یہ خیال کرنا غلط ہوگا کہ انتخابی مہم کے دوران تشدد کے واقعات کم ہوگئے تھے۔ دراصل زبانی طور پر اور اشتعال انگیز تقریروں کے ذریعے تشدد کے واقعات رونما ہوئے، جنہیں وزیر اعظم اور بی جے پی کے دوسرے بڑے لیڈران انجام دے رہے تھے۔
الزام ہے کہ بنگال کے مالدہ کے رہنے والے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تین طالبعلم جب اپنے جاننے والوں کو ریلوے اسٹیشن پر چھوڑ کر جا رہے تھے تو ریلوے پولیس نے انہیں روک کر پوچھ گچھ کی۔ طلباء کے پاس پلیٹ فارم ٹکٹ نہیں تھے، جس پر پولیس والوں نے انہیں یہ کہتے ہوئے ان کے ساتھ مارپیٹ شروع کر دی کہ یہاں ‘بابا’ کا راج چلتاہے، ‘ممتا دیدی’ کا نہیں کہ تم جو چاہے وہ کرو۔
اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کی قومی جنرل سکریٹری پوجا شکن پانڈے نے صدر رام ناتھ کووند کو مبینہ طور پر خون سے خط لکھ کر جمعہ کی نماز پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جمعہ کی نماز ملک میں امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں علی گڑھ کے ورشنی ڈگری کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ایس آر خالد کالج کیمپس کے باغیچے میں نماز ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کالج ترجمان نے بتایاکہ بی جے وائی ایم کی جانب سے پروفیسر کے خلاف نظم و ضبط اور امن وامان کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کرنے کے بعد اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔
اتر پردیش میں سی اے اے کے خلاف دسمبر2019 میں ہوئے احتجاجی مظاہروں کے دوران پولیس نے کئی اضلاع میں مظاہرین پر فائرنگ کی تھی،جس میں 22 مسلمان ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ سول سوسائٹی کی متعدد شکایتوں پرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے اب اپنی جانچ شروع کی ہے۔
ویڈیو: 2017میں گورکھپور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں پیش آئے آکسیجن سانحہ پر ڈاکٹر کفیل خان کی کتاب ‘دی گورکھپور ہاسپٹل ٹریجڈی:اے ڈاکٹرز میموئیر آف اے ڈیڈلی میڈیکل کرائسس’نے اس سانحہ کو ایک بار پھر سے سرخیوں میں لا دیا ہے۔ ڈاکٹر کفیل سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
ویڈیو: وزیر اعظم نریندر مودی نےمنگل کے روز علی گڑھ میں راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ کے نام پر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا۔ اتر پردیش سرکار نےستمبر 2019 میں علی گڑھ میں راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ کے نام پر ایک ریاستی سطح کی یونیورسٹی کھولنے کااعلان کیا تھا۔ اس بارے میں چرچہ کر رہی ہیں دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر کفیل خان کےخلاف درج چارج شیٹ اور کاگنیجنس آرڈر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیےحکومت کی اجازت نہیں لی گئی تھی۔ 29 جنوری 2020 کو یوپی-ایس ٹی ایف نے شہریت قانون کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دسمبر 2019 میں مبینہ طور پر ہیٹ اسپیچ کے معاملے میں کفیل خان کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا۔ وہاں وہ سی اے اےمخالف ریلی میں حصہ لینے گئے تھے۔
