کشمیر میں لگی پابندی پر عرضی داخل کرنے والوں کی جانب سے پیش ایک وکیل نے جب کہا کہ ہردن ہو رہے احتجاجی مظاہروں کے باوجود ہانگ کانگ ہائی کورٹ نے مظاہرین پر سے سرکاری پابندی ہٹا لینے کی مثال دی ۔ اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کو بنائے رکھنے میں ہندوستان کا سپریم کورٹ کہیں زیادہ بہترہے۔
پارلیامنٹ سیشن میں فاروق عبداللہ کو حصہ لینے کی اجازت دینے کے اپوزیشن کے مطالبہ پر مرکزی وزیر داخلہ جی کشن ریڈی نے کہا کہ کانگریس نے ایمرجنسی کے دوران 30 رکن پارلیامان کو حراست میں رکھا تھا۔ اس پر نیشنل کانفرنس نے کہا کہ ریڈی کا تبصرہ اس بات کی دلیل ہےکہ جموں و کشمیر ایمرجنسی کے برے دور سے گزر رہا ہے۔
وزارت داخلہ نے لوک سبھا میں کہا کہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد پتھربازی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ حالانکہ، اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جنوری سے 4 اگست تک اوسطاً ہر مہینے پتھربازی کے 50 واقعات ہوئے۔وہیں 5 اگست کے بعد ایسے معاملے اوسطاً ہر مہینے بڑھکر 55 ہو گئے۔
آخر کون امن نہیں چاہتا؟ اس کی سب سے زیادہ ضرورت تو کشمیریوں کو ہی ہے۔ اشرف جہانگیر قاضی صاحب سے بس یہی گزارش ہے کہ امن، قدر و منزلت، انصاف و وقار کا دوسرا نام ہے، ورنہ امن تو قبرستان میں بھی ہوتا ہے۔ جن تجاویز پر آپ امن کے خواہاں ہیں، وہ صرف قبرستان والا امن ہی فراہم کر سکتے ہیں۔
مرکزی حکومت نے این اے ایف ای ڈی کے ذریعےکشمیر گھاٹی سے صرف 7940 میٹرک ٹن سیب خریدے ہیں۔ کسان تنظیموں اور سیب کسانوں میں اس کو لے کر کافی ناراضگی ہے۔
ہندو مہا سبھا کے رہنما کے ذریعے درج کرائی گئی شکایت کی بنیاد پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر اور ان کے شوہر کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
مرکزی وزیر نے کہا، ‘ہمارے پاس ایک نیا نظام ہے اوریہ نظام سیدھے مرکز کو رپورٹ کرتا ہے اور ہم اسے اس حلقے کے لوگوں کے ساتھ تعاون کرنے اور کامیاب بنانے کے لئے اس کا سہرا دیتے ہیں۔’
جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹنے کے 100 دن مکمل ہوگئے ہیں ۔ اس مدعے پر دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ
رام چندر گہا کا کالم: مکیش امبانی کشمیر میں سرمایہ کاری سے متعلق بالکل خاموش ہیں؛ جبکہ سرکار نے سرمایہ کاری میلے کو غیر معینہ مدت کے لیے آگے بڑھا دیا ہے۔ وعدے تو مزید نوکری، مزید فیکٹریز کے کیے گئے تھے، مگر 5اگست کے بعد سے کشمیریوں نے پایا کیا ہے؛ مزید افواج، مزید پابندیاں۔ اس نے ان میں گہرا غصہ پیدا کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ کی آئینی بنچ 14 نومبر سے اس معاملے کی شنوائی کرے گی۔ مرکز کو پانچ اگست کے صدر جمہوریہ کے حکم کے خلاف دائر عرضیوں پر اپنا جوابی حلف نامہ دائر کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
کشمیر میں یورپی رکن پارلیامان کے دورے کو مبینہ طور پر فنڈ دینےوالا انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار نان-الائنڈ اسٹڈیز، شریواستو گروپ کا حصہ ہے۔ اس کی ویب سائٹ پر اس کے کئی کاروبار ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ حالانکہ دستاویز ایساکوئی بزنس نہیں دکھاتے، جس سے وہ یورپی رکن پارلیامان کو ہندوستان بلانے اور وزیراعظم سے ملاقات کروانے میں اہل ہوں۔
جموں و کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ ہٹانے کے 89 ویں دن بھی بند جاری۔نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر کو یونین ٹریٹری بنانے کے مرکزی حکومت کے قدم کو غیر آئینی قرار دیا۔ وادی میں کچھ لوگوں نے حکومت پر ان کا خصوصی درجہ اور پہچان چھیننے کا الزام لگایا۔
مرکزی حکومت کے ذریعے آرٹیکل 370 کے زیادہ تراہتماموں کو ختم کرنے کے بعد جموں و کشمیر کی صورتحال جاننے کے لئے سرینگر پہنچےیورپی وفدمیں شامل جرمنی کے رکن پارلیامان نکولس فیسٹ نے یہ بات کہی ہے۔
