کمیٹی کے خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ ہندوستان کے قومی انسانی حقوق کمیشن کو 2023 سے قومی انسانی حقوق کے اداروں کے عالمی اتحاد نے زمرہ ‘اے’ میں جگہ نہیں دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک انسانی حقوق کے شعبے میں اچھا کام نہیں کر رہا اس لیے اسے اس درجہ بندی سے محروم رکھا گیا ہے۔
مالی سال 2023-24 کے بجٹ میں اقلیتی امور کی وزارت کے لیے3097 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جبکہ پچھلے سال یہ 5020.50 کروڑ روپے تھے۔
ایک امریکی این جی او کے زیر اہتمام ‘ہندوستان میں مذہبی اقلیتیں’ کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہیٹ کرائم کے زیادہ تر واقعات بی جے پی مقتدرہ ریاستوں میں رونما ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، بہت سے معاملات میں سیاسی اثر و رسوخ کے تحت پولیس متاثرین کی من مانی گرفتاریاں کرتی ہے یا ان کی شکایات درج کرنے سے انکار کرتی ہے۔
ہندوستان میں افغانستان کےسفیرفرید ماموندزی نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ جب مشکل وقت میں افغان شہریوں کو ہندوستانی مدد کی ضرورت تھی، تو ان کی مدد نہیں کی گئی۔اب تک ہندوستان نے افغانستان سے 669 افراد کو نکالا ہے جن میں448 ہندوستانی اور 206 افغان شہری ہیں۔
کوئی نہیں کہہ سکتا کہ لیڈر کےطور پرمنیش تیواری یا سلمان خورشید کےعزائم نہیں ہیں یا اس کو پورا کرنے کے لیے وہ کتاب لکھنے اور اس کے سوا جو کرتے ہیں، اس کی نکتہ چینی نہیں کی جانی چاہیے ۔ لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس کےرہنماؤں کےطور پر انہیں اپنےخیالات کوپیش کرنے کی اتنی بھی آزادی نہیں ہے کہ وہ رائٹر کےطورپر پارٹی لائن سے ذرا سا بھی الگ جا سکیں؟
افغانستان کے دارالحکومت کابل کےایک اخبار کے دو افغان صحافیوں سمیت کئی دوسرے صحافیوں نے طالبان کی حراست میں شدید طور پر تشدد کیے جانے کی بات کہی ہے۔جانکاری کے مطابق، طالبان نے صحافیوں سے کہا کہ خواتین کی تصویریں لینا غیر اسلامی ہے۔
ویڈیو:معروف اداکارنصیرالدین شاہ نے افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کا جشن منا رہے ہندوستانی مسلمانوں کے ایک طبقے کی مذمت کرتے ہوئے اسے خطرناک بتایا ہے۔ نصیرالدین شاہ کےاس بیان پر دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی نے ان سے بات چیت کی۔
افغانستان کے مزار شریف کے رہنے والےقربان حیدری نے اسی سال جے این یو سےپوسٹ گریجویشن مکمل کیا ہے اور 31 اگست کو ان کی ویزا کی میعاد ختم ہونے کے بعد سے وہ بےیقینی کی صورتحال سے گھرے ہوئے ہیں۔افغانستان میں طالبانی تشدد کے شکار اقلیتی طبقہ ہزارہ سے آنے والے حیدری کو ڈر ہے کہ اگر ویزا کی توسیع نہیں ہوئی تو ملک واپس لوٹنے پر ان کی جان خطرے میں ہوگی۔
آر ایس ایس کےسربراہ موہن بھاگوت نے ایک پروگرام میں کہا کہ ہندوؤں اورمسلمانوں کے آباو اجدادایک ہی تھے اور ہر ہندوستانی ہندو ہے۔ ہندولفظ مادر وطن،اجداد اور ہندوستانی تہذیب کے برابر ہے۔یہ دوسرے نظریوں کی توہین نہیں ہے۔ ہمیں مسلم بالادستی کے بارے میں نہیں بلکہ ہندوستانی […]
