اتر پردیش: کیا اکثریت پسند ہندوستان میں دہشت گردی کے جھوٹے الزامات انتخابی مسئلہ بن سکتے ہیں؟
دہشت گردی کے فرضی مقدمات میں پھنسے لوگوں کے لیے لڑنے والے سماجی کارکن اور رہائی منچ کے جنرل سکریٹری راجیو یادو اتر پردیش کے اعظم گڑھ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
دہشت گردی کے فرضی مقدمات میں پھنسے لوگوں کے لیے لڑنے والے سماجی کارکن اور رہائی منچ کے جنرل سکریٹری راجیو یادو اتر پردیش کے اعظم گڑھ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
بنگلورو واقع کے ایس آر ریلوے اسٹیشن پر قلیوں کےریسٹ روم میں طویل عرصے سےمسلمان کارکن نماز پڑھ رہے تھے۔ اب ہندو جن جاگرتی سمیتی نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے اس کو ‘سازش کا حصہ’ قرار دیا ہے۔
یہ ملک کے لیےانتہائی افسوسناک ہے کہ اس کےسابق نائب صدر کو بھی مذہبی آئینے میں دیکھا جانے لگاہے۔ان کے بیانات سےسبق حاصل کرنے اور آئینے میں حقیقت کا چہرہ دیکھنے کے بجائے ان سے چاپلوسی کی امید کی جارہی ہے!
سال 2021 میں اقلیتوں کے خلاف ہیٹ کرائم میں اضافہ ہوا، لیکن میڈیا خاموش رہا۔ اس سال کی ابتدا اور زیادہ نفرت سے ہوئی، لیکن اس کے خلاف ملک بھر میں آوازیں بلند ہوئی۔ اقلیتوں اور خواتین سے نفرت کی مہم کا نشانہ بننے کے بعد میں اپنے آپ کو سوچنے سے نہیں روک پاتی کہ کیا اب بھی کوئی امید باقی ہے؟
واقعہ چھتیس گڑھ کے کوربا ضلع کا ہے۔اس واقعہ سےمتعلق مبینہ وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آگ کے چاروں طرف کھڑے ہو کر کچھ لوگ ملک کو ہندو راشٹر بنانے اور مسلمانوں کو کام نہ دینے کا عہد لے رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق، کلیدی ملزم ہندو تنظیم سے وابستہ ہے۔
مسلم خواتین کو نشانہ بنانے کے پس پردہ ، اس سازش کا مقصد یہ ہے کہ اس قوم کو اس قدر ذلت دی جائے، ان کےعزت نفس کو اتنی ٹھیس پہنچائی جائے کہ تھک ہارکر وہ ایک ایسی’شکست خوردہ قوم’کے طور پر اپنے وجود کو قبول کر لیں، جوصرف اکثریت کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے کو مجبور ہے۔
معاملہ چھتیس گڑھ کےسرگجا ضلع کا ہے۔سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ویڈیو میں کئی گاؤں والے ایک جگہ پر مسلمانوں کا سماجی اور معاشی بائیکاٹ کرنے کا حلف لیتے ہوئےنظر آ رہے ہیں۔ سرگجا کےپولیس سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ پولیس نے معاملے کی جانچ شروع کر دی ہے۔ویڈیو میں نظر آنے والے افراد کی شناخت کے بعد مقدمہ درج کیا جائے گا۔
معاملہ اُڈپی کےگورنمنٹ ویمنس پی یو کالج کا ہے۔ چھ مسلم طالبات نے الزام لگایا ہےکہ پرنسپل انہیں کلاس میں حجاب پہننے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں اُردو، عربی اور بیری زبان میں بات کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ پرنسپل کا کہنا ہے کہ طالبات کیمپس میں حجاب پہن سکتی ہیں،لیکن کلاس روم میں اس کی اجازت نہیں ہے۔