ڈاکٹرکفیل خان 2017 میں اس وقت سرخیوں میں آئے تھے، جب گورکھپور کے بی آرڈی میڈیکل کالج میں ایک ہفتے کے اندر60 سے زیادہ بچوں کی موت مبینہ طورپر آکسیجن کی کمی سے ہو گئی تھی۔اس واقعہ کے بعد انسیفلائٹس وارڈ میں تعینات ڈاکٹر خان کو سسپنڈ کر دیا گیا تھا۔ وہ لگ بھگ نو مہینے تک جیل میں بھی رہے تھے۔
ویڈیو: نور پور گاؤں اتر پردیش کے علی گڑھ ضلع میں واقع ہے۔ ٹپل تھانہ حلقہ کے تحت آنے والے اس گاؤں میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق قصبے میں تقریباً800 مسلم فیملی اور 125 ہندو فیملی رہتی ہیں۔ اکثر ہندو فیملی جاٹو کمیونٹی(ایس سی)سے ہیں۔ کچھ دلت فیملی کے ذریعے اپنے گھروں پر ‘بکری کے لیے گھر ہے’ لکھے جانے کے بعد سے یہ گاؤں چرچہ میں ہے۔
معاملہ علی گڑھ کا ہے، جہاں ایک ہندوفیملی نے جلیسر کے پیر بابا میں اپنی عقیدت کی وجہ سے اپنے گھر میں دو چھوٹی مزار بنائی ہوئی تھیں۔ بجرنگ دل کے کارکنوں کے ذریعے‘ہندوؤں کےتبدیلی مذہب کی سازش کرنے’کا الزام لگانے کے بعد انہیں ہٹا دیا گیا۔
ڈاکٹر کفیل خان ان 81 لوگوں میں ہیں، جنہیں سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جوگیندر کمار کی ہدایت پر گورکھپورضلع کے ہسٹری شیٹرس کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر خان کے بھائی نے بتایا کہ ان کا نام اس فہرست میں جون 2020 میں ڈالا گیا تھا، لیکن میڈیا سے یہ جانکاری اب شیئرکی گئی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ لیڈر عارف تیاگی کو ضلع انتظامیہ نے یوپی غنڈہ ایکٹ کے تحت چھ مہینے کے لیے ضلع بدرکر دیا ہے۔ دونوں کمیونٹی کے بیچ نفرت پھیلانے سمیت کئی الزامات میں ان پر 2018 سے 2020 کے دوران چھ معاملے درج ہیں۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ17دسمبر کونیشنل سکیورٹی ایکٹ(این ایس اے)کے تحت ڈاکٹر کفیل خان کی حراست کو رد کرنے اور انہیں فوراً رہا کیےجانے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں دخل اندازی سے انکار کر دیا تھا۔ اس فیصلے پر ڈاکٹر کفیل نے دی وائر سے بات چیت کی۔
اتر پردیش پولیس کے ذریعےاین ایس اے کے تحت گرفتار کیے گئے ڈاکٹرکفیل خان کی حراست رد کر انہیں فوراً رہا کیےجانے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے آرڈر کو ریاستی سرکار نے سپریم کورٹ میں چیلنج دیا تھا، جسے سی جے آئی ایس اے بوبڈے کی قیادت والی بنچ نے خارج کر دیا۔
این سی آربی کی ایک رپورٹ کے مطابق جیلوں میں بند دلت، آدی واسی اور مسلمانوں کی تعدادملک میں ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے، ساتھ ہی مجرم قیدیوں سے زیادہ تعدادان طبقات کے زیر غور قیدیوں کی ہے۔ سرکار کا ڈاکٹر کفیل اور پرشانت کنوجیا کو باربار جیل بھیجنا ایسے اعدادوشمار کی تصدیق کرتا ہے۔
گزشتہ سال آکسیجن حادثے کی محکمہ جاتی جانچ میں دوالزامات میں ملی کلین چٹ کے بعد ڈاکٹر کفیل خان کی بحالی کے امکانات پیدا ہوئے تھے، لیکن سرکار نے نئےالزام جوڑتے ہوئے دوبارہ جانچ شروع کر دی۔ متھرا جیل میں رہائی کے وقت ہوئی حجت یہ اشارہ ہے کہ اس بار بھی حکومت کا روریہ ان کے لیےنرم ہونے والا نہیں ہے۔
