ستمبر-نومبر 2022 میں ہوئی اگنی ویر بھرتی کے دوران منتخب امیدواروں کے مارکس ناکام امیدواروں سے کم تھے۔ لیکن مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے آرڈر کے چار ماہ گزرنے کے بعد بھی فوج نے درخواست گزاروں کے سامنے تمام امیدواروں کےمارکس ظاہر نہیں کیے ہیں۔
فوج میں جوانوں کی قلیل مدتی بھرتی کے لیے لائی گئی ‘اگنی پتھ’ اسکیم، دہلی کی سرحدوں پر اپنے مطالبات پر ڈٹے کسان اور راجدھانی میں ہی پولیس کے ذریعے گھسیٹے گئے پہلوانوں کے معاملے ہریانہ کے موجودہ اسمبلی انتخابات پر شدید طور پر اثر انداز ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
ہریانہ کے بھیوانی ضلع کا باپوڑا گاؤں سابق آرمی چیف اور بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ جنرل وی کے سنگھ کا گاؤں ہے۔ گاؤں کے ہر دوسرے گھر میں آپ کو فوجی مل جائیں گے، لیکن ‘اگنی پتھ’ اسکیم کے آنے کے بعد یہاں کے نوجوان فوج میں جانے کا خواب چھوڑ کر مستقبل کی تلاش میں کہیں اور بھٹک رہے ہیں۔
آر ایس ایس سے منسلک رسالے’آرگنائزر‘ کے مدیر پرفل کیتکر نے حال ہی میں کہا کہ اگنی پتھ اسکیم کو اس مقصد سے شروع کیا گیا ہے کہ شہریوں کو فوج کے لیے تیار کیا جا سکے۔
ستمبر-نومبر 2022 میں جبل پور میں ہوئے اگنی پتھ کے امتحان میں امیدواروں نے دھاندلی کا الزام لگایا ہے۔ حال ہی میں، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے فوج کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس بھرتی کے دوران منتخب ہونے والے تمام امیدواروں کے نمبر فراہم کرے۔
بتایا گیا ہے کہ 2 جولائی کو بلیا کے رہنے والے ‘اگنی ویر’ نے آگرہ ایئر فورس اسٹیشن میں مبینہ طور پر خودکشی کر لی۔ اسی ہفتے اپوزیشن پارٹی نے اگنی پتھ اسکیم پر سوال کھڑے کرتے ہوئے بھرتی رنگروٹوں کے بیچ بڑھتے ہوئے خودکشی کے واقعات کے معاملے کو اٹھایا تھا۔
بحریہ کے سابق سربراہ ارون پرکاش نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کےتوسط سے پوچھا ہے کہ کیا کوئی جنگی یونٹوں میں اگنی ویروں کی تعیناتی کے حوالے سے بھی فکر مند ہے، جو بہت کم تربیت یافتہ جوانوں کو سروس میں رکھنےکے لیے مجبور ہیں؟
گورکھپور کے جس سہسراؤں گراؤنڈ میں پسینہ بہانے کے بعد 3800 لڑکے اور 28 لڑکیوں کا انتخاب گزشتہ ڈھائی دہائیوں میں فوج اور نیم فوجی دستوں میں کیا گیا، وہاں آج ویرانہ آباد ہے۔ اگنی پتھ اسکیم کی وجہ سے نوجوانوں میں فوج کے لیے جوش و جذبہ ختم ہو گیا ہے۔
اگنی پتھ اسکیم پر دی وائر کی جاری سیریز کے درمیان یہ بات سامنے آئی ہے کہ فوج ایک اندرونی سروے کر رہی ہے، جس کا مقصد فوج کی بھرتی کے عمل پر اس اسکیم کے اثرات کا جائزہ لینا ہے۔ فوج کے اس سروے میں تمام اسٹیک ہولڈروں سے ان کی رائے طلب کی گئی ہے۔
