بی ایچ یو کے کچھ طالب علم شعبہ سنسکرت میں ڈاکٹر فیروز خان کی تقرری کی مخالفت ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر خان کی تقرری کی شعبہ سنسکرت کے دلت پروفیسر نے حمایت کی تھی۔
فیک نیوز راؤنڈ اپ: کیا نابالغ مسلم ملزموں کی شناخت چھپانے کے لئے حیدرآباد پولیس نے ان کے نام بدل کر ہندو نام رکھ دیے تھے۔ انکاؤنٹر کے بعد میڈیا نے تمام ملزموں کی لاشوں کی جو تصویر عام کی، اس کی حقیقت کیا ہے۔ کیا مودی حکومت […]
یہ معاملہ گجرات کے وڈودرا کے وسنا علاقے کا ہے۔ ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ کاحوالہ دےکر علاقے کے لوگوں نے مسلم نوجوان کو مکان بیچنے کی مخالفت کی تھی۔ اس ایکٹ کے تحت پڑوسیوں کے اتفاق کے بغیر ہندو اکثریتی علاقے میں مسلمانوں اور مسلم اکثریتی علاقے میں ہندوؤں کو جائیداد بیچنے کی ممانعت ہے۔
ویڈیو: بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو)میں طلبا کا ایک گروپ سنسکرت پڑھانے کے لیے ایک مسلم ٹیچر کی تقرری کے خلاف مظاہرہ کر رہا ہے۔اس مدعے پر بی ایچ یو کے افلاطون اور دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر کوشل پوار سے بات کر رہی ہیں دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی۔
بی ایچ یو کے سنسکرت ودیالیہ دھرم وگیان سنستھان میں مسلمان پروفیسر کی تقرری کا معاملہ : مظاہرے کی قیادت کر رہے سنسکرت ودیالیہ دھرم وگیان سنستھان کے ایک اسٹوڈنٹ کرشن کمار کا کہنا ہے کہ ، ‘اگر کوئی شخص ہمارے جذبات یا ثقافت سے وابستہ نہیں ہے […]
ہندو مسلم اتحاد کے چیمپینس کی ایک لمبی فہرست ہے۔مگر میری نظر میں مولانا کا ان سے کوئی مقابلہ نہیں ۔ آزاد کا کمٹ منٹ بے مثال ہے۔ ہندو مسلم اتحاد کے ambassadors کی فہرست میں تو جناح اور اقبال کا نام بھی آتا ہے۔مگر یہ بات آپ جانتے ہیں ان لوگوں نے کتنی جلدی ہتھیار ڈال دیا تھا۔
مولانا کا مائند سیٹ صرف ایک مسلم کا نہیں تھا ،ایک انسان کا تھا۔ہندوستان کا تھا،ایک ہندوستانی کا تھا۔
بی ایچ یوکے سنسکرت ودیا دھرم وگیان فیکلٹی کے شعبہ ادب میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر فیروز خان کی تقرری کی کچھ طلبا مخالفت کر رہے ہیں۔طلبا کا کہنا ہے کہ جین، بودھ اور آریہ سماج سے جڑے لوگوں کو چھوڑکر کسی بھی غیر ہندو کی اس شعبہ میں تقرری نہیں کیا جا سکتی۔
ویڈیو: کانگریسی رہنما ششی تھرورکی کتاب ’دی ہندو وے‘حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ ششی تھرور سے اس کتاب کے بارے میں، بی جے پی کی ہندوتوا کی سیاست اور کانگریس پارٹی کے سیاسی مستقبل پر دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی نے تفصیل سے بات کی۔
وشو ہندو پریشد کے جنرل سکریٹری پراندے نے کہا کہ ملک میں ہندوؤں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے شہریت بل میں ترمیم کی ضرورت ہے۔
وشو ہندو پریشد کے پاس تین ہزار مسجدوں کی فہرست ہے جو اس کے خیال میں مندروں کو توڑ کر بنائی گئی ہیں۔ بابری مسجد کے بعد وہ ان مسجدوں کے معاملے کو اٹھا کر عوامی جذبات بھڑکا نے کی خواہش میں ہے۔
رانچی کی ایک طالبہ ریچا بھارتی کو سوشل میڈیا پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی پوسٹ کرنے کے الزام میں گزشتہ 12 جولائی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ مقامی عدالت نے ان کو پانچ قرآن تقسیم کرنے کی شرط پر ضمانت دی تھی۔ بعد میں عدالت نے قرآن تقسیم کرنے کا حکم واپس لے لیا تھا۔
درگا اب راشٹر واد کی غلام بنا لی گئی ہیں۔ پھر ان سے وہی کام لیا جا رہاہے، جو کبھی ڈرپوک-فریبی دیوتاؤں نے ان کی آڑ میں مہیشاسر پر وار کرکے لیا تھا۔اب درگا کی آڑ میں حملہ مسلمانوں پر کیا جا رہا ہے اور ہم، جو خود کو درگا کا بھکت کہتے ہیں، یہ ہونے دے رہے ہیں۔
