میڈیا میں خوف کا ماحول ہے: سینئر صحافی این رام
دی وائر سے بات کرتے ہوئے دی ہندو کے چیئر مین اور سینئر صحافی این رام نے رافیل ڈیل اور اس کے میڈیا کوریج کو لےکر مودی حکومت کی حالیہ دھمکیوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا
دی وائر سے بات کرتے ہوئے دی ہندو کے چیئر مین اور سینئر صحافی این رام نے رافیل ڈیل اور اس کے میڈیا کوریج کو لےکر مودی حکومت کی حالیہ دھمکیوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا
سرکاری ذرائع نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال کے ذریعے’چوری’ لفظ کا استعمال ممکنہ طور پر زیادہ سخت تھا اور اس سے بچا جا سکتا تھا۔
ہم بھی بھارت کے اس ایپی سوڈ میں سنیےرافیل معاملے کی شنوائی کے دوران مرکزی حکومت کے ذریعے دی ہندو کی رپورٹ کو چوری کے دستاویز کے حوالے سے چھاپنے کے الزام اور اخبار پر آفیشیل سیکریٹس ایکٹ کے تحت کارروائی کی بات پر دی وائر کے بانی مدیر ایم کے وینو اور وکیل صارم نوید سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
رافیل معاملے کی سماعت کے دوران مرکزی حکومت کے ذریعے دی ہندو کی رپورٹ کو چوری کے دستاویز کے حوالے سے چھاپنے کے الزام اور اخبار پر کارروائی کی بات کہنے کی ایڈیٹرس گلڈ سمیت مختلف پریس تنظیموں نے تنقید کی ہے۔
سیکریٹ آؤٹ ہونے پر ہی گھوٹالہ آؤٹ ہوتا ہے۔ گھوٹالہ آؤٹ ہونے پر فائل کو سیکریٹ بتانے کا فارمولہ پہلی بار آؤٹ ہوا ہے۔ وزیر اعظم کو ہر بات میں خود کو چوکیدار نہیں کہنا چاہیے۔ خود کو چوکیدار اور پردھان سیوک کہتےکہتے بھول گئے ہیں کہ وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں، اس لئے جاگتے رہو، جاگتے رہو بولکر کچھ بھی بول جاتے ہیں۔
د ی ہندو کے چیئر مین اور سینئر صحافی این رام نے کہا کہ رافیل ڈیل سے جڑی جانکاریاں دباکر یا چھپاکر رکھی گئی تھیں جس کی وجہ سے ہی ان سے متعلق دستاویز مفاد عامہ کے لئے شائع کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اس کو چوری ہو گئے دستاویز کہہ سکتے ہیں لیکن ہم اس کو لےکر فکرمند نہیں ہیں۔
رافیل دستاویز کی چوری پر کانگریس صدر نے کہا،دو کروڑ روزگار غائب ہو گیا۔ کسانوں کے بیمہ کا پیسہ غائب ہو گیا۔ 15 لاکھ روپیہ غائب ہو گیا۔ اب رافیل کی فائلیں غائب ہو گئیں۔
رافیل ڈیل پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر ریویو پیٹیشن پر سماعت کے دوران درخواست گزار پرشانت بھوشن کے دی ہندو کی خبر کا حوالہ دینے پر اٹارنی جنرل نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ مضمون چوری کئے گئے خفیہ دستاویزوں پر مبنی ہے، جو پرائیویسی کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔
صحافیوں کی اپنی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، لیکن رپورٹنگ کرتے وقت ان کو اس سے دور رہنا ہوتا ہے-کیونکہ رپورٹنگ ان کی حب الوطنی کا آئینہ نہیں ہے، بلکہ اپنے قارئین کے ساتھ پیشہ ورانہ ڈیل کا حصہ ہے۔
کیا آپ پبلک کے طور پر ان چینلوں میں پبلک کو دیکھ پاتے ہیں؟ ان چینلوں نے آپ پبلک کو ہٹا دیا ہے۔ کچل دیا ہے۔ پبلک کے سوال نہیں ہیں۔ چینلوں کے سوال پبلک کے سوال بنائے جا رہے ہیں۔
کانگریس سمیت 21 اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے کہا گیا ہےکہ پلواما دہشت گردانہ حملے کے بعد حکمراں جماعت کے رہنماؤں نے جوانوں کی شہادت پر سیاست کی جو باعث تشویش ہے۔
صحافی پریہ رمانی نے می ٹو مہم کے تحت سابق مرکزی وزیر ایم جے اکبر پر جنسی استحصال کا الزام لگایا تھا، جس کے بعد اکبر نے ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرایا تھا۔
