عوام کی غالب اکثریت یکساں سول کوڈ کو مسلمانوں کے نظریے سے دیکھتی ہے۔ ان کو نہیں معلوم کہ دیگر فرقے بھی اس کے مخالف ہیں۔ یہ خدشہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ کہیں اس کی آڑ میں ہندو کوڈ یا ہندو رسوم و رواج کو دیگر اقوام پر تو نہیں تھوپا جائے گا۔
یونیفارم سول کوڈ کے بارے میں نوبل انعام یافتہ ماہراقتصادیات امرتیہ سین نے سوال اٹھایا اور پوچھا کہ اس طرح کی قواعدسےکس کو فائدہ ہوگا۔ یہ عمل یقینی طور پر ‘ہندو راشٹر’ کے خیال سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ،’ہندو راشٹر’ ہی واحد راستہ نہیں ہو سکتا، جس کے ذریعے ملک ترقی کر سکتا ہے۔
ویڈیو: یونیفارم سول کوڈ کو لے کر ملک میں جاری سیاسی بحث نئی نہیں ہے، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ کہنا کہ یو سی سی ملک کی ضرورت ہے، کیا سچ میں ایسا ہے؟
ویڈیو: وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں یکساں سول کوڈ کی پرزور وکالت کی تھی۔ کیا یہ اگلے عام انتخابات سے پہلے بی جے پی کی طرف سے کوئی انتخابی چال ہے؟ اس بارے میں بتا رہی ہیں دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی۔
ویڈیو: حالیہ دنوں میں ملک میں فرقہ وارانہ تشدد اور کشیدگی کے واقعات کے تناظر میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس دیپک گپتا سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
واقعہ جھارکھنڈ کے مغربی سنگھ بھوم ضلعے کے گلی کیرا گاؤں کا ہے۔ الزام ہے کہ پتھل گڑی حمایتیوں نے اس واقعہ کو انجام دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ غور کرنا دلچسپ ہے کہ ریاست کی پالیسی کے ڈائریکٹو پرنسپل سے جڑے حصہ چار میں آئین کے آرٹیکل 44 میں آئین سازوں نے امید کی تھی کہ ریاست پورے ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کے لئے کوشش کرےگی۔ لیکن آج تک اس بارے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
گزشتہ 8 مارچ کو میگھالیہ ہائی کورٹ نے دی شیلانگ ٹائمس کے مدیر پیٹریشیا موکھیم اور ناشر شوبھا چودھری کو ہتک عزت کا مجرم مانتے ہوئے ایک ہفتے کے اندر دو لاکھ روپے جرمانہ جمع کرنے کو کہا تھا۔ ایسا نہ کرنے پر 6 مہینے کی قید اور اخبار پر پابندی لگانے کی بات کہی گئی تھی۔
دی شیلانگ ٹائمس کے مدیر پیٹرسیا موکھم اور ناشر شوبھا چودھری پر دو-دو لاکھ روپے کا جرمانہ لگایا گیا ہے۔ ایک ہفتے کے اندر جرمانے کی رقم ادا نہیں کرنے پر چھے مہینے کی جیل کا اہتمام ہے۔
یونیفارم سول کوڈ کے نام پر چینلوں اور اخباروں میں کتنی بحث چلائی گئی اور مسلمانوں کے متعلق نفرت کے برگدکا درخت کھڑا کیا جاتا رہا۔ اس بحث میں پہلے بھی کچھ نہیں تھا، اب بھی کچھ نہیں ہے۔
لاء کمیشن نے شادی، طلاق ،گزارہ بھتہ سے متعلق قوانین اور خواتین اور مردوں کی شادی کی عمر میں تبدیلی کے مشورے دیے ہیں۔
جھارکھنڈ میں عیسائی تنظیم اور چرچ ،ریاستی حکومت کے رویے پر لگاتار سوال کھڑے کر رہے ہیں۔ جبکہ کچھ واقعات کو مرکز میں رکھکر بی جے پی، آر ایس ایس اور وی ایچ پی بھی مشنری اداروں کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہی ہے۔
ملک کی کئی جیلوں میں متعینہ تعداد سے چھ گنا زیادہ قیدی رکھے جانے پرسپریم کورٹ نے کہا کہ اگر ان کو صحیح سے نہیں رکھ سکتے ہیں تو ان کو رہا کر دینا چاہیے۔
گزشتہ سال لاء کمیشن نے یہ اشارہ ضرور دیا تھا کہ اس کے مطابق ملک میں یونیفارم سول کوڈ لاگو کرنا بہت مشکل ہے اس لئے مختلف مذاہب کے پرسنل لاء کی اصلاح کرنے پر توجہ دینا بہتر ہوگا۔
گراؤنڈ رپورٹ:جھارکھنڈ کے کئی قبائلی علاقوں میں ان دنوں پتھل گڑی کی مہم چھڑی ہے۔ گرام سبھاؤں میں قبائلی صف بندی کر رہے ہیں اور پتھل گڑی کے ذریعے اپنی حکومت کی مانگکر رہے ہیں۔