سال 2020 کے دہلی فسادات کی مبینہ سازش سے متعلق کیس میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اسکالر شرجیل امام اور دیگر کی درخواست ضمانت پر شنوائی کر رہی دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس پرتبھا سنگھ اور جسٹس امت شرما کی ڈویژن بنچ نے کہا کہ معاملے کو ایسی بنچ کے سامنے درج کیا جائے جس کے ممبرجسٹس شرما نہ ہوں۔
آئی آئی ٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد جے این یو سے پی ایچ ڈی کر رہے شرجیل امام جنوری 2020 سے جیل میں ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ سے سیڈیشن کے ایک معاملےمیں ضمانت ملنے کے باوجود وہ جیل میں ہی رہیں گے کیونکہ ان پر دہلی فسادات سے متعلق ایک کیس میں یو اے پی اے کے تحت الزام لگائے گئے ہیں۔
آئی آئی ٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جے این یو سے پی ایچ ڈی کر رہے شرجیل امام جنوری 2020 سے جیل میں ہیں۔ ان کے بھائی کا کہنا ہے کہ شرجیل کو سول سوسائٹی گروپس اور سرکردہ سیاسی کارکنوں کی حمایت نہیں ملی ہے۔
دہلی کی ایک عدالت نے جے این یو کے سابق طالبعلم شرجیل امام کو سیڈیشن کے معاملے میں ضمانت دی ہے، جس میں ان پر 2019 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اپنی تقریر کے ذریعےدنگا بھڑکانے کا الزام تھا۔ تاہم دہلی فسادات سے متعلق مقدمات کی وجہ سے انہیں فی الحال جیل میں ہی رہنا پڑے گا۔
رواں سال جنوری میں دہلی کی ایک عدالت نے 2019 کے سی اے اے اور این آر سی مخالف مظاہروں کے دوران مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقاریر کے الزام میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالبعلم شرجیل امام کے خلاف سیڈیشن کا الزام طےکیا تھا۔ اسی ماہ سپریم کورٹ نے سیڈیشن کے قانون پر غوروخوض ہونے تک اس سے متعلق تمام کارروائیوں پر روک لگانے کی ہدایت دی ہے۔
دہلی کی ایک عدالت نے دسمبر 2019 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہوئےتشدد سے متعلق معاملےمیں شرجیل امام کوضمانت دیتے ہوئے کہا کہ جرم کی نوعیت اور اس حقیقت کو دھیان میں رکھتے ہوئے ان کی عرضی کو منظور کیا جاتا ہے کہ انہیں جانچ کے دوران گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔
گزشتہ سال فروری میں ممبئی کے آزاد میدان میں ہوئے ایک ایل جی بی ٹی کیو پروگرام میں جے این یواسٹوڈنٹ شرجیل امام کے حق میں مبینہ نعرے بازی کے لیے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے دو طالبعلموں کے خلاف سیڈیشن کا معاملہ درج کیا گیا تھا۔
شرجیل امام کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 13 دسمبر 2019 اور اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں16جنوری 2020 کو شہریت قانون کے خلاف مبینہ طور پرمتنازعہ بیانات دینے کا الزم ہے ۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر دھمکی دی تھی کہ آسام اور بقیہ شمال مشرقی صوبوں کو ‘ہندوستان سے الگ’کر دیا جائے۔
خصوصی مضمون : ملک کی’سیکولر‘سیاست کی شان میں خوب قصیدے پڑھے جاتے ہیں لیکن ایک سال سے قید شرجیل امام اس سیاست کی معتبریت کے لیے ایک لٹمس ٹیسٹ بنے ہوئے ہیں۔
الزام ہے کہ شرجیل امام نے نارتھ -ایسٹ کو ہندوستان سے کاٹ دینے کا اکساوا دیتے ہوئے بیان دیے تھے۔ انہوں نے اتنا ہی کیا تھا کہ سرکار پر دباؤ ڈالنے کے لیے راستہ جام کرنے کی بات کہی تھی۔ کسان ابھی چاروں طرف سے دہلی کا راستہ بند کرنے کی بات کہہ رہے ہیں، تاکہ سرکار پر دباؤ بڑھے اور وہ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑے۔ کیا اسے دہشت گردانہ کارروائی کہا جائےگا؟
الہ آباد ہائی کورٹ نے عرضی خارج کرتے ہوئے کہا کہ اس وبا کے بیچ جب کورٹ محدودا سٹاف کے ساتھ کام کر رہی ہے تو اس طرح کی عرضی دائر کرکے کورٹ کا قیمتی وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔
دہلی لائے جانے سے پہلے شرجیل امام گوہاٹی جیل میں بند تھے اورکوروناسے متاثر پائے گئے تھے۔ شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کے دوران متنازعہ بیان دینے کے الزام میں ان پرسیڈیشن کا معاملہ بھی چل رہا ہے۔