اے ایم یو میں سی اے اے کے خلاف مبینہ‘ہیٹ اسپیچ’دینے کے الزام میں جنوری سے متھرا جیل میں بند ڈاکٹر کفیل خان کو ہائی کورٹ کے آرڈر کے بعد منگل دیر رات کو رہا کر دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اتنے دن جیل میں اس لیے رکھا گیا کیونکہ وہ ریاست کی طبی خدمات کی کمیوں کو اجاگر کرتے رہتے ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں مبینہ طور پرمتنازعہ بیان دینے کے معاملے میں29 جنوری کو ڈاکٹرکفیل خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 10 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد رہا کرنے کے بجائے ان پراین ایس اے لگا دیا گیا تھا۔
گزشتہ 29 جنوری کو اتر پردیش ایس ٹی ایف نے شہریت ترمیم قانون کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں مبینہ طور پر متنازعہ بیانات کے معاملے میں ڈاکٹر کفیل خان کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا۔ تب سے وہ جیل میں ہیں۔
اتر پردیش کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں متنازعہ بیانات دینے کےالزام میں29 جنوری کو ڈاکٹر کفیل خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 10 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد رہا کرنے کے بجائے ان پر این ایس اے لگا دیا گیا تھا۔
ویڈیو: ڈاکٹر کفیل خان کو گزشتہ دسمبر میں اے ایم یو میں ہوئے اینٹی سی اےاےمظاہرہ میں مبینہ اشتعال انگیزتبصرہ کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ فروری میں انہیں ضمانت ملی لیکن جیل سے باہر آنے کے کچھ گھنٹے بعد ان پر این ایس اے لگا دیا گیا۔ اس بارے میں دی وائر کی سینئر ایڈیٹرعارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
ویڈیو: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ شرجیل عثمانی کو پچھلے سال دسمبر میں ہوئے سی اے اے مخالف مظاہرےکے سلسلے میں گزشتہ آٹھ جولائی کو اعظم گڑھ واقع ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ شرجیل عثمانی کے اہل خانہ نے کہا کہ اعظم گڑھ میں ان کے گھر سے انہیں گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے اس بارے میں کوئی رسمی اعلان نہیں کیا، لیکن اے ایس پی(کرائم)نے ایک اخبار کو بتایا کہ یہ گرفتاری لکھنؤ اے ٹی ایس نے پچھلے سال دسمبر میں درج ہوئے ایک معاملے میں کی ہے۔
اتر پردیش کے علی گڑھ کا معاملہ۔ اہل خانہ کا الزام ہے ہاسپٹل کی جانب سے مریض سے ملنے کے نام پر 4000 روپے اضافی مانگا جا رہا تھا، جس کو لےکر تنازعہ شروع ہوا ہے۔ پولس کیس درج کرکے معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں مبینہ طور پر متنازعہ بیانات دینے کے معاملے میں 29 جنوری کو ڈاکٹر کفیل خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 10 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد رہا کرنے کے بجائے ان پر این ایس اے لگا دیا گیا تھا۔
سال 2019 میں ہندو مہاسبھا کی رہنما پوجا شکن پانڈے اور ان کے شوہر اشوک پانڈے کو مہاتما گاندھی کے پتلے کو گولی مارنے کے لیے علی گڑھ پولیس نے گرفتار کیا تھا۔
اتر پردیش پولیس کا کہنا ہے کہ امن و امان بنائے رکھنے کے لیے علی گڑھ کے حساس عبدالکریم چوراہا پر واقع ہلوائی یان مسجد کو شامیانےاور ترپال سے ڈھک دیا ہے، تاکہ ہولی کے دوران مسجد پر کوئی رنگ نہ پھینک دے۔
نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی سفارشوں پر الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ حکم دیا۔ پچھلے مہینے ہائی کورٹ نے پولیس کے تشدد کے الزامات کی جانچ کے لیے این ایچ آر سی کو ہدایت دی تھی اور کہا تھا کہ پانچ ہفتے میں وہ جانچ پوری کریں۔