سپریم کورٹ کی بنچ اس بات کو بھی طے کرے گی کہ اس معاملے کی شنوائی کھلی عدالت میں ہونی ہے یا نہیں۔ عام آدمی پارٹی کے رہنما سنجے سنگھ کے ذریعے دائر ریویو پیٹیشن کو بھی اسی میں شامل کیا گیا ہے۔
گزشتہ 14 دسمبر کے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے رافیل ڈیل سے متعلق دائر سبھی عرضیوں کو خارج کر دیا تھا اور کورٹ کی نگرانی میں جانچ کی مانگ ٹھکرا دی تھی۔
آر بی آئی میں مالی سال جولائی سے جون کی مدت میں ہوتا ہے اور عموماً وہ اگست میں اکاؤنٹ بند ہونے کے بعد ہی حکومت کو ڈیویڈنڈ دیتی ہے۔ حالانکہ، آر بی آئی نے عبوری ڈیویڈنڈ کی رقم طے کرنے کے لئے پہلی بار اپنے ششماہی اکاؤنٹس کا آڈٹ کرایا ہے۔
18 دسمبر 2018 کو اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے راجیہ سبھا میں ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ نوٹ بندی کے دوران بھارتیہ اسٹیٹ بینک کے تین افسر اور اس کے ایک گراہک کی موت ہو گئی تھی۔
بدھ کو پارلیامنٹ میں رافیل پر اپنی رپورٹ پیش کرکے کیگ نے دعویٰ کیا کہ یہ رافیل ڈیل یو پی اے کی ڈیل کے مقابلے 2.86 فیصد سستی ہے۔ حالانکہ کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعت کیگ رپورٹ کی تنقید کر رہی ہیں۔
رافیل کو لےکر مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ نئی ڈیل یو پی اے حکومت سے بہتر ہے اور اس کی وجہ سے ہندوستان کو طیارے جلدی مل جائیںگے۔ حالانکہ وزارت دفاع کے تین سینئر افسروں نے حکومت کے ان دعووں سےاتفاق نہیں کیا تھا۔
ویڈیو: میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سنیے رافیل تنازعہ اور مایاوتی بنام میڈیا پر کامن کاز کے ڈائریکٹر وپل مریدول، صحافی اسمتا گپتااور اجئے آشیرواد سے ارملیش کی بات چیت۔
آر بی آئی کے اعداد و شمار کے مطابق سائبر دھوکہ دھڑی کے ذریعے16-2015 میں بینک اکاؤنٹس سے ایک لاکھ روپے سے زیادہ نکالی گئی رقم کے اعداد و شمار 40.20 کروڑ روپے سے بڑھکر18-2017میں 109.56 کروڑ روپے ہو گئے ہیں۔
منگل کو کیگ کی پارلیامنٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ وزارت خزانہ نے مالی سال 18-2017 کے دوران مختلف مد میں مختص بجٹ سے 1157 کروڑ روپے زیادہ خرچ کیے ہیں۔
اخبار نے وزیر اعظم کی تقریر کو اتنے ادب سے چھاپا ہے جیسے پورا اخبار ان کا ٹائپسٹ ہو گیا ہو۔2019 میں 2030 کی ہیڈلائن لگ رہی ہے۔ آخر کیوں اخبار چھپکر آتا ہے، خبر چھپی ہوئی نہیں دکھتی ہے۔
کانگریس کو ابھی بھروسہ نہیں ہے کہ وہ لوک سبھا انتخاب میں 100 سیٹوں سے زیادہ لا پائے گی۔ ایسے میں امید کی کرن یہی ہے کہ رائے دہندگان پارلیامنٹ میں کی گئی مودی کی تقریر سے متاثر نہ ہوں۔
آخر مودی حکومت فرانس کی دونوں کمپنیوں کو بد عنوانی کی حالت میں کارروائی سے کیوں بچا رہی تھی؟ اب مودی جی ہی بتا سکتے ہیں کہ بد عنوانی ہونے پر سزا نہ دینے کی مہربانی انہوں نے کیوں کی۔ کس کے لئے کی۔
ویڈیو: ایک میڈیا رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ رافیل ڈیل میں پی ایم او کے دخل پر وزارت دفاع نے اعتراض کیا تھا۔ دی وائر کے ذریعے بھی اس سال جنوری میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ وزارت دفاع کے رافیل ڈیل کی شرطوں کو لے کر وزیراعظم دفتر سمجھوتہ کر رہا تھا۔ اس معاملے پر دی وائر کے بانی مدیر ایم کے وینو سے اجئے آشیرواد کی بات چیت۔
دی ہندو میں این رام نے جو نوٹ چھاپا ہے وہ کافی ہے وزیر اعظم مودی کے کردار کو صاف صاف پکڑنے کے لئے۔ یہی نہیں حکومت نے اکتوبر 2018 میں سپریم کورٹ سے بھی یہ بات چھپائی ہے کہ اس ڈیل میں وزیر اعظم دفتر بھی شامل تھا۔
