بنگلوروواقع انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کی جانب سے ‘فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور انصاف’ کے موضوع پر شہری حقوق کی کارکن تیستا سیتلواڑ کی بات چیت کو آڈیٹوریم میں منظوری دینے سے انکار کے بعد انہوں نے کیمپس کینٹین کے باہر طالبلعلموں اور فیکلٹی ممبران کے ایک اجتماع سے خطاب کیا۔
عام آدمی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کے ترنگے کے رنگ پکے ہیں۔ خالص گھی کی طرح ہی وہ خالص قوم پرستی کا کاروبار کر رہی ہے۔ ہندوستان اور ابھی اتر پردیش کے رائے دہندگان کو قوم پرستی کا اصل ذائقہ اگر چاہیے تو وہ اس کی دکان پر آئیں۔اس کی قوم پرستی کی دال میں ہندوازم کی چھونک اور سشاسن کے بگھار کا وعدہ ہے۔
جواہر لعل نہر و نے کہا تھا کہ -اگر کوئی شخص مذہب کی بنیاد پر دوسروں کو نشانہ بنانے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو میں ملک کا سربراہ ہونے کے ناطے یا عام آدمی کی حیثیت سے اپنی آخری سانس تک اس سے لڑوں گا۔
بتایا جاتا ہے کہ 1947میں تقسیم کے وقت جب پنجاب اور اس کے 24راجواڑوں میں کشت و خون کا بازار گرم تھا تو دہلی سے 300 کیلومیٹر دور مسلم اکثریتی مالیر کوٹلہ ایک جزیرہ امن کی طرح قائم رہا۔ یہاں کسی کا خون بہا نہ کسی کو ہجرت کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ پورے مغربی پنجاب میں یہ واحد علاقہ ہے، جہاں مسلمانوں کی تعداد 65فیصدہے۔
ایک ایسا ہندوستان وجود میں آئے جہاں غریب سے غریب انسان بھی یہ سوچے کہ یہ ملک اس کا ہے اور یہاں اس کی آواز کو برابر کی اہمیت حاصل ہے۔ ایک ایسا ہندوستان جہاں اعلیٰ اور ادنی طبقے کا کوئی تصور ہی نہ ہو۔ ایسا ملک جہاں ہر مذہب کے لوگ امن اور بھائی چارہ کے ساتھ رہ سکیں۔ ایسا ہندوستان جہاں چھوا چھوت کی کوئی جگہ نہ ہو، جہاں نشہ کرنے کا کوئی تصور نہ ہو۔ خواتین کو مردوں کے برابر حقوق حاصل ہوں۔
کیرکر وردھانے کہا جس ملک میں گائے کا گوشت رکھنے کے لئے لوگوں کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا جاتا ہے اور دانشور وں کو اپنی رائے ظاہر کرنے پر قتل کر دیا جاتا ہے،اس ملک کو مہاتما گاندھی کو اپنا بابائے قوم نہیں کہنا چاہیے۔
مہاتما گاندھی نے کہا تھا،کشمیر کی عوام اگر پاکستان میں جانا چاہتی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے پاکستان جانے سے روک نہیں سکتی،لیکن اسے پوری آزادی اور آرام کے ساتھ اپنی رائے رکھنے دیا جائے۔ان کے گاؤں کو جلا کر آپ انہیں مجبور نہیں کر سکتے ۔بھلے ہی وہاں مسلم زیادہ تعداد میں ہیں لیکن اگر وہ ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں روکا نہیں جا سکتا۔
آج ملک کو حقیقی باپ کی ضرورت ہے، میرے جیسے صرف نام کے باپ سے کام نہیں چلنے والا ہے۔ آج بڑے-بڑے فیصلے ہو رہے ہیں۔ 56انچ کا سینہ دکھانا پڑ رہا ہے۔ ایسا باپ جو پبلک کو کبھی تھپڑ دکھائے تو کبھی لالی پاپ، اوراپنے طے کئے […]
وہ لوگ جو گاندھی جی کے آخری جنم دن پر ان سے ملنے گئے تھے، ان کی نظر میں یہ گاندھی جی کے لئے ان کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ دن تھا۔
تاجروں کا کہنا ہے کہ اچانک تجارت معطل کرنے سے تاجروں کو بڑے پیمانے پر مالی نقصان تو ہوا ہی ہے، پونچھ اور اوڑی کے سینکڑوں نوجوانوں سے روزگارچھن گیاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایودھیا میں رام کے بلند و بالا مندر کی تعمیر کو مہاتما ہندوؤں اور ہندوازم کی توانائی افسوسناک طریقے سے برباد کیے جانے کی طرح دیکھتے۔
ایسا عام طور پر کہا جا تا ہے کہ گاندھی جی جب آ خری سانس لے رہے تھے تو انہوں نے ’’ہے رام‘‘ پکارا۔مگر سچ یہ ہے کہ جب گاندھی جی کو گولی لگی، تب ان کی زبان سے ایک لفظ کا ادا ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔یہ فرضی بات کسی منچلے رپورٹر نے لکھ دی اور دیکھتے دیکھتے پوری دنیا نے اس کو سچ مان لیا۔
ترنگا لےکر آپ کانور یاترا میں چل سکتے ہیں۔ گنیش وسرجن میں بھی اس کو لہرا سکتے ہیں۔ بد عنوانی مخالف تحریک میں بڑے ڈنڈوں میں باندھکر موٹرسائیکل پر دوڑا سکتے ہیں۔ ترنگا سے آپ مسلمانوں کے خلاف تشدد کرنے والوں کی لاش ڈھک سکتے ہیں، لیکن اس سے آپ اپنی بےپردگی ڈھک نہیں سکتے!
آج جب دنیا میں مختلف قسم کی خرابی اجاگر ہونے کے بعد گلوبلائزیشن کی خراب پالیسیوں پر دوبارہ غور کیا جا رہا ہے، ہمارے یہاں انہی کو گلے لگائے رکھکر سو سو جوتے کھانے اور تماشہ دیکھنے پر زور ہے۔
ملک کے جھنڈے کو بھی کیوں فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کیا جا رہا ہے؟ کیا ہم لڑتےلڑتے اتنے دور آ گئے ہیں کہ ملک کے پرچم کو بھی تقسیم کر دیںگے؟
آزادی کے بعد دلی میں خون خرابے کا سلسلہ جاری تھا ۔اس کی مخالفت میں گاندھی جی نے 12جنوری 1948کو اعلان کیا کہ وہ اگلے دن یا 13جنوری کو اپواس شروع کریں گے
اردو والا چشمہ کے اس ایپی سوڈ میں سنیے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور patriarchy پر نوپور شرما کا تبصرہ