نیا ریڈیکلائزیشن شکل لے چکا ہے۔ اس کو روزمرہ کی دہشت گردی کہہ سکتے ہیں۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس کو’اسلامی دہشت گردی’کے برعکس ہندوؤں میں وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہے۔
الزام ہے کہ اجین کے بیگم باغ علاقے میں بھارتیہ جنتا یووا مورچہ کی ریلی میں مبینہ طور پر فرقہ وارانہ نعرے لگانے کی وجہ سے کچھ لوگوں نے پتھربازی کر دی تھی۔ مدھیہ پردیش میں شدت پسند ہندوگروپس کی جانب سے ایسی ریلیوں کے دوران کئی جگہوں پر تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ یہ ریلیاں رام مندر تعمیر کے لیے چندہ جمع کرنے کے مقصد سے نکالی جا رہی ہیں۔
اپوزیشن نے مدرسوں کو بند کرنے کے آسام سرکار کے قدم کی تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ریاست میں یہ پولرائزیشن کا ہتھکنڈہ ہے جہاں اگلے سال مارچ اپریل میں انتخاب ہونے ہیں۔ کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ 97 موجودہ سرکاری سنسکرت اداروں کو اسٹڈی سینٹراور ریسرچ سینٹروں میں تبدیل کیا جائےگا۔
یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا تھا کہ مسلم لڑکیاں خود ہی ہندو لڑکوں سے شادیاں کرکے بہ رضاو رغبت مذہب تبدیل کرتی ہیں۔
مدھیہ پردیش اور اڑیسہ کےتبدیلی مذہب کے انسداد سے متعلق قوانین میں کہیں بھی بین مذہبی شادی کا ذکر نہیں تھا اور نہ ہی سپریم کورٹ نے اس پر کوئی تبصرہ کیا تھا۔ ایسے میں اتر پردیش سرکار کا ایسا کوئی اختیار نہیں بنتا کہ وہ بنا کسی ثبوت یادلیل کے بین مذہبی شادیوں کو نظم و نسق کے سوال سے جوڑ دے۔
اگرہندوستان میں رہنے والے تمام 172ملین مسلمان بھی صرف ہندو لڑکیوں سے ہی شادیا ں کرتے ہیں، تو بھی 966ملین ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل نہیں کرسکتے ہیں۔
کرناٹک میں‘مورل پولیس’کا کام کرنے سے لےکر اتر پردیش کے مظفرنگر میں فسادات بھڑ کانے تک‘لو جہاد’کا راگ چھیڑ کر ہندو رائٹ ونگ تنظیموں نے اپنے کئی مقاصد کی تکمیل کی ہے۔
ایک طرف ہندوستانی آئین بالغ شہریوں کو اپنا شریک حیات منتخب کرنے کااختیار دیتا ہے، مذہب چننے کی آزادی دیتا ہے، دوسری طرف بی جے پی مقتدرہ حکومتیں آئین کی بنیادی قدروں کے برعکس قانون بنا رہی ہیں۔
ویڈیو: مبینہ لو جہاد کو لےکر اتر پردیش سرکار نے آرڈیننس کو منظوری دے دی ہے۔ اس کے تحت شادی کے لیے فریب، لالچ یا جبراًمذہب تبدیل کرائے جانے پر زیادہ سے زیادہ10 سال کی قیداور جرما نے کی سزا کا اہتمام ہے۔
بی جے پی لو جہاد کے راگ کو کیوں نہیں چھوڑ رہی؟وہ ہندوؤں میں خوف بٹھا رہی ہے کہ ‘ہماری’عورتوں کا استعمال کرکے ‘ودھرمی’اپنی تعداد بڑھانے کی سازش کر رہے ہیں۔ ‘ودھرمیوں’ کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا سبب ہے۔ تعداد ہی طاقت ہے اور وہی برتری کی بنیاد ہے۔ اس لیے ایسی ہر شادی یا رشتے کی مخالفت کی جانی ہے، کیونکہ اس سے ‘ودھرمی’ کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
اتر پردیش کے کانپور شہر میں کچھ رائٹ ونگ ہندو تنظیموں نے الزام لگایا تھا کہ مسلم نوجوان مذہب تبدیل کرانے کے لیے ہندو لڑکیوں سے شادی سے کر رہے ہیں۔ اس کے لیے انہیں دوسرے ملکوں سے فنڈ مل رہا ہے اور لڑکیوں سے انہوں نے اپنی پہچان چھپا رکھی ہے۔ اس کی جانچ کے لیے کانپور رینج کے آئی جی نے ایس آئی ٹی بنائی تھی۔
ایک جمہوری معاشرہ کی بنیاد ہی اظہار رائے کی آزادی ہے، مگر کسی بھی مہذب سوسائٹی میں آزادی مطلق نہیں ہوسکتی ہے۔ اگر سوسائٹی میں کسی بھی طرح کا کنٹرول نہ ہو، تو کمزوروں کے حقوق پامال ہوں گے اور انارکی کی سی کیفیت پیدا ہوگی۔ ڈنمارک کے […]