علی گڑھ کے اپرکوٹ علاقے میں اتوار کو خواتین کو پولیس کے ذریعے شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے کی اجازت نہ دینے کی بات کہہ کر روکنے کے کوشش کی گئی جس کے بعد پولیس اور مظاہرین کے بیچ جھڑپ ہوئی۔ تشدد کے بعد علاقے میں سوموار آدھی رات تک انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ہے۔
ویڈیو: 15 دسمبر کو جامعہ کیمپس میں ہوئے تشدد کے بارے میں 16 فروری کو سامنے آئے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج کے بعد اس معاملے سے جڑے کئی ویڈیو سامنے آئے ہیں ۔ ان کے بارے میں جامعہ کے طلبا، اساتذہ اور انتظامیہ سے سرشٹی شریواستو کی بات چیت۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پچھلے سال 15 دسمبر کو کیمپس کے اندر دہلی پولیس کی بربریت کے دوران 2.66 کروڑ روپے کی املاک کا نقصان ہوا تھا، جس میں 4.75 لاکھ روپے کے 25 سی سی ٹی وی کیمروں کے نقصان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 15 دسمبر کو ہوئے تشدد کے دوران کی ایک اور سی سی ٹی وی فوٹیج سامنےآئی ہے، جہاں پولیس طالبعلموں کے ذریعے فرنیچر سے بلاک کئے لائبریری کے گیٹ کوتوڑکر اندر گھستی ہے اور طالبعلموں پر لاٹھیاں چلاتی دکھتی ہے۔ کئی طالبات سمیت ڈھیروں طالبعلم پولیس کے سامنے ہاتھ جوڑتے نظر آتے ہیں۔
اتر پردیش کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شہریت قانون (سی اےاے) کےخلاف بیان دینے کے الزام میں متھرا جیل میں بند ڈاکٹر کفیل خان پر این ایس اے لگایا گیا ہے۔
19 دسمبر، 2019 کو ملک کے دیگر حصوں کی طرح کرناٹک میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف کئی مظاہرے منعقد کئے گئے تھے۔حالانکہ، بنگلور پولیس کمشنر نے ایک دن پہلے سی آر پی سی کی دفعہ 144 کا استعمال کرکے شہر میں عوامی جلسہ پر پابندی لگا دی تھی۔
ڈاکٹر کفیل خان کو 29 جنوری کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ متھرا جیل میں بند خان کو ضمانت مل گئی تھی۔ علی گڑھ کے ایس ایس پی آکاش کلہری نے بتایا کہ ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف این ایس اے کے تحت کارروائی کی گئی ہے اور وہ جیل میں ہی رہیں گے۔
شہریت ترمیم قانون اور نئی دہلی واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلموں پر پولیس کی وحشیانہ کارروائی کے خلاف گزشتہ15 دسمبر کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیمپس میں مظاہرہ کے دوران ہوئے تشدد کو لےکر اسٹوڈنٹس کوآرڈینیشن کمیٹی نے یونیورسٹی انتظامیہ کے استعفیٰ کی مانگ کی تھی۔
عدالت کے باہر خان کے وکیل نے صحافیوں کو بتایا کہ خان کو انکاؤنٹرکا ڈر ہے ‘‘کیونکہ ان کے پاس پوری جانکاری ہے کہ بچوں کی موت (اتر پردیش کے ایک میڈیکل کالج میں) کا ذمہ دار کون ہے۔’’
امریکہ کی راجدھانی واشنگٹن میں ہوئے ایک انعقاد میں بین الاقوامی مذہبی آزادی پر امریکی کمیشن، ایمنسٹی انٹرنیشنل امریکہ، ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیموں سے وابستہ افراد اور کارکنان نے حصہ لیا۔
اتر پردیش پولیس نے ڈاکٹر کفیل خان پر آر ایس ایس اورمرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے لیےغیر مہذب تبصرہ کرنے، طلبا کو مرکزی حکومت کے شہریت قانون کے خلاف لڑنے اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کاالزام لگایا ہے۔