بی جے پی ایم ایل اے رام کدم نےمعروف شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر سے ان کے اس تبصرے کو لےکر ان سے معافی کا مطالبہ کیا ہے، جس میں انہوں نے آر ایس ایس کاموازنہ مبینہ طور پر طالبان کے ساتھ کیا تھا۔ اس کے بعد اختر کے ممبئی واقع گھر کے باہر سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
ویڈیو: طالبان نے ایک بار پھر سے افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔اس موضوع پر عام و خاص سب اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ اداکار نصیرالدین شاہ نے طالبان کی حمایت کرنے والے ہندوستانی مسلمانوں کی شدید نکتہ چینی کی ہے۔ انہوں نے ایک ویڈیو جاری کیا ہے،جو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہا ہے۔ان کے اس بیان پر دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ ایک مسلمان کے طور پر ہمارا حق ہے کہ اگر کشمیر میں، ہندوستان میں یا کسی دوسرے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ظلم کیا جاتا ہے تو ہم کہیں گے کہ انہیں حق دینا چاہیے۔ ہم نے پہلے بھی کہا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی کہیں گے، لیکن ہم کوئی فوجی آپریشن نہیں چلائیں گے یا کسی ملک کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے۔ یہ ہماری پالیسی نہیں ہے۔
ویڈیو: گزشتہ دنوں ہندوستان کے وزارت خارجہ نے طالبان کےنمائندے سے ملاقات کی جانکاری دی۔ وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرکے بتایا کہ قطر میں ہندوستان کے سفیر دیپک متل نے طالبان کے سیاسی دفتر کےسربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی سے ملاقات کی۔اس موضوع پر ہارڈ نیوز کےمدیر سنجے کپور اور افغانستان میں ہندوستان کےسابق سفیر وویک کاٹجو سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
افغانستان کےمغربی صوبہ ہرات میں گورنر دفتر کے باہر لگ بھگ تین درجن خواتین نےمظاہرہ کیا۔ ریلی کی آرگنائزرس نے کہا کہ قومی اسمبلی اور کابینہ سمیت نئی سرکار میں خواتین کوسیاسی حصہ داری ملنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خواتین کے کام کرنے کے اختیار پر طالبان حکومت سے واضح جواب نہ ملنے سےمایوس ہوکر سڑکوں پر اتری ہیں۔
افغانستان میں طالبان کا عروج اور ان کی فتح ملک کے دیہاتوں میں رہنے والے غریب طبقات کی مرہون منت ہے۔ افغانستان کی مغربی طرز کی اشرافیہ حکمرانی میں ناکام رہی۔ وہ افغانستان سنبھال نہ سکی۔ اگر وہ انصاف پہ مبنی معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہوتے، تو طالبان کی فتح ناممکن تھی۔
گو کہ افغانستان میں طالبان کی فوجی فتح کے بعد اقلیتوں کے ساتھ ابھی تک کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، مگر ان کے بیس سال قبل کے رویے اور نظام حکومت نے اقلیت کیا اکثریت سبھی کو تذبذب میں مبتلا کر کے ر کھ دیا ہے۔ اسی لیے جس بھی افغانی کے پاس وسائل ہیں، وہ جہاں بھی ممکن ہو سکتا ہے، ہجرت کر کے وہاں جا رہا ہے۔
سینئر صحافی کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے افغانستان کےمقبول چینل ٹولو ٹی وی کےچیف سعد محسنی نے کہا کہ طالبان کے لیے تو چیلنج اب شروع ہواہے کیونکہ اسے حکومت کرنا ہے اور اس بڑی ذمہ داری کے لیے ضروری مہارت اورخصوصیات ان میں ندارد ہیں۔