اس سے پہلے دہلی پولیس نے شرجیل امام کے خلاف سیڈیشن کامعاملہ درج کیا تھا۔ امام پر تشدد بھڑ کانے اوردشمنی کو بڑھانے والابیان دینے کاالزام لگایا گیا تھا۔
شرجیل امام کو سیڈیشن کے الزام میں گزشتہ 28 جنوری کو بہار سےگرفتار کیا گیا تھا۔ امام کے وکیل احمد ابراہیم نے کہا کہ، ہم نے دہلی پولیس کی جانب سے 17 اپریل، 2020 کو داخل کی گئی چارج شیٹ کو پوری طرح سے نہیں دیکھا ہے۔ اس کو دیکھنے کے بعد ہم مناسب قدم اٹھائیں گے۔
دہلی پولیس نے جے این یوکیمپس میں نو فروری 2016 کو منعقد ایک پروگرام کے دوران مبینہ طور پر ملک مخالف نعرے لگانے کے لیے جواہر لال نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر کنہیا کمار سمیت سابق طلباعمر خالد اور انربان بھٹاچاریہ کے خلاف بھی چارج شیٹ داخل کی تھی۔
دہلی پولیس نے جامعہ نیو فرینڈس کالونی میں گزشتہ 15 دسمبر کو شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہرے کے دوران ہوئے تشدد کے معاملے میں منگل کو عدالت میں چارج شیٹ داخل کر دی۔ پولیس نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج ، کال ریکارڈس اور 100 سے زیادہ گواہوں کے بیان بطور ثبوت منسلک کئے گئے ہیں۔
ویڈیو: جے این یو سے پی ایچ ڈی کر رہے طالبعلم شرجیل امام پر سیڈیشن کے معاملے کو لے کر پروفیسر اپوروانند کا نظریہ۔
حالانکہ شرجیل نے ٹوئٹ کرکے کہا ہے کہ انہوں نے سرینڈر کیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ بہار کے باشندہ شرجیل امام کا پتہ لگانے کے لیے پانچ ٹیم کو تعینات کیاگیا تھا۔ اس کو پکڑنے کے لیے ممبئی، پٹنہ اور دہلی میں چھاپے مارے گئے۔
جے این یو سے پی ایچ ڈی کر رہے اسٹوڈنٹ شرجیل امام پر شہریت ترمیم قانون کے خلاف مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریرکرنے کے الزام میں سیڈیشن کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔ بہار کے جہان آباد واقع ان کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا ہے۔
2016 میں درج سیڈیشن کے معاملے میں دہلی پولیس نے جواہرلال نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار، سابق طالب علم عمر خالد، انربان بھٹاچاریہ اور دیگر کے خلاف گزشتہ 14 جنوری کو چارج شیٹ داخل کی تھی۔
بی جے پی اقلیتی سیل کے ریاستی نائب صدر ٹیٹو بڈوال نے الزام لگایا ہے کہ کنہیا کمار نے سوموار کو کشن گنج کے انجمن اسلامیہ ہال میں ‘بھڑکاؤ’ بیان دیا تھا۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ملک مخالف نعرے لگانے کے معاملے میں دہلی پولیس کی چارج شیٹ کو ابھی تک دہلی حکومت نے منظوری نہیں دی ہے۔
دہلی کے پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے مقدمہ چلانے کے لیے دہلی حکومت سے ضروری منظوری لینے کی مدت میں اضافہ کرتے ہوئے معاملے کی شنوائی 28 فروری تک کے لیے ٹال دی ہے۔
یونین ہوم منسٹر ہنس راج اہیر نے کہا کہ مجرمانہ قوانین میں ترمیم ایک مسلسل کارروائی ہے اور اس پر ریاستی حکومتوں سمیت مختلف فریقوں سے صلاح کے بعد ہی کسی طرح کا فیصلہ لیا جاتا ہے۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی سیڈیشن معاملے میں دہلی ہائی کورٹ نے پولیس کے ذریعے دائر چارج شیٹ کو منظور کرنے سے انکار کر دیا تھا اور دہلی حکومت کے وزارت قانون سے اجازت لینے کو کہا تھا۔
ویڈیو: دہلی پولیس نے 2016 میں درج راج دروہ کے معاملے میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر کنہیا کمار اور دوسروں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی ہے۔ اس مدعے پر پروفیسر اپوروانند کا نظریہ۔
دہلی پولیس کمشنر امولیہ پٹنایک نے بدھ کو کہا کہ ، معاملہ آخری دور میں ہے ۔جانچ پیچیدہ تھی کیوں کہ بیان لینے کے لیے ٹیم کو دوسری ریاستوں کا دورہ بھی کرنا پڑا تھا۔
جے این یو کی جانچ کمیٹی نے 9 فروری 2016 معاملے میں عمر خالد کی بے دخلی اور کنہیا کمار پر لگائے گئے 10 ہزار روپے کے جرمانے کو برقرار رکھاہے۔