بی جے پی رکن پارلیامنٹ تیجسوی سوریہ نے اُڈپی میں ایک پروگرام کے دوران کہا کہ ہندو مذہب چھوڑ کر گئے لوگوں کی واپس اسی مذہب میں’ٹیپو جینتی’پر ہونی چاہیے اور یہ’گھر واپسی’ہندوؤں کی ذمہ داری ہے۔سوریہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے مسلمانوں کو ہندو مذہب اختیار کرنا چاہیے۔ پاکستان متحدہ ہندوستان کےنظریےمیں شامل ہے۔
پچھلےسات سالوں میں باربارمسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف تشدد کے اشارے کیےگئے ہیں اور بڑے پیمانے پر ان کےحق میں دلائل دیے گئے ہیں۔ جب آپ آبادی کنٹرول کے نام پر قانون بناتے ہیں، اپنی بیٹیوں کی دوسرے مذاہب میں شادی کو روکنے کے نام پر، مسلم خواتین کو ان کے مردوں سے بچانے کے نام پر، آپ ان کے خلاف تشدد کے لیے زمین تیار کرتے ہیں۔
ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے یہ بھی کہا کہ ضلع انتظامیہ کا کھلی جگہوں پر نماز کے لیے کچھ جگہوں کو محفوظ رکھنے کاقبل کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے اور ریاستی حکومت اب اس مسئلے کا پرامن حل تلاش کرے گی۔ گڑگاؤں میں پچھلے کچھ مہینوں میں، کچھ ہندو تنظیموں کے ارکان ان جگہوں پر جمع ہوتے ہیں اور ‘بھارت ماتا کی جئے’ اور ‘جے شری رام’کے نعرے لگاتے ہیں جہاں مسلمان نماز ادا کرتے ہیں۔
گڑگاؤں مسلم کاؤنسل نے کہا کہ دو دہائیوں سے زیادہ سے کھلی جگہوں پر جمعہ کی نماز ادا کی جا رہی ہے، کیونکہ مسلمانوں کے پاس مطلوبہ تعدادمیں مسجد نہیں ہے۔ مئی 2018 کے بعد شہر میں پہلی بار نمازمیں خلل کی اطلاع ملی تھی، جس کے بعد سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی کئی کوششیں ہوئی ہیں۔
مرادآباد کےعیدگاہ علاقے کےرہائشی ہر رات اپنے مسائل پر گفت و شنیدکے لیے اکٹھا ہوتے ہیں۔اس دوران سیاسی اور اقتصادی مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔
ایودھیاتنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدجن کو لگتا تھا کہ اس کے نام پرفرقہ وارانہ تعصب کی بلا اب ان کےسر سے ہمیشہ کے لیے ٹل جائےگی،اور سیاسی طور پراس کا غلط استعمال بند ہو جائےگا، ملک کی سیاسی قیادت ان کی معصوم امیدوں پر پانی پھیرنے کو تیار ہے۔
سنیکت ہندوسنگھرش سمیتی نےانتظامیہ کو ایک الٹی میٹم جاری کرکے کہا کہ وہ اگلے ہفتے سےشہر میں کسی بھی عوامی جگہ پر نماز کی اجازت نہیں دیں گے۔جمعہ کو گڑگاؤں کے سیکٹر37 میں مظاہرین کی طرف سے مسلسل نعرےبازی اور امن وامان میں خلل پڑنے کے اندیشہ کو دیکھتے ہوئے پولیس نے 10 لوگوں کو حراست میں لیا اور بعد میں ایک کو گرفتار بھی کیا۔
گیارہ نومبر کو غازی آباد کے لونی بارڈر پر ہوئے‘انکاؤنٹر’میں سات مسلمانوں کو غیرقانونی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کرنے سے پہلے گولی چلائی گئی تھی، جو تمام لوگوں کے پاؤں پر تقریباً ایک ہی جگہ لگی تھی۔ معاملے میں لونی تھانے کے ایس ایچ او کو سسپنڈ کر دیا گیا ہے اور جانچ کےآرڈر دیے گئے ہیں۔
پیپلزیونین فار سول لبرٹیزکرناٹک، آل انڈیا لائرزایسوسی ایشن فار جسٹس، آل انڈیا پیپلزفورم اور گوری لنکیش نیوز ڈاٹ کام نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں انہوں نے فرقہ وارانہ کشیدگی کے 71 معاملوں کی پہچان کی ہے۔ یہ تمام معاملے جنوری 2021 سے اگست تک کے ہیں۔
