دسمبر 2019 میں سی اے اے مخالف مظاہرین کواتر پردیش حکومت نے وصولی کے نوٹس جاری کیے تھے، اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ اس کی سرزنش کی تو نوٹس واپس لے لیے گئے تھے، لیکن اب از سر نو دوبارہ یہ نوٹس کلیم ٹریبونل کےتوسط […]
یو اے پی اے کے تحت اکتوبر 2020 میں جے این یو کے سابق طالبعلم عمر خالدکوگرفتار کیا گیا تھا۔ یو اے پی اے کے ساتھ ہی اس معاملے میں فسادات اور مجرمانہ سازش کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔ جون 2021 کو دہلی ہائی کورٹ نے اس […]
ویڈیو: اتر پردیش کی لکھنؤ سینٹرل سیٹ سے کانگریس نےسی اے اے تحریک کے دوران جیل جانے والی سماجی کارکن صدف جعفر کواپنا امیدوار بنایا ہے۔ جعفر کو سی اے اے مخالف مظاہروں کا فیس بک لائیو کرنے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ اسکول ٹیچر اور سماجی کارکن سے لیڈر بنیں صدف سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
دسمبر 2019 میں سی اے اے مخالف مظاہرین کو جاری کیے گئے وصولی نوٹس پر 11 فروری کو سپریم کورٹ نے اتر پردیش حکومت کی سرزنش کی تھی، جس کے بعد یہ نوٹس واپس لیے گئے ہیں۔ حکومت نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ وہ مظاہرین سے وصول کیے گئے کروڑوں روپے واپس کرے گی۔
عمر خالد کو دہلی فسادات سےمتعلق معاملے میں پیشی پرہتھکڑی لگائے جانے کے خلاف ان کے وکیلوں کی درخواست پر ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے اپنے ایک آرڈر میں کہا ہے کہ پولیس کمشنر کسی ذمہ دارسینئر پولیس افسرکی نگرانی میں جانچ کے بعد رپورٹ دائر کرکے بتائیں کہ کیا عمر کو ہتھکڑی میں پیش کیا گیا، اگر ہاں تو کس بنیاد پر؟
سپریم کورٹ نے دسمبر 2019 میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو وصولی نوٹس بھیجے جانے پر اتر پردیش حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کی جانب سے طے کیے گئے قانون کے خلاف ہے اور اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اتر پردیش میں سی اے اے کے خلاف دسمبر2019 میں ہوئے احتجاجی مظاہروں کے دوران پولیس نے کئی اضلاع میں مظاہرین پر فائرنگ کی تھی،جس میں 22 مسلمان ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ سول سوسائٹی کی متعدد شکایتوں پرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے اب اپنی جانچ شروع کی ہے۔
ویڈیو: شہریت قانون(سی اے اے)کے خلاف دہلی کےشاہین باغ میں احتجاجی مظاہرہ، جامعہ میں پولیس کی بربریت اور فسادات کی حقیقت کو پیش کرنے والی ایک فوٹو بک شائع کی گئی ہے، جس کا عنوان ہے’ہم دیکھیں گے’۔ اس تصویری کتاب میں شامل اکثر تصاویر جامعہ کے طلبا نے لی ہیں۔
ویڈیو: شہریت قانون(سی اے اے )کے خلاف دہلی کے شاہین باغ میں ہوئی تحریک کو دو سال ہو چکے ہیں۔اس قانون کو منسوخ کرنے کے مطالبات کے ساتھ تازہ احتجاجی مظاہرے میں شدت آنے لگی ہے۔ اس تحریک پر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
ویڈیو: 15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کے طلبہ پر پولیس نے تشدد کیا تھا۔ یونیورسٹی کے طلبہ کی طرف سے سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت کی جا رہی تھی۔ لائبریری میں طلبہ کو پیٹا گیا اور لائبریری میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی تھی۔ اس تشدد کے دو سال مکمل ہونے پر پریس کلب آف انڈیا میں اس دن کو اظہاررائے، تحریک اور جمہوریت پر حملے کے طور پر یاد کیا گیا۔
