اس معاملے میں کرناٹک ہائی کورٹ کےحتمی فیصلے کے انتظار میں متعدد طالبات نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ نہ تو کلاس جائیں گی اور نہ ہی پریکٹیکل امتحانات دیں گی۔ اب اس معاملے پر وزیر تعلیم بی سی ناگیش کا کہنا ہے کہ وہ غیر حاضر طالبات کے لیے دوبارہ امتحان نہیں لیں گے، طالبات اگر چاہیں تو سپلیمنٹری امتحانات میں شامل ہو سکتی ہیں۔
یوم پیدائش پر خاص:استاد بسم اللہ خاں ایسے بنارسی تھے جو گنگا میں وضو کر کے نماز پڑھتے تھے اور سرسوتی کو یاد کر کے شہنائی کی تان چھیڑتے تھے ۔اسلام کے ایسے پیروکار تھے جو اپنے مذہب میں موسیقی کے حرام ہونے کے سوال پر ہنس کر کہتے تھے ،کیا ہو اسلا م میں موسیقی کی ممانعت ہے ،قرآن کی شروعات تو’ بسم اللہ‘ سے ہی ہوتی ہے۔
معروف ایکٹر نانا پاٹیکر نے یہ بات فلم ’دی کشمیر فائلز‘ سے متعلق صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہی۔ حالاں کہ، پاٹیکر نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے ابھی فلم نہیں دیکھی ہے اور اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر پائیں گے، لیکن کسی فلم کے سلسلے میں تنازعہ پیدا ہونا اچھی بات نہیں ہے۔
بی جے پی او بی سی مورچہ کے قومی جنرل سکریٹری اور اُڈپی گورنمنٹ پی یو کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کے نائب صدر یشپال سورنا نے کہا کہ لڑکیوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ طالبعلم نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیم کی ممبر ہیں۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف بیان دے کر وہ ججوں کی توہین کر رہی ہیں۔
کرناٹک ہائی کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے اُڈپی کے ‘گورنمنٹ پری یونیورسٹی گرلز کالج’ کی مسلم طالبات کی ان عرضیوں کو خارج کر دیا ہے جن میں حجاب پہننے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔عدالت نے کہا کہ یونیفارم کا اصول ایک معقول پابندی ہے اور آئینی طور پر قابل قبول ہے۔ جس پر لڑکیاں اعتراض نہیں کر سکتیں۔
گجرات بی جے پی کی جانب سے پوسٹ کیے گئے کارٹون سے ڈرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ماضی میں بھی ایک خاص مذہبی اقلیت کے خلاف اس طرح کی فتنہ انگیزی کے شاہد ہیں اور اس بات سے بھی واقف ہیں کہ اس کا انجام کیاہوتا ہے۔
کیا معلوم کہ انتخابات کے بعدلکھنؤ برقرار رہتا ہے یانہیں؟ اس کی تہذیب کوفرقہ پرستوں سے شدیدخطرہ لاحق ہے۔اس شہر میں جہاں ہندو اور مسلمان ساتھ ساتھ رہتے تھے، اب اپنے مخصوص علاقوں میں منتقل ہورہے ہیں۔ دیواریں کھنچ رہی ہیں۔ ہندو اب ہندو علاقے میں ہی رہنا پسند کرتا ہے۔ جن مسلمانوں کے مکان ہندو اکثریتی علاقوں میں ہیں، وہ ان کو بیچ کر مسلم محلوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔
رتلام ضلع کے راوٹی کا معاملہ۔سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں ایک شخص لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینےکے معاملے پر اعتراض کرتے ہوئے یہ کہتا ہوا نظر آ رہا ہے کہ اس نے مسجد کے سامنے والی عمارت پر لاؤڈ سپیکر لگادیا ہے اور جب جب اذان دی جائے گی، لاؤڈ اسپیکر سے تیز آواز میں میوزک بجا یا جائے گا۔
دہشت گردی کے فرضی مقدمات میں پھنسے لوگوں کے لیے لڑنے والے سماجی کارکن اور رہائی منچ کے جنرل سکریٹری راجیو یادو اتر پردیش کے اعظم گڑھ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
بنگلورو واقع کے ایس آر ریلوے اسٹیشن پر قلیوں کےریسٹ روم میں طویل عرصے سےمسلمان کارکن نماز پڑھ رہے تھے۔ اب ہندو جن جاگرتی سمیتی نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے اس کو ‘سازش کا حصہ’ قرار دیا ہے۔
یہ ملک کے لیےانتہائی افسوسناک ہے کہ اس کےسابق نائب صدر کو بھی مذہبی آئینے میں دیکھا جانے لگاہے۔ان کے بیانات سےسبق حاصل کرنے اور آئینے میں حقیقت کا چہرہ دیکھنے کے بجائے ان سے چاپلوسی کی امید کی جارہی ہے!