اگر موجودہ حالات و کوائف پرنظر ڈالی جائے تو اس بات کا خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں 47 کے واقعہ کو پھر سے دہرایا جا سکتا ہے، جیسا کہ سابق کابینہ وزیر چودھری لا ل سنگھ نے ایک مسلم وفد کو 47یاد کرنے کا مشور ہ دیا تھا۔
نریندر مودی کی آمد تو 2014میں ہوئی، اس سے قبل سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہوئی تھیں، بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
انٹرویو: ملک کے نامور ڈاکیومنٹری فلمسازآنند پٹوردھن نے 90 کی دہائی میں شروع ہوئی رام مندرتحریک کو اپنی ڈاکیومنٹری‘رام کے نام’میں درج کیا ہے۔ بابری انہدام معاملے میں خصوصی سی بی آئی عدالت کے فیصلے کے مدنظر ان سے بات چیت۔
بابری مسجد انہدام کے وقت مرکزی داخلہ سکریٹری رہے مادھو گوڈبولے نے کہا ہے کہ مسجد گرانے کی سازش کی گئی تھی اور اسی بنیاد پر انہوں نے اس وقت کی اتر پردیش سرکار کو برخاست کرنے کی سفارش کی تھی۔
بابری مسجد انہدام معاملے کی شروعات اس بارے میں درج دو ایف آئی آر 197 اور 198 سے ہوئی تھی۔ پہلی ایف آئی آر انہدام کے ٹھیک بعد ایودھیا تھانے میں لاکھوں نامعلوم کارسیوکوں کے خلاف درج ہوئی تھی اور دوسری جس میں بی جے پی، سنگھ اور باقی تنظیموں کے رہنما نامزد تھے۔
بابری مسجد انہدام کی جانچ کے لیے1992 میں جسٹس ایم ایس لبراہن کی قیادت میں لبراہن کمیشن کا قیام عمل میں آیاتھا، جس نے سال 2009 میں اپنی رپورٹ سونپی تھی۔ کمیشن نے کہا تھا کہ کارسیوکوں کا اجتماع اچانک یا رضاکارانہ نہیں تھا، بلکہ منصوبہ بند تھا۔
بابری مسجد انہدام معاملے میں بدھ کو فیصلہ سناتے ہوئے خصوصی سی بی آئی عدالت نے کہا کہ مسجد انہدام منصوبہ بند نہیں حادثاتی تھا،غیرسماجی عناصرگنبد پر چڑھے اور اس کوگرا دیا۔ عدالت کے فیصلے پر اس معاملے کےگواہوں میں سے ایک رہے سینئر صحافی شرت پردھان کا نظریہ۔
بابری مسجد انہدام معاملے میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے ذریعے تمام ملزمین کو بری کرنے کے بعد بی جے پی کےسینئررہنما مرلی منوہر جوشی نے کہا کہ اب یہ تنازعہ ختم ہونا چاہیے اور سارے ملک کو عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کے لیےتیاررہنا چاہیے۔اپوزیشن نے اس فیصلہ کوغیرمعقول بتایا ہے۔
خصوصی سی بی آئی عدالت نےاپنے فیصلے میں کہا کہ سی بی آئی کافی ثبوت نہیں دے سکی۔ بابری مسجد انہدام منصوبہ بند نہیں تھا اورغیر سماجی عناصرگنبد پر چڑھے تھے۔
ایک ملک اور ایک مجرم میں یہی فرق ہوتا ہے کہ ملک قانون کا پابند ہوتا ہے جبکہ مجرم اس کو توڑتا ہے۔ اگر ملک ایک بار بھی قانون توڑ دےتو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ بھی مجرم کےخانے میں آ گیا اور اس کو حکومت کرنے کا اخلاقی حق نہیں ہے۔
خصوصی سی بی آئی عدالت 6 دسمبر، 1992 کوایودھیا میں بابری مسجد انہدام معاملے میں 32 ملزمین کے بیان درج کر رہی ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی رہنما اورسابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، اتر پردیش کےسابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ اورسابق مرکزی وزیرمرلی منوہر جوشی کا بیان درج ہونا ابھی باقی ہے۔
یوں تو روزانہ سینکڑوں لوگوں کو ٹارچرکرنے کی بات کہی جاتی ہے لیکن غریب،پسماندہ اور اقلیت ان کے خاص نشانے پر ہوتے ہیں۔
یہ تشویش ناک رپورٹ ایسے وقت آئی ہے جب جنوبی ریاست تمل ناڈو میں پولیس کی طرف سے مبینہ تشدد کے نتیجے میں ایک شخص اور اس کے بیٹے کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔
گزشتہ 29 مئی کو دہلی ہائی کورٹ نے فساد کے ایک ملزم کو ضمانت دیتے ہوئے پولیس کی اس دلیل کو خارج کر دیا تھا کہ ضمانت دینے سے سماج میں غلط پیغام جائےگا۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ عدالت کا کام قانون کے مطابق انصاف کرناہے، نہ کہ سماج کو پیغام دینا۔