ویڈیو: جب سے طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھالا ہے، رائٹ ونگ تنظیموں اور آئی ٹی سیل کے ذریعےہندوستان میں اسلاموفوبیا کا لگاتار پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور ان سب کے پیچھے ہندوستانی مسلمانوں کےتئیں جوابدہی طے کی جا رہی ہے۔ اس موضوع پر ڈاکٹر رام پنیانی سے مکل سنگھ چوہان کی بات چیت۔
سال2010 سے افغانستان کے صوبہ فاریاب کی نمائندگی کرنے والی ایم پی رنگینہ کار گر نے کہا ہے کہ طالبان کے قبضہ کے پانچ دن بعد 20 اگست کو وہ استنبول سے دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ہوائی اڈے پہنچی تھیں، لیکن انہیں وہیں سے واپس بھیج دیا گیا۔
ویڈیو: ہندوستان نے اب تک طالبان کو لےکر کچھ نہیں کہا ہے۔ سرکار نے نہ کابل میں طالبان کے خلاف کوئی بیان دیا اور نہ ہی ایسی کوئی بات کہی ہے، جس سے ظاہر ہو کہ ہندوستان بھی روس یا چین کی طرح کابل میں طالبان کو قبول کر لےگا۔ حکومت ہند کو اس بارے میں اپنا رخ واضح کرنا چاہیے۔
ویڈیو: 20 سال بعد طالبان نے ایک بار پھر افغانستان پر قبضہ کر لیا ہے، جس سے وہاں کےشہری دہشت میں ہیں اور ملک چھوڑکر بھاگ رہے ہیں۔ دی وائر نے دہلی آئے وہاں کے کئی شہریوں سے بات کی۔ ان میں سے کئی ایسے بھی تھے، جن پر طالبان نے حملہ کیا تھا۔
طالبان کے قبضہ میں آنے کے بعدافغانستان کو اب ایک شوریٰ کونسل کے ذریعےچلایا جاسکتا ہے، جس میں اسلامی گروپ کے رہنماہیبت اللہ اخون زادہ سپریم لیڈر ہوں گے۔
وقت آگیا ہے کہ افغانستان میں اب تاریخ کو آرام کا موقع دےکر کسی بیرونی مداخلت کے بغیر اقتدار افغانوں کے حوالے کیا جائے اور طالبان کو تسلیم کرکے ان کو سفارتی سطح پر انگیج کرکے ان کو باور کرایا جائے کہ ملک اور مدرسہ کو چلانے میں واضح فرق ہے۔
افغانستان پر قبضہ کےبعد منگل کو طالبان نے پہلی پریس کانفرنس کی، جہاں طالبان کے ترجمان ذبیح الله مجاہد نے کہا کہ وہ دوسرے ممالک کے ساتھ پرامن رشتہ چاہتے ہیں۔
افغانستان پر طالبان کے قبضہ پر ملالہ یوسف زئی نے کہا ہے کہ عالمی، علاقائی اور مقامی طاقتوں کو فوراً جنگ بندی کامطالبہ کرنا چاہیے۔ فوراً انسانی امداد فراہم کرائیں اور مہاجرین اور شہریوں کی حفاظت کریں۔
ذات پات ایک ایسی رخنہ اندازی ہے جو معاشرےکی تعمیر وتشکیل نہیں ہونے دیتی۔ ملک بن کر بھی نہیں بن پاتا کیونکہ ہم ایک دوسرے کے لیے جوابدہ نہیں ہوتے۔ اتحادیااخوت کی عدم موجود گی میں سماجی ورثےکی تعمیر بھی نہیں ہو پاتی۔
سیاست داں اور ارباب اقتدار جہاں ایک طرف اپنے آپ کو امبیڈکر کا سچا ‘مقلد’ بتاتے ہیں وہیں دوسری طرف اقلیتی طبقات کی حق تلفی کرنے سے بھی وہ گریز نہیں کرتے۔
کانگریس کے سینئر رہنماسلمان خورشید نے راجستھان میں پارٹی کے نومنتخب کونسلرز کےاعزاز میں منعقد ایک پروگرام میں کہا کہ ہم خوش قسمت ہیں ہیں کہ غیر مسلم ہمیشہ ہمارے خدشات کو اٹھا تے رہے ہیں۔
کئی سال پہلےپاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض نے لکھا تھا کہ ‘تم بالکل ہم جیسے نکلے،اب تک کہاں چھپے تھے بھائی۔ وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن ، جس میں ہم نے صدی گنوائی، آخر پہنچی دوار تمہارے…ملک کے آج کے حالات میں یہ مصرعے سچ کے کافی قریب نظر آتے ہیں۔
ویڈیو: گزشتہ25 مئی کو امریکہ میں ایک پولیس افسرنے ایک سیاہ فام شخص کے گلے کو گھٹنوں سے کئی منٹ تک دبائے رکھا تھا، جس کہ وجہ سے اس کی موت ہو گئی تھی۔اس کے بعد سے نسلی تعصب کے خلاف امریکہ سمیت مختلف ممالک میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ اس مدعے پر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
