کیا حکومت کی جانب سے دانشوروں کو پالتو بنائے رکھنے کی جد و جہد یا دانش گاہوں میں انٹلی جنس بیورو کو بھیجنے کی ان کی حماقت ان کی بڑھتی ہوئی بدحواسی کا ثبوت ہے، یا ان کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ ہندوستان ایک بڑی عوامی تحریک کی دہلیز پر بیٹھا ہے۔
ہریانہ کی اشوکا یونیورسٹی میں پڑھانے والے سبیہ ساچی داس نے اپنے ایک تحقیقی مقالہ میں 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ‘ہیرا پھیری ‘ کا خدشہ ظاہر کیا تھا، جس پر تنازعہ کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔سوموار کو انٹلی جنس بیورو کے افسران ان سے بات کرنے کے مقصد سے یونیورسٹی پہنچے تھے۔
ہریانہ کے سونی پت میں واقع اشوکا یونیورسٹی میں معاشیات کے اسسٹنٹ پروفیسر سبیہ ساچی داس نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ ایک تحقیقی مقالے کے لیے سرخیوں میں ہیں، جس میں انہوں نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ‘دھاندلی’ کے امکان کا الزام لگایا تھا، جس کے بعد بی جے پی 2014 کے مقابلے میں زیادہ فرق کے ساتھ اقتدار میں واپس آئی تھی۔
نثری ادب کو باقاعدہ خطابت کی شکل دینا ضیا صاحب کا ہی کارنامہ ہے۔ انہوں نے اپنے مغربی اسٹیج اور فلم کی اداکاری کےتجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اردو تحاریر کے جسم میں گویا روح پھونک دی۔ کردار کاغذ سے اٹھ کر حاضرین سےہم کلام ہوگئے اور سامعین چشمِ تصور سے ان کرداروں کی جزئیات میں کھو گئے۔
ضیا محی الدین جب اپنی پڑھنت کا جادو جگاتے تھے تو سننے والے ان کے سحرمیں گرفتار ہوجایا کرتے تھے۔
برطانوی مصنف سلمان رشدی پر حملے کے ایک ہفتے بعدجمعہ کو ان کی حمایت اور اظہار رائے کی آزادی کے سلسلے میں ان کے خیالات کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیےان کے دوستوں اور ہمعصر قلمکاروں نے نیویارک پبلک لائبریری میں’دی سیٹنک ورسز’ اور ان کی دیگر تخلیقات کی پڑھنت کا اہتمام کیا۔
مین بکر پرائز سے سرفراز انگریزی کے معروف مصنف سلمان رشدی مغربی نیویارک کے شیتوقوا انسٹی ٹیوٹ میں ایک تقریب میں اپنا لیکچر شروع کرنے ہی والے تھے کہ ایک شخص نے اسٹیج پر آکر چاقو سے حملہ کردیا۔ ان کے ایجنٹ کے مطابق وہ وینٹی لیٹر پر ہیں اور ان کی حالت تشویشناک ہے۔ اپنی کتاب دی سیتانک ورسز ’شیطانی آیات‘ لکھنے کے بعد برسوں تک انہیں اسلامی انتہا پسندوں کی جانب سے موت کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑاہے۔
ہندوستانی نژاد امریکی سپر ماڈل اور مصنفہ پدما لکشمی نے سلسلہ وار ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کی جاری ہے ، انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ہندو ‘اس خوف پیدا کرنے’ اور ‘پروپیگنڈے’ کے جال میں نہیں آئیں گے۔
’ہندوستان کا کوئی مسلمان ایسا نہ تھا جس نے مولانا کے ناولوں کا مطالعہ نہ کیا ہو،یہاں تک کہ بعض علماء جن کو ناول کے نام سے نفرت تھی ،مولانا کی تصنیف کا دیکھنا باعث حسنات جانتے تھے۔‘