مونی اماوسیہ کے دن بھگدڑ میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ لیکن اب اس واقعہ کے دو ماہ بعد بھی سوگوار خاندان اتر پردیش حکومت کی جانب سے اعلان کیے گئے 25 لاکھ روپے کے معاوضے کا انتظار کر رہے ہیں۔
شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کے پانچ سال بعد بھی سماجی تقسیم اور دوری ختم ہوئی ہے اور نہ ہی اس تشدد کے متاثرین کو مناسب معاوضہ ملا ہے۔ انصاف تو آج بھی دور کی کوڑی ہے۔
دہلی فسادات کی پانچویں برسی پر کاروانِ محبت کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ فسادات کے متاثرین ابھی تک انصاف اور معاوضے سے محروم ہیں۔ اس بارے میں انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل سرور مندر اور دی وائر کے پالیٹکل ایڈیٹر اجئے آشیرواد سے تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔
دہلی فسادات کی پانچویں برسی پر کاروانِ محبت کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متاثرین کو معاوضہ دینے کے لیے ایک کمیشن کا قیام عمل میں آیا تھا، لیکن اس کے معیارات نا معلوم تھے۔ رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کی تاریخ میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد معاوضے کی ادائیگی کی یہ ممکنہ طور پر بدترین صورتحال ہے۔
اپریل 2020 میں کووڈ کے دوران، دہلی حکومت نے فرنٹ لائن ورکرز کی موت پر متاثرہ خاندان کو ایک کروڑ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن پانچ سال بعد بھی 40 فیصد درخواست گزاروں کو یہ رقم نہیں ملی ہے۔ 154 منظور شدہ درخواست دہندگان میں سے صرف 92 خاندانوں کو ادائیگی کی گئی ہے۔
ویڈیو: بھوپال گیس سانحہ کے بعد کے سالوں میں متاثرین کی تعداد میں اضافہ اور گیس کے سنگین مضر اثرات کو دیکھ کر سال 2010 میں اس وقت کی مرکزی حکومت نے اضافی معاوضے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ حال ہی میں، سپریم کورٹ نے اس مطالبہ کو مسترد کر دیا۔بھوپال کے گیس متاثرین کی تنظیمیں بھی اس معاملے میں فریق تھیں، اس فیصلے کے حوالے سے ان کے نمائندوں سے بات چیت۔
ویڈیو: گزشتہ سال 20 اکتوبر کو وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے دہلی کے کسانوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر ان کی کھیتی کی زمین برباد ہو جاتی ہے تو وہ انہیں 50000 روپے فی ہیکٹر کی شرح سے معاوضہ دیں گے۔ مہینوں بعد بھی اس رپورٹ کی اشاعت تک کسانوں کو معاوضہ نہیں ملا ہے۔
ویڈیو: راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) کےچیف جینت چودھری کا کہنا ہے کہ اتر پردیش میں روزگار مانگنے پر نوجوانوں کو پیٹا گیا۔ دہلی کے غازی پور بارڈر پر کسانوں کی توہین کی گئی۔ اتر پردیش اسمبلی انتخاب کو لے کرجینت چودھری سے دی وائر کی عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
گودھرا ٹرین قتل عام کے اگلے دن 28 فروری، 2002 کی رات کوسردارپورا گاؤں میں اقلیتی کمیونٹی کے 33 لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا، جس میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ اس معاملے کے 10 سال بعد 2012 میں31 لوگوں کوقصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ حالانکہ، چار سال بعد گجرات ہائی کورٹ نے 31 میں سے 14قصورواروں کو بری کر دیا۔
ویسٹرن ریلوے سی پی آر او رویندر بھاکر نےبتایا کہ ، فلم کی شوٹنگ سے متعلق جو جانکاری ان کو دی گئی اس میں گودھرا کا ذکر نہیں تھا ۔ہمیں یہ بتا یا گیا تھا کہ وزیر اعظم مودی کے چائے بیچنے والے سین کو شوٹ کرنا چاہتے ہیں ۔ فلم آئندہ لوک سبھا انتخاب سے پہلے سوشل میڈیا پر ریلیز ہوگی ۔
گودھرا ریلوے اسٹیشن پر 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے ایس-6 کوچ کو آگ لگا دی گئی تھی۔ اس میں 59 لوگوں کی جانیں گئی تھیں، جن میں سے 7 لوگوں کی اب تک شناخت نہیں ہو پائی۔ اس واقعہ کے بعد گجرات میں فرقہ وارانہ فساد ات بھڑک اٹھے تھے۔
آج تین دہائیوں سے زیادہ گزرنے کے بعد بھی یونین کاربایئڈ فیکٹری کا دیا ہوا زخم تازہ ہے، خاص طور پر ان ہزاروں متاثرین کے لیے جن کی زندگی اس حادثہ نے مکمل طور پر بدل دی۔
بیواؤں کی کالونی کا نام بدلکرجیون جیوتی کالونی رکھ دیا گیا ہے مگر بیواؤں کی حالت میں کوئی بھی بہتری نہیں آئی ہے۔ کچھ بیواؤں کو اپنی گزر بسر کے لئے بھیک تک مانگنی پڑ رہی ہے۔ بھوپال:یونین کاربائیڈفیکٹری سےزہریلی گیس کے لیک ہونے والے حادثہ کو تین […]
سپریم کورٹ نے آج کہا ہے کہ ذمہ داری ریاستوں کی ہے کہ وہ گئو رکھشا کے نام پر ہونیوالے تشدد کے شکار لوگوں کو معاوضہ دے۔ نئی دہلی : سپریم کورٹ نے آج کہا ہے کہ ذمہ داری ریاستوں کی ہے کہ وہ گئو رکھشا کے نام […]