ہندوستان کو ایک انٹرنیشنل بزنس بروکر کے ذریعے غیر ملکی رکن پارلیامان کے کشمیر آنے کی تمہید تیار کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ جو رکن پارلیامان بلائے گئےہیں وہ شدید طور پر رائٹ ونگ جماعتوں کے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایسی پارٹی سے نہیں ہے جن کی حکومت ہو یا نمایاں آواز رکھتے ہوں۔ تو ہندوستان نے کشمیر پر ایک کمزور وفد کوکیوں چنا؟ کیا اہم جماعتوں سے من مطابق ساتھ نہیں ملا؟
جموں و کشمیر کے دو روزہ دورے پر آئے یورپی یونین کے رکن پارلیامان نے کہاکہ ہمیں فاشسٹ کہہ کر ہماری امیج کو خراب کیا جا رہا ہے۔
برٹن کی لبرل ڈیموکریٹس پارٹی کے رکن پارلیامان کرس ڈیوس کا کہنا ہے کہ کشمیر دورہ کے لئے ان کو دی گئی دعوت کو حکومت ہند نے واپس لے لیا کیونکہ انہوں نےسکیورٹی کی غیر موجودگی میں مقامی لوگوں سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
خصوصی تحریر: وزیر داخلہ امت شاہ نے اگست میں کی گئی ایک تقریر میں کہا تھا کہ اگر نہرونہ ہوتے، تو پاک مقبوضہ کشمیر ہندوستان کے قبضے میں ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر آج کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے تو یہ صرف نہرو کی وجہ سے ہی ہے۔
سرینگر اور ریاست کے کئی حصے پوری طرح سے بند رہے۔ پانچ اگست کو مرکزی حکومت کے ذریعے جموں و کشمیر کےخصوصی ریاست کا درجہ ختم کرنے کے 86ویں دن بھی کشمیرمیں معمولات زندگی درہم برہم رہی۔
یورپی یونین کے 27 رکن پارلیامان کا وفد منگل کو جموں وکشمیر کا دورہ کررہا ہے۔ یہ وفد آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ہٹائے جانے کے بعد وہاں کی صورتحال کا جائزہ لے گا۔ آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد جموں و کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے گئی کانگریس سمیت کئی پارٹیوں کے رہنماؤں کو واپس بھیج دیا گیا تھا۔
کشمیر چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عاشق نے بتایا کہ ریاست میں لگی پابندیوں کی وجہ سے کل نقصان کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ حالات ابھی تک معمول پر نہیں آپائے ہیں۔ کاروباری کمیونٹی کو سنگین جھٹکا لگا ہے اور ان کا اس سے باہر نکل پانا مشکل لگتا ہے۔
مودی حکومت جمہوریت کی جن علامتوں کو سنجونے کا دعویٰ کرتی ہے، وہ ان کوختم کر چکی ہے۔
سپریم کورٹ جموں و کشمیر میں نابالغوں کو حراست میں لینے، ذرائع ابلاغ پر پابندی لگانے جیسے کئی معاملوں پر دائر عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے۔
جموں و کشمیر انتظامیہ کی طرف سے سپریم کورٹ سے کہا گیا کہ قومی مفاد میں لئے گئے انتظامی فیصلوں کی اپیل پر کوئی نہیں بیٹھ سکتا۔ صرف عدالت ہی اس کو دیکھ سکتی ہے اور درخواست گزار اس کو نہیں دیکھ سکتے۔
ڈل جھیل کے ایک گھاٹ پر دھوپ سیکنے اور کشمیر کی موجودہ صورتحال پر بحث و تمحیص میں مصروف شکارا والوں کے ایک گروپ نے بتایا کہ سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بند ہوجانے سے وہ روزی روٹی سے محروم ہوچکے ہیں۔
ریٹائر ہونے کے فوراً بعد فاروق خان کو شاید اندازہ تھا کہ کسی نہ کسی وقت وہ مکافات عمل کا شکار ہو جائےگا، تو ڈیفنس میکانز م کے طور پر اس نے بی جے پی جوائن کرکے دفعہ 370 کے خلاف عرضی دائر کی اور وزیر اعظم نریندر مودی اور امت شاہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ سکھ برادری قومی اور عالمی اداروں کو جھنجھوڑ کر ان واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیق و تفتیش کا مطالبہ کرکے ملزمین کو سزا دلوانے میں رول ادا کرے۔
