شکیل رشید لکھتے ہیں: گلزار اعظمی کی موت سے جو ‘خلا’پیدا ہو گیا ہے، بھرنے کا کام شروع ہوگیا، یا شروع کر دیا گیا، ذرا انتظار نہیں کیا گیا۔ لیکن ایک سوال یہ تو اٹھتا ہی ہے کہ کیا فوری طور پر تبدیلیاں ضروری تھیں ؟ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ گلزار صاحب نے جن افراد کو مامور کر رکھا تھا مرکز کو اُن پر اعتبار نہیں تھا، یا مرکز انہیں کام کا نہیں سمجھ رہا تھا ؟ یہ اہم سوال ہیں۔ ابھی مزید سوال سامنے آئیں گے جب جمعیتہ علماء مہاراشٹر کے صدر کا انتخاب ہوگا۔ایک بات یہ بھی کہ؛ مولانا محمود مدنی کا کوئی تعزیتی بیان یا مراسلہ میری نظر سے نہیں گزرا، کیوں؟
سوشلسٹ ذہنیت کے گلزار اعظمی نے نوے سال کی عمر پائی جس میں سے انہوں نے پینسٹھ سال جمعیۃ علماء میں گزارے اور ان ایام میں ان کا شیوہ صرف مظلوموں اور بے قصوروں کی داد رسی کرنا ہی تھا۔
اعظمی کی نگرانی میں جمعیۃ علماء ہند ایک سماجی اور مذہبی تنظیم سے قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم میں بدل گئی۔
عامر، مکمل قرآن اپنے ہاتھوں سے تحریر کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔مریم، عرشیہ، فاطمۃ الزہرا (ہفتم) اریبہ مریم (ہشتم)و حافظ شعیب (نہم) وغیرہ بھی مستقبل میں عربی رسم الخط میں مہارت حاصل کر کے قرآن کو اپنے ہاتھوں سے تحریر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
بی جے پی نے اب اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ملک سال بھر انتخابی بخار میں مبتلارہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہر دوسرے دن ہیجانی مسائل پیدا کیے جاتے ہیں، اور ایک بحث لوگوں پر زبردستی مسلط کی جاتی ہے۔ یہ حجاب پہننے کا مسئلہ ہو سکتا ہے، مسلمان تاجروں کا ہندو عبادت گاہوں کے قریب دکانیں کھولنا یا پھر 1990 میں کشمیری ہندوؤں کے اخراج پر بننے والی فلم کے اوپر گفتگو۔
بی جے پی حامی اور پولرائز کرنے والے اس کے مواد نے فیس بک کے الگورتھم پر سستی شرح پر اشتہارات حاصل کرنے میں مدد کی، جس کی وجہ سے بی جے پی کی رسائی میں میں غیرمعمو لی اضافہ ہوا۔
لوک سبھا میں وقفہ صفر کے دوران کانگریس صدرسونیا گاندھی نے الجزیرہ اور دی رپورٹرز کلیکٹو کی فیس بک الگورتھم سے متعلق رپورٹس کا حوالہ دیا، جن میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ بی جے پی مخالف سیاسی جماعتوں کے مقابلے سستی شرحوں پر سوشل میڈیا کمپنی کو اشتہارات دے رہی اور اپنا پروپیگنڈہ کر رہی تھی۔
سستی شرحوں پرفیس بک نے ہندوستان میں اپنے سب سے بڑے سیاسی کلائنٹ – بھارتیہ جنتا پارٹی کو کم لاگت والے سیاسی اشتہارات کے ذریعے زیادہ ووٹروں تک پہنچنے میں مدد کی۔
فیس بک نے کئی سروگیٹ ایڈورٹائزر کو خفیہ طور پر بی جے پی کی پروپیگنڈہ مہم کو فنڈ کرنے کی اجازت دی،جس کے باعث بنا کسی جوابدہی کے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پارٹی کی رسائی کو ممکن بنایا گیا ۔
خصوصی رپورٹ: مکیش امبانی کی ملکیت والی ریلائنس کی مالی اعانت سے چلنے والی کمپنی نے 2019 کے عام انتخابات اور کئی اسمبلی انتخابات کے دوران فیس بک پر خبروں کی شکل میں بی جے پی کے حق میں ایسے اشتہارات چلائے جو پروپیگنڈہ اور فرضی نیریٹو سے بھرے ہوئے تھے۔
مجھے پورا یقین ہے کہ شاہد یہ جان کر بہت خوش ہو ں گے کہ ان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی ہے۔آج دس سال بعد بھی انہیں یاد رکھنے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ان سے متاثر ہوئے بنا رہنا ایک نہایت ہی مشکل کام تھا۔
شاہد اعظمی کے ماضی کے بارے میں بہت کچھ لکھا پڑھا جاچکا ہے لیکن ان کی خدمات کی اصل اہمیت وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کے مقدمات انہوں نے اس وقت لڑنا شروع کئے تھے جب ان کے اہل خانہ اور دوست احباب بھی ان سے دور ہوگئے تھے۔
یہ چاروں ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے 1 جولائی کو مالیگاؤں میں5 لوگوں کو ماب لنچنگ سے بچایا تھا۔اس معاملے میں پولیس نے 250 لوگوں پرتعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیاہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ پہلے دن سے ہی اس قانون کی مخالفت کر رہا ہے۔ اور ان دنوں پورے ملک میں اس کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ کل مالیگاؤں میں ہوامظاہرہ اسی مہم کا حصہ تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ شاہد جیسا بننا مشکل ہے کیونکہ شاہد نے جو کارنامہ صرف سات سال کی مدت میں انجام دیا وہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ شاہد نے محض سات سال کی مدت میں 17 بےگناہ مسلم نوجوانوں کو آزاد کروایا، جن میں سے زیادہ تر لوگوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔
1993کے بم دھماکو ں کے لیے روبینہ میمن کو صرف اس بنیاد پر سزا ہوتی ہے کہ دھماکوں کے لیے استعمال کی گئی ایک کار اس کے نام پر تھی توسادھوی کو کیوں نہیں سزا مل سکتی؟ مالیگاؤں غصے میں ہے اورغمزدہ بھیمگر مایوس نہیں ہے۔غم اورغصہ اس […]
اس مقدمہ میں ملزمین کو منظم طریقے سے مدد پہنچائی گئی جیسے تحقیقات این آئی اے کوسونپنا پھر اس کے بعد سرکاری وکی ملزمین کے تعلق سے نرمی برتنے کا دباﺅ بنانا اور پھر بعد میں یہ اعتراف کرنا کہ تحقیقات میں خامیاں ہیں ۔
انگریزی متاثر کن زبان ہے، مگر اس کی رسائی محدود ہے۔ علاقائی زبانوں کے صحافی اصلی اثر پیدا کر سکتے ہیں۔ چھوٹے شہروں کے ایسے کئی جاں باز صحافی ہیں، جنہوں نے اپنے حوصلے کی قیمت اپنی جان دےکر چکائی ہیں۔ ہندوستان کا دایاں بازو محاذ طوطے کی […]
واضح رہے کہ مہاراشٹر کے ضلع ناسک میں فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے حساس مالیگاؤں میں 29 ستمبر 2008 کو ہوئے بم دھماکہ میں سات لوگ مارے گئے تھے۔ نئی دہلی: سپریم کورٹ نے 2008 کے مالیگاؤں دھماکہ معاملہ کے ملزم لیفٹننٹ کرنل شری کانت پرساد پروہت کو […]