سال 2021 میں اقلیتوں کے خلاف ہیٹ کرائم میں اضافہ ہوا، لیکن میڈیا خاموش رہا۔ اس سال کی ابتدا اور زیادہ نفرت سے ہوئی، لیکن اس کے خلاف ملک بھر میں آوازیں بلند ہوئی۔ اقلیتوں اور خواتین سے نفرت کی مہم کا نشانہ بننے کے بعد میں اپنے آپ کو سوچنے سے نہیں روک پاتی کہ کیا اب بھی کوئی امید باقی ہے؟
واقعہ چھتیس گڑھ کے کوربا ضلع کا ہے۔اس واقعہ سےمتعلق مبینہ وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آگ کے چاروں طرف کھڑے ہو کر کچھ لوگ ملک کو ہندو راشٹر بنانے اور مسلمانوں کو کام نہ دینے کا عہد لے رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق، کلیدی ملزم ہندو تنظیم سے وابستہ ہے۔
مسلم خواتین کو نشانہ بنانے کے پس پردہ ، اس سازش کا مقصد یہ ہے کہ اس قوم کو اس قدر ذلت دی جائے، ان کےعزت نفس کو اتنی ٹھیس پہنچائی جائے کہ تھک ہارکر وہ ایک ایسی’شکست خوردہ قوم’کے طور پر اپنے وجود کو قبول کر لیں، جوصرف اکثریت کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے کو مجبور ہے۔
معاملہ چھتیس گڑھ کےسرگجا ضلع کا ہے۔سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ویڈیو میں کئی گاؤں والے ایک جگہ پر مسلمانوں کا سماجی اور معاشی بائیکاٹ کرنے کا حلف لیتے ہوئےنظر آ رہے ہیں۔ سرگجا کےپولیس سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ پولیس نے معاملے کی جانچ شروع کر دی ہے۔ویڈیو میں نظر آنے والے افراد کی شناخت کے بعد مقدمہ درج کیا جائے گا۔
معاملہ اُڈپی کےگورنمنٹ ویمنس پی یو کالج کا ہے۔ چھ مسلم طالبات نے الزام لگایا ہےکہ پرنسپل انہیں کلاس میں حجاب پہننے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں اُردو، عربی اور بیری زبان میں بات کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ پرنسپل کا کہنا ہے کہ طالبات کیمپس میں حجاب پہن سکتی ہیں،لیکن کلاس روم میں اس کی اجازت نہیں ہے۔
بی جے پی رکن پارلیامنٹ تیجسوی سوریہ نے اُڈپی میں ایک پروگرام کے دوران کہا کہ ہندو مذہب چھوڑ کر گئے لوگوں کی واپس اسی مذہب میں’ٹیپو جینتی’پر ہونی چاہیے اور یہ’گھر واپسی’ہندوؤں کی ذمہ داری ہے۔سوریہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے مسلمانوں کو ہندو مذہب اختیار کرنا چاہیے۔ پاکستان متحدہ ہندوستان کےنظریےمیں شامل ہے۔
پچھلےسات سالوں میں باربارمسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف تشدد کے اشارے کیےگئے ہیں اور بڑے پیمانے پر ان کےحق میں دلائل دیے گئے ہیں۔ جب آپ آبادی کنٹرول کے نام پر قانون بناتے ہیں، اپنی بیٹیوں کی دوسرے مذاہب میں شادی کو روکنے کے نام پر، مسلم خواتین کو ان کے مردوں سے بچانے کے نام پر، آپ ان کے خلاف تشدد کے لیے زمین تیار کرتے ہیں۔
ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے یہ بھی کہا کہ ضلع انتظامیہ کا کھلی جگہوں پر نماز کے لیے کچھ جگہوں کو محفوظ رکھنے کاقبل کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے اور ریاستی حکومت اب اس مسئلے کا پرامن حل تلاش کرے گی۔ گڑگاؤں میں پچھلے کچھ مہینوں میں، کچھ ہندو تنظیموں کے ارکان ان جگہوں پر جمع ہوتے ہیں اور ‘بھارت ماتا کی جئے’ اور ‘جے شری رام’کے نعرے لگاتے ہیں جہاں مسلمان نماز ادا کرتے ہیں۔