ویڈیو: گزشتہ13نومبر کو امراوتی میں بی جے پی کی جانب سے بلائے گئے بند کے دوران جگہ جگہ بھیڑ نے پتھراؤ کیا تھا۔ مسلمانوں کی دکانوں کو آگ لگا کر تباہ کر دیا گیا۔ ہندو مندروں کو بھی مبینہ طور پر نقصان پہنچایا گیا تھا۔
گڑگاؤں میں پچھلے کچھ مہینوں سے رائٹ ونگ گروپ کھلے میں نمازکی مخالفت کر رہے ہیں۔گوردوارہ کمیٹی ساتھ ہی اکشے یادو نام کے ایک دکان مالک نے بھی نماز کے لیے اپنی خالی جگہ دینے کی پیش کش کی ہے۔
ویڈیو: گزشتہ پانچ نومبر کو بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے کارکنوں نے گڑگاؤں کے سیکٹر12اے میں اس جگہ پر گئووردھن پوجا کااہتمام کیا تھا، جہاں ہر جمعہ کو نماز ادا کی جاتی تھی۔ یہ کارکن پچھلے کچھ وقتوں سےیہاں نماز کی مخالفت کر رہے تھے۔ دی وائر نے دنیش بھارتی سے بات کی، جو گڑگاؤں میں نماز کو روکنے کےالزام میں کئی بار جیل جا چکے ہیں۔ دنیش بھارت ماتا واہنی کے رکن ہیں اور وشو ہندو پریشد سے بھی وابستہ ہیں۔
شدت پسند ہندوتوا لیڈریتی نرسنہانند کے پیروکاریوٹیوبرسریش راجپوت نے دیوالی پر دہلی کےوزیراعلیٰ اروند کیجریوال کےمبینہ ہندو مخالف خیالات کی مخالفت کرنے کے لیے اسی دن اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کیا۔اس ویڈیو میں راجپوت کو وزیر اعلیٰ کیجریوال کے لیےغیر مہذب زبان کا استعمال کرتے اور انہیں گولی مارنے کی دھمکی دیتے سنا جا سکتا ہے۔
دہلی کے براڑی میں سنت نگر علاقے کا معاملہ۔ پولیس کے مطابق، ویڈیو میں ملزم خود کو بجرنگ دل کا رکن بتا رہا ہے۔ اس کو دیوالی کے دن بریانی کی دکان کھولنے پر مبینہ طور پر ایک مسلم دکاندار کو دھمکاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ کسی تہوار پر دکان نہ کھولیں۔
گڑگاؤں میں پچھلے کچھ مہینوں سےہندوتوا گروپ کھلے میں نماز کی مخالفت کر رہے ہیں۔انتطامیہ نے گزشتہ تین نومبرکو 37طے شدہ مقامات میں سے آٹھ پر نماز ادا کرنے کی منظوری کو منسوخ کر دیا ہے ۔ اس بیچ سنیکت ہندو سنگھرش سمیتی نے سیکٹر12اے میں اس مقام پرگئووردھن پوجا کا اہتمام کیا ہے، جہاں پچھلے کچھ دنوں سے نماز کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
شدت پسندہندوتوا لیڈریتی نرسنہانند غازی آبادواقع ڈاسنہ دیوی مندر کے مہنت ہیں۔ وہ مسلم مخالف بیان بازیوں کو لےکرسرخیوں میں رہتے ہیں۔اس مہینے کی شروعات میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ ایک مسلم لڑکے کو ان کی جاسوسی کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اسی سال مارچ میں ڈاسنہ مندر میں ایک مسلم لڑکے کے پانی پینےکی وجہ سے اس کی پٹائی کی گئی تھی۔ جس شخص نے لڑکے کو پیٹا تھا، نرسنہانند نے اس کی حمایت کی تھی۔
ویڈیو: گڑگاؤں کے سیکٹر47 میں ہر جمعہ کونماز کے لیےمسلمان جمع ہوتے ہیں۔ وہ مئی2018 سے یہاں کی ایک خالی زمین پر نماز ادا کر رہے ہیں۔اس سال بجرنگ دل اور بھارت ماتا واہنی کے کارکن اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