ویڈیو: سی اے اےمخالف مظاہرہ کےلیےمعروف شاہین باغ تحریک کے دو سال ہونے پرپرگتیشیل مہیلا سنگٹھن،نیشنل فیڈریشن فاروومین اور کمیشن آف دی اسٹیٹس آف وومین کی طرف سے دہلی کے جنتر منتر پر ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔اس تحریک میں حصہ لینے کے الزام میں قید افراد کی رہائی کا مطالبہ کرنے کے لیے طلبا، سول سوسائٹی کے ارکان اور کارکنوں نے دھرنا بھی دیا۔
دہلی کی ایک عدالت نے دسمبر 2019 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہوئےتشدد سے متعلق معاملےمیں شرجیل امام کوضمانت دیتے ہوئے کہا کہ جرم کی نوعیت اور اس حقیقت کو دھیان میں رکھتے ہوئے ان کی عرضی کو منظور کیا جاتا ہے کہ انہیں جانچ کے دوران گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔
وزارت داخلہ کی جانب سے لوک سبھا میں دی گئی جانکاری کے مطابق، سال 2016 سے 2020 کے دوران 4177 غیر ملکیوں کو ہندوستان کی شہریت دی گئی ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو دہلی کےکڑکڑڈوما ضلع عدالت میں دنگوں سے متعلق کئی معاملوں کی شنوائی کر رہے تھے۔ ان کاتبادلہ نئی دہلی ضلع کےراؤز ایونیو عدالت میں خصوصی جج (پی سی قانون) (سی بی آئی)کے طور پر کیا گیا ہے۔جسٹس یادو نے دہلی دنگوں کو لےکر پولیس کی جانچ کو لےکر سوال اٹھاتے ہوئے کئی بار اس کی سرزنش کر چکے ہیں۔ انہوں نے اکثر معاملوں میں جانچ کے معیار کو گھٹیا بتایا تھا۔
دہلی کی ایک عدالت نے 2020 کے فسادات سےمتعلق ایک معاملے کو سنتے ہوئے کہا کہ پولیس گواہوں میں سے ایک حلف لےکر غلط بیان دے رہا ہے۔کورٹ نے ایسا تب کہا جب ایک پولیس اہلکار نے تین مبینہ دنگائیوں کی پہچان کی لیکن ایک اور افسر نے کہا کہ جانچ کے دوران ملزمین کی پہچان نہیں ہو سکی۔ یہ پہلی بار نہیں ہیں جب عدالت نے دہلی دنگوں کے معاملے میں پولیس پر سوال اٹھائے ہیں۔
دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ فروری2020 میں ملک کی قومی راجدھانی کو ہلا دینے والے فسادات واضح طور پرپل بھر میں نہیں ہوئے اور ویڈیوفوٹیج میں موجود مظاہرین کے طرزعمل سے یہ صاف پتہ چلتا ہے۔یہ حکومت کے کام کاج میں خلل ڈالنے کے ساتھ ساتھ شہر میں لوگوں کی عام زندگی کو متاثرکرنے کے لیے سوچی سمجھی کوشش تھی۔
گزشتہ سال فروری میں ممبئی کے آزاد میدان میں ہوئے ایک ایل جی بی ٹی کیو پروگرام میں جے این یواسٹوڈنٹ شرجیل امام کے حق میں مبینہ نعرے بازی کے لیے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے دو طالبعلموں کے خلاف سیڈیشن کا معاملہ درج کیا گیا تھا۔
گزشتہ سال 13 ستمبر کوشمال-مشرقی دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں یو اے پی اے کے تحت اسٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد کو گرفتار کیا تھا۔ یو اے پی اے کے ساتھ ہی اس معاملے میں ان کے خلاف فساد برپا کرنے اور مجرمانہ طور پر سازش کرنے کے بھی الزام لگائے گئے ہیں۔
اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے سے پہلےتمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا کہ مرکز کو این پی آر اور این سی آرکی تیاری سے متعلق اپنی پہل کو بھی پوری طرح سے روک دینا چاہیے۔شہریت قانون کےخلاف قرارداد پاس کرنے والا تمل ناڈو ملک کا آٹھواں صوبہ بن گیا ہے۔
دہلی فسادات معاملے میں ملزم جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹوڈنٹ آصف اقبال تنہا نے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے الزام لگایا تھا کہ متعلقہ عدالت کےنوٹس لینے سے پہلے ہی جانچ ایجنسی کے ذریعے درج ان کے بیان کو مبینہ طور پر میڈیا میں لیک کرکے پولیس افسروں نےبدعنوانی کی ہے۔