نئی دہلی میں انڈین پولیس سروس 2018 بیچ کے پروبیشنروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے یہ بھی کہا کہ جموں و کشمیر ہمیشہ کے لئے ایک یونین ٹریٹری نہیں رہےگا اور حالات معمول پر آنے کے بعد اس کا ریاست کا درجہ بحال کر دیا جائےگا۔
مودی حکومت کشمیریوں کے خلاف ان سخت قوانین کا استعمال کر رہی ہے جو وہ عام ہندوستانی شہریوں پر نافذ کرنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتی۔ سدھارتھ وردراجن بتا رہے ہیں کہ کیسے مودی حکومت کشمیر کے معاملے میں دستور ہند کی روح کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔
ویڈیو: جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 پر سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
ہندوستانی آئین میں واضح طور پر ہندوستان کو ریاستوں کا یونین کہا گیا ہے یعنی ایک یونین کے طور پر سامنے آنے سے پہلے بھی یہ ریاست وجود میں تھے۔ ان میں سے ایک جموں و کشمیر کا یہ درجہ ختم کرتے ہوئے مودی حکومت نے یونین کے نظریہ کو ہی چیلنج دیاہے۔
اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے آرٹیکل 370 کا فائدہ بتانے کے لیے جموں و کشمیر کے تقریباً 70 کےطلبا و طالبات سے ملاقات کی۔ اس دوران میڈیا کوریج پر مکمل پابندی عائد تھی۔ یہ پروگرام ایک ٹی وی چینل پر ٹیلی کاسٹ کیا گیا ، لیکن کشمیری طلبا و طالبات کے سوال جواب کا سلسلہ شروع ہونے کے ساتھ نشریات روک دی گئی۔
ویڈیو: سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا نے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی سے بات چیت میں این آر سی ، آرٹیکل 370، کارپوریٹ ٹیکس اور اقتصادی بحران جیسے کئی مدعوں پر اپنی رائے دی ۔
این ایس اے کے دعوے کے مطابق اگر آرٹیکل 370 پر کشمیر کے لوگ پوری طرح سے حکومت کے ساتھ ہیں، تو ان کے رہنماؤں کے بڑے جلسے کو خطاب کرنے کے امکان سے حکومت کو ڈر کیوں لگ رہا ہے؟
انتظامیہ کی طرف سے تقریباً 3000 لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے ان میں جمو ں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی ،فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ بھی شامل ہیں۔ حالانکہ ان میں سے دو تہائی لوگوں کو رہا کر دیا گیا ہے لیکن ابھی بھی تقریباً 1000 لوگ حراست میں ہیں۔
کشمیر کے سی پی آئی ایم رہنما اور سابق ایم ایل اے محمد یوسف تاریگامی پہلے ایسے کشمیری رہنما ہیں جو حراست میں رکھے جانے کے بعد دہلی آ سکے ہیں ۔ نئی دہلی واقع پارٹی صدر دفتر پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سچائی یہ ہے کہ پابندیوں کی وجہ سے کشمیری آہستہ آہستہ مر رہے ہیں، گھٹن ہو رہی ہے وہاں۔
یہ واقعی شرم کی بات ہے کہ ہندوستان کے مسلم لیڈران نے جموں وکشمیر میں ہورہی زیادتیوں کے متعلق اپنے منہ ایسے بند کئے ہیں جیسے ان کی چابیاں ہندو انتہا پسندوں کے پاس ہوں۔ جمیعۃ کے لیڈران آئین کی اس شق کی ترمیم و تحلیل کی حمایت کرتے ہیں تو پھر یونیفار م سول کوڈ اور تین طلاق قانون کے اطلاق پر کیوں شور مچا رہے ہیں؟
جموں وکشمیر میں لگی پابندیوں کی وجہ سے والدین بچوں کی حفاظت کو لے کر پریشان ہیں اور انہیں اسکول نہیں بھیج رہے ہیں۔
جموں کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آئین کے آرٹیکل370 کےاکثر اہتمام کو ختم کئے جانے کے 40ویں دن بعد بھی کشمیر میں زندگی متاثر ہے۔
حکام نے بتایا کہ تجارتی مرکز لال چوک اور گرد ونواح کی تمام انٹری کو خاردار تاروں سے بند کر دیا گیا ہے اور بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں ۔
قابل ذکر ہے کہ محرم کے جلوس کو روکنے کے لیے سرینگر سمیت کشمیر کے کئی حصوں میں اتوار کو کرفیو جیسی پابندیا ں لگائی گئیں ۔
ویڈیو: مرکزی حکومت کے ذریعے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے ہوئے ایک مہینے ہو گئے۔ایک مہینے بعد کشمیر کے حالات کے بارے میں بتا رہی ہیں دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی ۔