دہلی پولیس نے تشدد کے دوران ویٹر دلبر نیگی کےقتل کے معاملے میں درج چارج شیٹ میں الہند ہاسپٹل کے مالک ڈاکٹر ایم اے انورکو ملزم بنایا ہے۔ اس ہاسپٹل میں متاثرین کا علاج بھی کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر انور اور ارشد پردھان کو فاروقیہ مسجد میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ہوئے مظاہرے کا آرگنائزر بتایا گیا ہے۔
ویڈیو: شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کے دوران ہیڈ کانسٹبل رتن لال کےقتل معاملے میں پولیس نے کورٹ میں چارج شیٹ داخل کی ہے۔اس میں سماجی کارکن ہرش مندر کا بھی ذکر ہے۔کہا گیا ہے کہ شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران ہرش نے اشتعال انگیز بیانات دیے تھے۔اس موضوع پر دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور ہرش مندر کے ساتھ پروفیسر اپوروانند کی بات چیت۔
معاملہ جون پور ضلع کے سرائےخواجہ حلقہ کے بھدیٹھی گاؤں کا ہے۔ 9 جون کو آم توڑنے کو لےکر دوکمیونٹی کے بچوں میں تنازعہ ہوا، جس کے بعد ان کے بیچ پرتشدد جھڑپ ہوا۔ سو کے قریب لوگوں پر معاملہ درج ہوا ہے اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ملزمین پر این ایس اے اور گینگسٹر ایکٹ لگانے کی ہدایت دی ہے۔
ہتھنی کی موت مسلم اکثریتی ضلع مالا پورم کے ایک دریا میں ہوئی تھی، تو مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا موقع کیسے گنوایا جاتا۔پاکستان اور مسلمانوں کو نشانہ بناکر اپنی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانا حکمران بی جے پی اور اس کے حواریوں کے لیے ایک آزمودہ فارمولہ بن چکا ہے۔
معاملہ راجستھان کے چورو ضلع کا ہے۔مسلمان مریضوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو لے کراسٹاف کی مبینہ بات چیت لیک ہونے کے بعد شری چند برڈیا روگ ندان کیندر کے ڈائریکٹر سنیل چودھری نے فیس بک پر معافی مانگی ہے۔
مشرقی چمپارن ضلع کے مہسی تھانہ حلقہ کے ایک نوجوان محمد اجرائیل کا الزام ہے کہ دو جون کو پڑوس کے ایک گاؤں میں اپنے دوست سے ملنے جانے کے دوران ایک گروپ نے انہیں روک کر جئے شری رام کا نعرہ لگانے کو کہا۔ ایسا نہ کرنے پر گا لی گلوچ کرتے ہوئے بری طرح مارپیٹ کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ حملہ آور بجرنگ دل کے لوگ ہیں۔
بابری مسجد انہدام معاملے میں اپنا بیان درج کرانے کے لیے رام ولاس ویدانتی، سینئر بی جے پی رہنما ونئے کٹیار، سنتوش دوبے اور وجئے بہادر سنگھ جمعرات کو لکھنؤ کی اسپیشل سی بی آئی عدالت میں پیش ہوئے۔
ویڈیو: اتر پردیش کے شاملی ضلع میں پولیس کی بربریت کا ایک معاملہ سامنے آیا ہے۔ شاملی کے ٹپرنا گاؤں کے لوگوں کا الزام ہے کہ گزشتہ 26 مئی کو دیر رات پولیس نے لگ بھگ 35 مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر توڑپھوڑ کی۔ مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ مارپیٹ کی۔
ویڈیو: گزشتہ25 مئی کو امریکہ میں ایک پولیس افسرنے ایک سیاہ فام شخص کے گلے کو گھٹنوں سے کئی منٹ تک دبائے رکھا تھا، جس کہ وجہ سے اس کی موت ہو گئی تھی۔اس کے بعد سے نسلی تعصب کے خلاف امریکہ سمیت مختلف ممالک میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ اس مدعے پر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
افطار پارٹیوں کو قصہ پارینہ بنایا گیا۔گو کہ بی جے پی نے اپنے دفتر میں بس 1998میں ہی واحد افطار پارٹی کا انعقاد کیا تھا، مگر وزیر اعظم بننے کے بعد واجپائی اپنی رہائش گاہ پر ہر سال اس کا نظم کرتے تھے۔ 2014سے قبل ماہ مبار ک کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی و سماجی اداروں کی طرف سےافطار پارٹیوں کا ایک لامنتاہی سلسلہ شروع ہوتا تھا۔