شرجیل امام کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 13 دسمبر 2019 اور اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں16جنوری 2020 کو شہریت قانون کے خلاف مبینہ طور پرمتنازعہ بیانات دینے کا الزم ہے ۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر دھمکی دی تھی کہ آسام اور بقیہ شمال مشرقی صوبوں کو ‘ہندوستان سے الگ’کر دیا جائے۔
فروری2020 میں دہلی کے چاندباغ علاقے میں فسادات کے دوران ایک دکان میں مبینہ لوٹ پاٹ اور توڑ پھوڑ سے متعلق معاملے میں عآپ کےسابق کونسلر طاہر حسین کے بھائی شاہ عالم اور دو دیگر کوبری کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ چشم دید گواہوں، حقیقی ملزموں اور تکنیکی شواہد کا پتہ لگانے کی کوشش کیے بنا ہی صرف چارج شیٹ داخل کرنے سے ہی معاملہ سلجھا لیا گیا۔
لگ بھگ سال بھر سےدہلی فسادات سےمتعلق معاملے میں جیل میں بندعمر خالد کی والدہ کہتی ہیں کہ اسے باہر آنے پر ہندوستان چھوڑ دینا چاہیے، لیکن کچھ لمحو ں میں وہ بدل سی جاتی ہیں۔
دہلی فسادات سےمتعلق ایک معاملے کی شنوائی کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے کہا کہ پولیس آدھے ادھورے چارج شیٹ دائر کرنے کے بعد جانچ کو منطقی انجام تک لے جانے کی بہ مشکل ہی پرواہ کرتی ہے، جس وجہ سے کئی الزامات میں نامزد ملزم سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ زیادہ تر معاملوں میں جانچ افسر عدالت میں پیش نہیں ہو رہے ہیں۔
دہلی دنگوں کو لےکریو اے پی اے کےتحت گرفتار جے این یو کےسابق اسٹوڈنٹ عمر خالد نے اپنا دفاع کرتے ہوئے عدالت میں کہا کہ پولیس کے دعووں میں تضادات ہیں۔ ان کے خلاف یو اے پی اے کا معاملہ بی جے پی رہنما اور آئی ٹی سیل چیف امت مالویہ کی جانب سے ٹوئٹ کیے گئے ان کی مختصر تقریر کے ترمیم شدہ ویڈیو کلپ پر مبنی ہے۔ چارج شیٹ پوری طرح سے فرضی ہے۔ ان کے خلاف منتخب گواہ لائے گئے اور انہوں نے مضحکہ خیز بیان دیے ہیں۔
گزشتہ سال دنگوں کے دوران ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا،جس میں زخمی حالت میں پانچ نوجوان زمین پر پڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کم از کم سات پولیس اہلکارنوجوانوں کو گھیرکرقومی ترانہ گانے کے لیےمجبورکرنے کے علاوہ انہیں لاٹھیوں سے پیٹتے ہوئےنظر آتے ہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان کی موت ہو گئی تھی، جس کی پہچان 23 سال کے فیضان کے طورپر ہوتی ہے۔ ان کی ماں کا کہنا تھا کہ پولیس کسٹڈی میں بےرحمی سے پیٹے جانے اور وقت پر علاج نہ ملنے سے ان کی جان گئی۔
سرکار کوسوال پوچھنے،حقوق کی بات کرنے اور اس کے لیےجدوجہدکرنے والے ہر انسان سے ڈر لگتا ہے۔ اس لیے وہ موقع دیکھتے ہی ہمیں فرضی الزامات میں پھنساکر جیلوں میں ڈال دیتی ہے۔
شمال-مشرقی دہلی میں فسادات کے دوران بم بنانے اور سپلائی کرنے کےالزام میں46سالہ کردم پوری کے انصار خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ ان کے گھر کی چھت سے جو پائپ بم برآمد کیے گئے تھے، اصل میں انہیں ان کے پڑوسی نے رکھا تھا۔ اس معاملے میں پڑوسی مجمل علوی کے خلاف معاملہ درج کیا گیا۔
مرکزی وزیرمملکت برائےداخلہ نتیانند رائےنے لوک سبھا میں بتایا کہ ابھی تک سرکار نے قومی سطح پر ہندوستانی شہریوں کا قومی رجسٹر تیارکرنے کا کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے۔ حالانکہ مردم شماری 2021 کے پہلے مرحلے کے ساتھ شہریت ایکٹ 1955 کے تحت این پی آر کو اپ ڈیٹ کرنے کا فیصلہ ضرور لیا ہے۔
دہلی پولیس کے ذریعےشوہر کی گرفتاری کے بعد ایک عورت کی زندگی کا حال۔