ہندوستانی آئین کے 70 سال مکمل ہونے پرملک کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ہستیوں نے اتوار کو ایک خط جاری کر واضح سوال کیا کہ کیا ‘آئین صرف انتظامیہ کے لیے ضابطوں کی ایک کتاب ہے؟
شہریت قانون کو لےکر 2003 اور اس کے بعد ہوئی بحث میں نہ صرف کانگریس اور لیفٹ بلکہ بی جے پی رہنماؤں اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن اڈوانی نے بھی مذہبی طورپر مظلوم پناہ گزینوں کو لےکرمذہب کی بنیاد پر جانبداری نہ کرنے کی پیروی کی تھی۔
ہمارے لبرل صحافی اور روشن خیال دانشوران فاشزم اورکمیونلزم کے خلاف اپنی لڑائی کو مسلمانوں کے کندھوں پر رکھ کر کیوں لڑنا چا ہتے ہیں؟ ڈر کو مسلمانوں کے ساتھ کیوں چپکا دینا چاہتے ہے؟ جہاں تک مسلمانوں کے ڈر جانے کا سوال ہے تو یہ محض ایک فیک نیوز ہے۔ متھ ہے۔ اور کچھ نہیں۔ مسلمان فکر مند ضرور ہیں، خوف زدہ با لکل نہیں۔تقسیم کے بعد جن مسلمانوں نے پاکستان کو ٹھکرا دیا کم از کم ان کے بارے میں تو ایسا ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔
کسی بھی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں بھولے سے بھی مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا۔کانگریس نے تو انتخابی منشور کی رسم اجراء کی تقریب میں غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل جیسے قدآور لیڈروں کو بھی دوررکھا۔ بہار کی راشٹریہ جنتا دل ،جس کی پوری سیاست مسلمانوں اوریادو پر منحصر ہے اس نے بھی اپنے منشور میں ایک جگہ بھی مسلم لفظ نہیں لکھا۔
2019 میں بی جے پی کی مہم خصوصی طور پر ہندو اکثریت کے لیے ہے۔ پارٹی ان کے خوف اور عدم تحفظ کے احساسات کو بنیاد بنا کر ووٹ مانگ رہی ہے۔ اسی لیے امت شاہ مسلمانوں کو ‘دیمک’ بتا چکے ہیں، آدتیہ ناتھ بجرنگ بلی کو علی کے بالمقابل کھڑا کر چکے ہیں اور مودی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مغربی بنگال میں ہندو ‘جئے شری رام‘ کا نعرہ بھی بلند نہیں کر سکتے۔
آج ہندوستانی سیاست ایک ایسے دور میں ہے جب کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلم کمیونٹی کی بات نہیں کرنا چاہتی۔ وہ سیاسی طور پر اچھوت بنا دئے گئے ہیں۔ اب ان کا استعمال اکثریتی آبادی کو ووٹ بینک میں تبدیل کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔
مبینہ گئورکشا مہم سے صرف مسلمانوں کا ہی نقصان نہیں ہوا ہے، ہندوؤں کا بھی ہوا ہے۔مویشی کی قیمت آدھی رہ گئی ہے۔ اس سے پریشانی بڑھی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں گئو رکشا نے نام پر ہونے والی لنچنگ اور قتل معاملوں کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے کہا کہ فرقہ وارانہ بیان بازی پر پابندی لگائی جائے اور حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
راہل گاندھی کے بارے میں ابھی تک رائے نہیں بدلی ہے۔ ان کو اب بھی یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ نریندر مودی کےمتبادل ہیں۔
سرکاری وکیل اجیت کمار نے کورٹ میں خود یہ بات قبول کی کہ درخواست گزار کی طرف سے حج کمیٹی کو لےکر جو سوال اٹھائے گئے ہیں، وہ صحیح ہیں۔