ڈاسنہ مندر کے پجاری اوررائٹ ونگ کےشدت پسند رہنمایتی نرسنہانند سرسوتی نےالزام لگایا کہ بچے کو ان پر نظر رکھنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ بچہ اس علاقے سے واقف نہیں تھا اور انجانے میں مندر میں چلا گیا تھا۔ اس کے بیان کی سچائی جاننے کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا۔
ہندوتواکو ایک قومی خطرہ نہیں بلکہ مقامی یا انتخابی سیاست کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔سادہ لفظوں میں ہمارے یہاں خطرے کا مطلب؛ ایٹم بم،دشمن کے جنگی طیارےاور لمبی لمبی داڑھیوں والے آدمی تھے۔ دوسروں کو پیٹ کر جبراً جئےشری رام بلوانے والے لوگ محض شر پسند نظر آتے […]
کرناٹک کے بیلگاوی ضلع کا معاملہ۔ 28 ستمبر کو 24 سالہ اربازکی مسخ شدہ لاش ضلع سے لگ بھگ 30 کیلومیٹر دور ریلوے ٹریک سے برآمد کی گئی۔مہلوک کی ماں نے رائٹ ونگ تنظیم شری رام سینا کے دو ممبروں اور ہندو لڑکی کے والدکے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔
اتر پردیش کےعلی گڑھ ضلع کا معاملہ۔اہل خانہ نے ایف آئی آر پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لڑکے12ویں میں پڑھتے ہیں اور وہ اپنے دوستوں کے بیچ محض ‘بات چیت’ کر رہے تھے۔ اس کو لےکر بےوجہ کسی نے شکایت درج کرائی ہے۔شکایت درج کرانے والے بی جے پی رہنما نے کہا کہ ویڈیوکی وجہ سے لوگوں میں غصہ ہے اور اس کی وجہ سےمذہبی منافرت پھیل سکتی ہے۔
مبینہ طور پر‘تبدیلی مذہب کا سب سے بڑاریکٹ’چلانے کےالزام میں یوپی اے ٹی ایس نے اسلامی اسکالر مولانا کلیم صدیقی کو گزشتہ 21ستمبر کو میرٹھ سے گرفتار کیا تھا۔ صدیقی کے وکیل نے کہا ہے کہ پولیس ثبوت کے طور پر ان کے یوٹیوب چینل کو پیش کر رہی ہے جو پہلے سے ہی عوامی ہے اور اس میں کچھ بھی مجرمانہ یاملک کے خلاف نہیں ہے۔
اس سے پہلے بھی غازی آباد کے ڈاسنہ دیوی مندر کے پجاری یتی نرسنہانند سرسوتی کے خلاف پیغمبر محمد پر قابل اعتراض تبصرہ کرنے کے الزام میں شکایت درج کرائی جا چکی ہے۔نرسنہانند تب سرخیوں میں آئے تھے، جب ڈاسنہ مندر میں پانی پینے کی وجہ سے ایک نابالغ مسلم لڑکے کی بے رحمی سے پٹائی کی گئی تھی۔
گزشتہ4 اگست کو فیصل احمد خان نام کےقانون کے ایک استاذ نے رائٹ ونگ کے شدت پسند رہنماؤں یتی نرسنہانند اورسورج پال امو کے الگ الگ مواقع پرمسلم مخالف بیانات پر جامعہ نگر پولیس اسٹیشن میں شکایتیں کی تھیں۔ کوئی کارروائی نہ ہونے پر 7 اگست کو انہوں نے نے ساکیت ضلع کورٹ سے پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دینے کامطالبہ کیا۔
اتر پردیش کے کانپور شہر کے برہ علاقے کا معاملہ۔سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ویڈیو میں کچھ لوگ ایک مسلمان رکشہ ڈرائیورکی پٹائی کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور اس سےمبینہ طور پر‘جئے شری رام’کا نعرہ لگانے کو کہہ رہے ہیں۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ متاثرہ رکشہ ڈرائیورکے ایک رشتہ دار کا اس کے پڑوسیوں کے خلاف زمین کو لےکرمقدمہ چل رہا ہے اور جولائی میں اس معاملے میں دونوں فریق نے ایک دوسرے کے خلاف کیس درج کرایا تھا۔