نصرت جہاں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ،’یہ نیا نہیں ہے ۔وہ ہندو دیوی -دیوتاؤں کی عبادت کر رہی تھیں،جبکہ اسلام میں مسلمانوں کو صرف ‘اللہ’ کی عبادت کرنے کا حکم ہے۔انہوں نے جو کیا وہ حرام ہے۔ ‘
درگا پوجا پنڈال میں مبینہ طور پراذان کی ریکارڈنگ بجائی گئی تھی ۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ یہاں مذہبی ہم آہنگی کو بڑھاوا دینے کے لیے پنڈال میں مندر، مسجد اور چرچ تینوں کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
بی جے پی کے سینئر رہنما کلیان سنگھ حال ہی میں راجستھان کے گورنر کے عہدے سے ہٹے ہیں۔ سی بی آئی نے کہا کہ چونکہ اب کلیان سنگھ گورنر کے عہدے سے ہٹ چکے ہیں اس لئے بابری مسجد انہدام معاملے میں ان کے خلاف کارروائی شروع کی جانی چاہیے۔
بی جے پی کے اچھے مسلمانوں کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ مسلمانیت بنیادی طور پر ہندوستان کی قومی شناخت کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ کیونکہ اسلام بیرون ہند سے آیاہے اور مسلمانوں نے ابھی تک ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو پوری طرح نہیں اپنا یا ہے لہٰذا اسلام میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کا بھارتی کرن ٹھیک طرح سے ہونا چاہئے۔
اس معاملے میں بی جے پی کے سینئر رہنماؤں میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت 12 لوگ ملزم ہیں۔
لبرل دانشور جماعت کے لئے ہندوستان بھلےہی اب تک ہندو راشٹر نہ بنا ہو، لیکن گلیوں میں گھومنے والے ہندتووادیوں کے لئے یہ ایک ہندو راشٹر ہے۔ اس کی علامت بھلے چھپی ہوئی ہوں، لیکن اس کے حمایتی اور متاثرین، دونوں ہی بہت واضح طور پر اس کا تجربہ کر سکتے ہیں۔
اس معاملے میں بی جے پی کے سینئر رہنماؤں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت 12 لوگ ملزم ہیں۔
رانچی کی ایک 19 سالہ طالبہ ریچا بھارتی کو سوشل میڈیا پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی پوسٹ کرنے کے الزام میں 12 جولائی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ مقامی عدالت نے ان کو 5 قرآن عطیہ کرنے کی شرط پر ضمانت دی ہے۔ طالبہ کا کہنا ہے کہ وہ ایسا نہیں کرنا چاہتیں۔
مہاراشٹر انتظامیہ کو سونپے گئے ایک خط میں، ماب لنچنگ سے متاثر ہونے والے ہر شخص کی فیملی کو 50 لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کی بھی مانگ کی گئی ہے۔
ہالی ووڈ ایکٹر نے کہا کہ، آج انتخاب جیتنے کا سب سے آسان طریقہ اسلامو فوبیا ہے۔
یہ واقعہ کانپور کے برہ علاقے کا ہے۔ مسلم نوجوان کا الزام ہے کہ 28 جون کو مسجد سے نماز پڑھکر لوٹنے کے دوران تین سے چار بائیک سوار نے اس کے ٹوپی پہننے کی مخالفت کرتے ہوئے مارپیٹ کی۔ اس کے ساتھ ہی دوبارہ ٹوپی پہنکر علاقے میں نہ آنے کی بھی دھمکی دی گئی۔
ویڈیو:سابق مرکزی وزیر عارف محمد خان سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
یہ دیکھنا اور سمجھنا دلچسپ ہے کہ سیکولرزم کے حوالے سے رائٹ ونگ کی دلیل کیا ہے۔ یقین کیجئے، سیکولرزم کے بارے میں ان کی جو دلیل ہے، وہ نہ صرف بہت کنونسنگ ہے بلکہ بہت مضبوط بھی ہے۔ ایک لمحے کے لئے آپ بھی سر نگوں ہو جائیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی یہ دلیل سراب کی سی ہے۔
فیک نیوز راؤنڈ اپ: کیا بھیم آرمی کے سربراہ چندرشیکھر راون کا اصل نام نسیم الدین خان ہے؟ کیا مغربی بنگال میں بی جے پی نے خوداپنے کارکن قتل کروایا تھا؟
اتر پردیش کے آگرہ واقع اچھنیرا بلاک کے گاؤں چاہ پوکھر میں قبرستان نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان اپنے لوگوں کو گھروں میں ہی دفن کرنے کو مجبو رہیں۔
مہاراشٹر کے اکولا کی ایک خصوصی عدالت نے تین لوگوں کو دہشت گردی کے الزامات سے بری کرتے ہوئے کہا کہ صرف ‘جہاد ‘ لفظ کا استعمال کرنے پر کسی کو دہشت گرد نہیں کہا جا سکتا۔