دیگر رپورٹس بھی بتاتی ہیں کہ اگنی پتھ اسکیم کے تحت منتخب ہونے والے بہت سے نوجوانوں نے ٹریننگ کے درمیان ہی نوکری چھوڑ دی تھی۔ یہ نوجوان فوج کی نوکری میں جانا تو چاہتے ہیں، لیکن اگنی پتھ نے ان کے جذبے پر پانی پھیر دیا ہے۔
اتراکھنڈ کے کئی گاؤں فوجیوں کے گاؤں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ریاست کی معیشت اور سماجی نظام کا ایک بڑا حصہ فوج سے وابستہ ہے۔ اگنی پتھ اسکیم کے آنے کے بعد یہ نظام بحران کا شکار ہے۔
سابق فوجیوں کا کہنا ہے کہ جب آپ لڑکوں کو چار سال کے معاہدے پر بھرتی کریں گےتو ممکن ہے کہ کہیں کم اورکمتر لڑکے فوج میں جائیں گے، جن کے اندر جنون کم ہوگا، اور ملک کے لیے جذبہ ایثار و قربانی بھی نہیں ہوگا۔ کیا فوج کو اس سطح اور معیار کے جوان مل پائیں گے جو انہیں مطلوب ہیں؟
اس اسکیم سے ان گاؤں دیہات اور نوجوانوں کی زندگیوں پر کیا اثر پڑا ہے؟ کیا اب یہ فوجیوں کے گاؤں نہیں کہلائیں گے؟ زندگی کا واحد خواب چکنا چور ہونے کے بعد یہ نوجوان اب کیا کر رہے ہیں؟ کیا فوج کو اس اسکیم کی ضرورت ہے؟ کیا یہ فوج کی جدید کاری کے لیے ضروری قدم ہے؟ ان سوالوں کی چھان بین کے لیے دی وائر نے ملک کے کئی ایسے علاقوں کا دورہ کیا۔ اس سلسلے میں پہلی قسط ہریانہ سے۔
ویڈیو: اگنی پتھ اسکیم کے سلسلے میں نوجوانوں کے احتجاج کے بیچ مرکزی وزیر جی کشن ریڈی نے کہا تھا کہ اگنی پتھ کے رنگ روٹوں کو ‘ڈرائیور، الیکٹریشن، دھوبی اور نائی کی مہارت’ کے ساتھ تربیت دی جائے گی۔ وہیں، بی جے پی کے جنرل سکریٹری کیلاش وجے ورگیہ نے کہا تھا کہ اگر انہیں پارٹی دفتر میں سیکورٹی رکھنی ہے تو وہ کسی سابق ‘اگنی ویر’ کو ترجیح دیں گے۔
ویڈیو: اگنی پتھ سے لے کر سی اے اے، زرعی قانون اور نوٹ بندی کی وجہ سے ملک میں احتجاجی مظاہروں کے سلسلے میں مودی کی حکومت کے بارے میں دی وائر کے بانی ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کی بات چیت۔
ویڈیو: وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 14 جون 2022 کو تینوں فوج کے سربراہوں کی موجودگی میں اگنی پتھ اسکیم کا اعلان کیا تھا۔ اسکیم کے آنے کے بعد سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرہ جاری ہے، آخر کیوں حکومت کے اس اسکیم کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ دی وائر کی یہ رپورٹ دیکھیے۔
نوکریوں کے سلسلے میں نوجوانوں کا کوئی بھی مظاہرہ صرف ان کی اپنی نوکریوں کے لیے ہے۔ اس لیے نوکری اور نوجوانوں کا مبینہ غصہ سیاسی ایشو ہوتے ہوئے بھی ووٹ کا ایشو نہیں۔ جس لڑائی کو آپ لڑنے چلے ہیں، اس کو آپ بہت پہلے روند چکے ہیں۔ آپ نےدوسروں کی ایسی بہت سی لڑائیاں ختم کی، میدان تک ختم کر دیے۔ اب جب کہ میدان دلدل میں بدل گیا ہے، تب اس میں لڑائی کے لیے اتر ے ہیں۔ آپ پھنستے چلے جائیں گے۔