دی ہندو اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ فرانس حکومت کے ساتھ رافیل سمجھوتے کو لے کر وزارت دفاع کے ساتھ پی ایم او بھی متوازی بات چیت کر رہا تھا ۔ دی وائر نے بھی اس سال جنوری میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ وزارت دفاع کے رافیل معاہدے کی شرطوں کو لے کر پی ایم او سمجھوتہ کر رہا تھا۔
رافیل معاہدے میں ٹکنالوجی ٹرانسفر سے قیمت میں آئے فرق، ہندوستان کے لئے خاص طورپر کی جانے والی تبدیلیوں اور یوروفائٹر کی تجویز سے جڑے سوال اب بھی باقی ہیں۔
سابق وزیر دفاع اور گووا کے وزیر اعلیٰ منوہر پریکر نے راہل گاندھی سے ہوئی ملاقات کے بارے میں کہا کہ 5 منٹ کی بات چیت میں رافیل سودے کو لے کر کوئی بات چیت نہیں ہوئی ۔
چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑا نے واضح کیا کہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے ذریعے ای وی ایم کی تنقید سے ہم پریشان ہونے والے نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن ای وی ایم اور وی وی پی اے ٹی کا استعمال جاری رکھے گا۔
سید شجاع نے دعویٰ کیا تھا کہ ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے اور 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں دھاندلی ہوئی تھی ۔
الیکشن کمیشن نے دہلی پولیس کو لکھے خط میں کہا ہے کہ سید شجاع نے مبینہ طور آئی پی سی کی دفعہ 505(1)کی خلاف ورزی کی ہے ۔
لندن میں ہوئی ہیکر سید شجاع کی پریس کانفرنس کو دو حصے میں دیکھا جانا چاہیے۔ ایک ای وی ایم کو چھیڑنے کی تکنیک کے طور پر ، جس پر ہنسنے والوں کے ساتھ ہنسا جا سکتا ہے، مگر دوسرا حصہ قتل کے سلسلے کا ہے۔ ایک کمرے میں ای وی ایم چھیڑنے کی تکنیکی جانکاری رکھنے والے 11 لوگوں کو بھون دیا جائے، یہ بات فلمی لگ سکتی ہے تب بھی اس پر ہنسا نہیں جا سکتا۔
سال 2007 میں اس وقت کی یو پی اے حکومت نے رافیل کی قیمت 643.26 کروڑ روپے فی طیارہ طے کی تھی۔ سال 2015 میں نریندر مودی کے ذریعے کئے گئے سودے کے بعد یہ رقم بڑھکر 1037.21 کروڑ روپے فی طیارہ ہو گئی۔ پچھلی حکومت میں 126 طیاروں کا سودا کیا گیا تھا وہیں مودی حکومت نے اس کو کم کرکے 36 طیارہ کر دیا۔
آر ٹی آئی کے ذریعے وزارت داخلہ سے ملے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مئی 2014 سے مئی 2017 تک صرف جموں کشمیر میں 812 دہشت گردانہ واقعات ہوئے ہیں۔ ان میں 62 شہری مارے گئے جبکہ 183 جوانوں کی موت ہوئی ہے۔
آئی آر ڈی اے آئی کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2018 تک فصل بیمہ کے تحت کام کرنے والی سرکاری کمپنیوں کو 4085 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اس میں سے سب سے بڑا نقصان اے آئی سی کو ہوا ہے۔
ایک آر ٹی آئی کے جواب میں سی اے جی نے کہا،’یہ اطلاع آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 8(1) (سی )کے تحت نہیں دی جا سکتی کیونکہ ایسا کرنا پارلیامنٹ کے خصوصی اختیارات کو نقصان پہنچانا ہوگا۔‘
حکومت بار بار ‘ارجنسی’یعنی فوری ضرورت کا حوالہ دے رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 36 رافیل میں پہلا طیارہ ستمبر 2019 میں آئےگا۔ 36 آتےآتے 2022 لگ جائیںگے۔ یو پی اے کی طرح اگر 126 طیاروں کی ڈیل ہوتی تو 2030 لگا دیتے مودی جی۔ یہ اندازہ نہیں، بلکہ calculated سال ہے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال سے 17 جنوری تک حلف نامہ دائر کرنے کے لئے کہا ہے۔
غور طلب ہے کہ وزارت خزانہ کے ایک سینئر افسر نے جمعرات کو کہا تھاکہ 2000 کے نوٹوں کی چھپائی ریزرو بینک آف انڈیا نے’ کم سے کم‘ کر دی ہے۔