دہلی فسادات معاملے میں ملزم جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلم آصف اقبال تنہا نے دہلی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے الزام لگایا تھا کہ متعلقہ عدالت کی طرف سے نوٹس لینے سے پہلے ہی جانچ ایجنسی کے ذریعے درج ان کے بیان کو مبینہ طور پرمیڈیا میں لیک کرکے پولیس حکام نے بدعملی کی ہے۔
گزشتہ سال 25 فروری کو 18سالہ مونس اپنےوالد سے مل کر اور مٹھائیاں لےکر گھر واپس لوٹ رہا تھا کہ تبھی دنگے بھڑک گئے۔ جب وہ دہلی کے یمنا بس اسٹینڈ پر اترا تو اس نے دنگوں کو بھڑکتے دیکھا۔ مشتعل بھیڑ نے اس کے مسلم ہونے کا پتہ چلنے کے بعد لاٹھی ڈنڈوں اور پتھروں سے پیٹ پیٹ کر اس کی جان لے لی۔
یو اے پی اے کے تحت گرفتار جے این یو کے سابق طالبعلم عمر خالد کی ضمانت عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے پولیس نے کہا کہ استغاثہ معاملے میں دائر چارج شیٹ کے حوالے سے عدالت میں ملزم کےخلاف پہلی نظرکامعاملہ دکھائےگا۔معاملہ ایک بڑی سازش کا حصہ ہے اور یہ چھ مارچ 2020 کو درج ہوا تھا۔ خالد کو فسادات سےمتعلق ایک دوسرے معاملے میں ضمانت مل چکی ہے۔
پچھلے سال فروری مہینے میں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کے دوران شیو وہار کی مدینہ مسجد میں آگ لگا دی گئی تھی۔ اس کے لےکر کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پولیس اس کیس میں ایک الگ ایف آئی آر دائر کرے۔ اب پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے لےکر پہلے ہی ایف آئی ار درج کی گئی تھی، لیکن اس کی جانکاری عدالت کو انجانے میں نہیں دے سکی تھی۔
دہلی کی ایک عدالت نے سریش نام کے ایک ملزم کو بری کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اس کیس کو ثابت کرنے میں بری طرح فیل ہوئی ہے۔ دہلی پولیس کا الزام تھا کہ ملزم سریش نے دنگائیوں کی بھیڑ کے ساتھ مل کر مبینہ طور پر 25 فروری2020 کی شام کو بابرپور روڈ پر واقع ایک دکان کا تالا توڑکر لوٹ پاٹ کی تھی۔
جنوری2020میں سی اے اے کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس احتجاج کر رہے لوگوں پر ایک نابالغ نوجوان نے گولی چلائی تھی،جس میں جامعہ کا طالبعلم زخمی ہو گیا تھا۔ اب اس نوجوان پر ہریانہ کے پٹودی میں ہوئی ایک مہاپنچایت میں فرقہ وارانہ تقریر کرنے کاالزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔مقامی عدالت نے نوجوان کو ضمانت دینے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ ہیٹ اسپیچ فیشن بن گیا ہے۔
پولیس نے مجسٹریٹ عدالت کے اس فیصلے کو چیلنج دیا تھا، جس میں فسادات کے دوران گولی لگنے سے اپنی ایک آنکھ گنوانے والے محمد ناصر نام کے شخص کی شکایت پر ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ عدالت نے پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے میں بری طرح سے ناکام رہے ہیں۔
جنوری2020 میں سی اے اے کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس احتجاج کر رہے لوگوں پر ایک نابالغ نوجوان نے گولی چلائی تھی،جس میں جامعہ کا طالبعلم زخمی ہو گیا تھا۔ اب اس نوجوان پر ہریانہ کے پٹودی میں ہوئی ایک مہاپنچایت میں فرقہ وارانہ تقریر کرنے کاالزام لگا ہے۔
کسی بھی عام شہری کے لیےجیل ایک خوفناک جگہ ہے، لیکن دیوانگنا، نتاشا اور آصف نے انتہائی عزم اور حوصلے سے جیل کے اندر ایک سال کاٹا۔ان کے تجربات جدوجہد آزادی کے سپاہیوں نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد کے جیل کی سرگزشت کی یاد دلاتے ہیں۔
ویڈیو:لکھنؤ کے تاریخی گھنٹہ گھر کے پاس سی اے اےکے خلاف احتجاج کی قیادت کرنے والی خواتین اب اتر پردیش میں اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخاب میں مقتدرہ بھارتیہ جنتا پارٹی کےخلاف ایک سیاسی لڑائی لڑنے جا رہی ہیں۔