جموں و کشمیر کا اپنا آئین ہے اور مرکزی حکومت جموں و کشمیر کے آئین میں ترمیم کے بغیر ریاست میں حدبندی نہیں کر سکتی اوریہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ کشمیر کی کسی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہ ہو۔وہیں لوگوں کا ماننا ہے کہ ، بی جے پی اسمبلی انتخابات سے قبل اس خطے میں اسمبلی حلقوں میں اضافہ کرکے اقتدار میں آنا چاہتی ہے ۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عارف محمد خان سیکولرزم کے اپنے دقیانوسی تصور کو گلے لگائے اب بھی 1986 میں جی رہے ہیں۔ ان کا سیکولرزم انہیں شاہ بانو کے مقدمے سے آگے سوچنے ہی نہیں دیتا۔ موجودہ حالات میں مسلمان جن مسائل سے دوچار ہیں ان پر غور کرنے کیلئے بھی عارف محمد خان صاحب شاہ بانو مقد مے کوبنیادی حوالہ بنائے ہوئے ہیں۔
اورنگ آباد جسے کبھی ورلڈ بینک نے ایشیا کا سب سے تیز رفتاری سے بڑھتا ہوا کاروباری ضلع قرار دیا تھا آج بہت ہی خوفناک طریقے سے پانی کی قلت کا سامنا کر رہا ہے۔
ہمارے لبرل صحافی اور روشن خیال دانشوران فاشزم اورکمیونلزم کے خلاف اپنی لڑائی کو مسلمانوں کے کندھوں پر رکھ کر کیوں لڑنا چا ہتے ہیں؟ ڈر کو مسلمانوں کے ساتھ کیوں چپکا دینا چاہتے ہے؟ جہاں تک مسلمانوں کے ڈر جانے کا سوال ہے تو یہ محض ایک فیک نیوز ہے۔ متھ ہے۔ اور کچھ نہیں۔ مسلمان فکر مند ضرور ہیں، خوف زدہ با لکل نہیں۔تقسیم کے بعد جن مسلمانوں نے پاکستان کو ٹھکرا دیا کم از کم ان کے بارے میں تو ایسا ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔
یہ فلم ہمارے لیے باعث تشویش کیوں ہے؟ دراصل فلم کیسری اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرتی ہے، ایک تاریخی واقعے کے گرد جھوٹی کہانی بنتی ہے جس میں مسلمان دشمن اور ولن ہے اور اسلام کٹہرے میں کھڑا ہے ۔
امریکہ نے یہ کہتے ہوئےہندوستان پر دباؤ بنایا ہے کہ اس نے پلواما حملے کے بعد جیش محمد کے سرغنہ مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کے ذریعہ دہشت گرد قرار دئے جانے میں ہندوستان کا ساتھ دیا تھا لہٰذا اب وہ ایران کے معاملے میں اس کا ساتھ دے۔اس بحث سے قطع نظر کہ یہ دلیل کتنی صحیح یا غلط ہے، ہندوستان کے لئے امریکی مانگ کو خارج کرنا آسان نہیں۔
کسی بھی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں بھولے سے بھی مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا۔کانگریس نے تو انتخابی منشور کی رسم اجراء کی تقریب میں غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل جیسے قدآور لیڈروں کو بھی دوررکھا۔ بہار کی راشٹریہ جنتا دل ،جس کی پوری سیاست مسلمانوں اوریادو پر منحصر ہے اس نے بھی اپنے منشور میں ایک جگہ بھی مسلم لفظ نہیں لکھا۔
2019 میں بی جے پی کی مہم خصوصی طور پر ہندو اکثریت کے لیے ہے۔ پارٹی ان کے خوف اور عدم تحفظ کے احساسات کو بنیاد بنا کر ووٹ مانگ رہی ہے۔ اسی لیے امت شاہ مسلمانوں کو ‘دیمک’ بتا چکے ہیں، آدتیہ ناتھ بجرنگ بلی کو علی کے بالمقابل کھڑا کر چکے ہیں اور مودی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مغربی بنگال میں ہندو ‘جئے شری رام‘ کا نعرہ بھی بلند نہیں کر سکتے۔
ہندوستان میں انتخابات کی گہما گہمی کے بیچ اقوام متحدہ کا یہ فیصلہ یقیناً وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک اہم کامیابی ہے۔
بی جے پی ایم ایل اے نے اپنے بیان پر وضاحت دی ہے کہ ، میری مسلم کمیونٹی کو گائے کہنے کی کوئی منشا نہیں تھی ۔ میں نے کہا تھا کہ ان سے ووٹ مانگنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
آج ہندوستانی سیاست ایک ایسے دور میں ہے جب کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلم کمیونٹی کی بات نہیں کرنا چاہتی۔ وہ سیاسی طور پر اچھوت بنا دئے گئے ہیں۔ اب ان کا استعمال اکثریتی آبادی کو ووٹ بینک میں تبدیل کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