یہ معاملہ دہلی کے آدرش نگر میں ایک فلائی اوور پر بنے مزار سے جڑا ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں ہندوتووادی تنظیم سے جڑے کچھ نوجوان وہاں پہنچتے ہیں اور مولوی سےسوال جواب کرتے ہوئے بحث کرنے لگتے ہیں۔تب بیچ بچاؤ کےلیےایس ایچ او آ جاتے ہیں۔اس واقعہ کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا۔دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ ڈیوٹی میں لاپرواہی برتنے کے مدنظر انہیں سسپنڈ کیا گیا ہے، لیکن کارروائی کو اس واقعہ سے جوڑکر دیکھا جا رہا ہے۔
کورونا وائرس کی وبا کے مدنظراتر پردیش کی یوگی سرکار کی جانب سےمحرم کے جلوس پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ مجلس علماءہند کے جنرل سکریٹری اورمعروف شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد نے اتر پردیش ڈی جی پی مکل گوئل کی طرف سےتمام ضلع پولیس کو جاری سرکولرمیں کہی گئی باتوں پر سخت اعتراض کیااور کہا کہ پولیس انتظامیہ نے اس میں بےحد توہین آمیز لفظوں کا استعمال کرکے محرم اور شیعہ مسلمانوں کی امیج خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔
معاملہ 15 جولائی کو میرٹھ کے پلوپورم علاقے میں راشٹریہ یووا ہندو واہنی کی خودساختہ خاتون رہنما کے گھر پر ہوا۔ متاثرہ کا الزام ہے کہ انہیں کولڈ ڈرنک میں نشہ آور اشیا ملاکر پلایا گیا اور پھر بے ہوشی کی حالت میں خاتون رہنما کے اشارے پر ان کے بیٹے اور ایک رشتہ دار نے ان سے ریپ کیا۔
اکالی دل پچھلی کئی دہائیوں سے بی جےپی کا ایک دم چھلہ بن گئی تھی۔ جب اس کے گڑھ پنجاب میں مرکزی حکومت کےکسانوں کے تئیں رویہ کی وجہ سے اس کی سبکی ہو رہی تھی تو وہ اپنی ساکھ بچانے کے لیے بی جے پی اور حکومت سے الگ تو ہوگئی مگر سکھوں کی اکثریت کی حمایت سے ابھی بھی وہ محروم ہے۔ اس لیے کشمیر میں سکھ خطرے میں ہے کاالارام بجا کر وہ اپنا سیاسی الو سیدھا کرنا چاہتی تھی، جس کو مقامی آبادی نے ناکام بنادیا۔
معاملہ ناسک کا ہے، جہاں ایک ہندو خاتون کی مسلمان مرد سے شادی کا کارڈ وہاٹس ایپ پر لیک ہونے کے بعد کچھ لوگوں نے اسے ‘لو جہاد’ بتاتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔ گھر والوں کی رضامندی سے شادی کی تقریب 18 جولائی کو ہونی تھی، لیکن اب اسے رد کر دیا گیا ہے۔
ویڈیو: حال ہی میں پیو ریسرچ سینٹر نے 2019 کے اواخر اور 2020 کی شروعات کے بیچ17زبانوں میں لگ بھگ 30000بالغان کےانٹرویوز پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ ‘ہندوستان میں مذہبی رواداری اور علیحدگی’کے عنوان سےاس مطالعے نےہندوستانی سماج میں مذہب کی حرکیات میں جامع بصیرت فراہم کی ہے۔ اس موضوع پر پروفیسر اپوروانند نے ماہر تعلیم پرتاپ بھانو مہتہ کے ساتھ بات چیت کی۔
ویڈیو: دہلی کےاتم نگر علاقے میں لگ بھگ 500 ریہڑی پٹری کی دکانیں روز لگتی ہیں۔ ان میں سے اکثر مسلمان دکاندار ہیں۔ گزشتہ 18 جون کو ایک پھل بیچنے والے اور ایک دکاندار کے بیچ ہوئی کہا سنی کے بعد بجرنگ دل نے کچھ پوسٹر لگائے تھے جس میں لکھا تھا ‘سبھی ہندوؤں سے گزارش ہے کہ کسی بھی غیرسماجی فروٹ ریہڑی والے سے خریداری نہ کریں’۔ اس کے بعد پھل بیچنے والوں کو اپنی روزی کمانے کے لیے مشقت کرنی پڑ رہی ہے۔