گڑگاؤں مسلم کاؤنسل نے کہا کہ دو دہائیوں سے زیادہ سے کھلی جگہوں پر جمعہ کی نماز ادا کی جا رہی ہے، کیونکہ مسلمانوں کے پاس مطلوبہ تعدادمیں مسجد نہیں ہے۔ مئی 2018 کے بعد شہر میں پہلی بار نمازمیں خلل کی اطلاع ملی تھی، جس کے بعد سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی کئی کوششیں ہوئی ہیں۔
مرادآباد کےعیدگاہ علاقے کےرہائشی ہر رات اپنے مسائل پر گفت و شنیدکے لیے اکٹھا ہوتے ہیں۔اس دوران سیاسی اور اقتصادی مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔
ایودھیاتنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدجن کو لگتا تھا کہ اس کے نام پرفرقہ وارانہ تعصب کی بلا اب ان کےسر سے ہمیشہ کے لیے ٹل جائےگی،اور سیاسی طور پراس کا غلط استعمال بند ہو جائےگا، ملک کی سیاسی قیادت ان کی معصوم امیدوں پر پانی پھیرنے کو تیار ہے۔
سنیکت ہندوسنگھرش سمیتی نےانتظامیہ کو ایک الٹی میٹم جاری کرکے کہا کہ وہ اگلے ہفتے سےشہر میں کسی بھی عوامی جگہ پر نماز کی اجازت نہیں دیں گے۔جمعہ کو گڑگاؤں کے سیکٹر37 میں مظاہرین کی طرف سے مسلسل نعرےبازی اور امن وامان میں خلل پڑنے کے اندیشہ کو دیکھتے ہوئے پولیس نے 10 لوگوں کو حراست میں لیا اور بعد میں ایک کو گرفتار بھی کیا۔
گیارہ نومبر کو غازی آباد کے لونی بارڈر پر ہوئے‘انکاؤنٹر’میں سات مسلمانوں کو غیرقانونی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کرنے سے پہلے گولی چلائی گئی تھی، جو تمام لوگوں کے پاؤں پر تقریباً ایک ہی جگہ لگی تھی۔ معاملے میں لونی تھانے کے ایس ایچ او کو سسپنڈ کر دیا گیا ہے اور جانچ کےآرڈر دیے گئے ہیں۔
پیپلزیونین فار سول لبرٹیزکرناٹک، آل انڈیا لائرزایسوسی ایشن فار جسٹس، آل انڈیا پیپلزفورم اور گوری لنکیش نیوز ڈاٹ کام نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں انہوں نے فرقہ وارانہ کشیدگی کے 71 معاملوں کی پہچان کی ہے۔ یہ تمام معاملے جنوری 2021 سے اگست تک کے ہیں۔
ویڈیو: گزشتہ13نومبر کو امراوتی میں بی جے پی کی جانب سے بلائے گئے بند کے دوران جگہ جگہ بھیڑ نے پتھراؤ کیا تھا۔ مسلمانوں کی دکانوں کو آگ لگا کر تباہ کر دیا گیا۔ ہندو مندروں کو بھی مبینہ طور پر نقصان پہنچایا گیا تھا۔
گڑگاؤں میں پچھلے کچھ مہینوں سے رائٹ ونگ گروپ کھلے میں نمازکی مخالفت کر رہے ہیں۔گوردوارہ کمیٹی ساتھ ہی اکشے یادو نام کے ایک دکان مالک نے بھی نماز کے لیے اپنی خالی جگہ دینے کی پیش کش کی ہے۔
ویڈیو: گزشتہ پانچ نومبر کو بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے کارکنوں نے گڑگاؤں کے سیکٹر12اے میں اس جگہ پر گئووردھن پوجا کااہتمام کیا تھا، جہاں ہر جمعہ کو نماز ادا کی جاتی تھی۔ یہ کارکن پچھلے کچھ وقتوں سےیہاں نماز کی مخالفت کر رہے تھے۔ دی وائر نے دنیش بھارتی سے بات کی، جو گڑگاؤں میں نماز کو روکنے کےالزام میں کئی بار جیل جا چکے ہیں۔ دنیش بھارت ماتا واہنی کے رکن ہیں اور وشو ہندو پریشد سے بھی وابستہ ہیں۔
شدت پسند ہندوتوا لیڈریتی نرسنہانند کے پیروکاریوٹیوبرسریش راجپوت نے دیوالی پر دہلی کےوزیراعلیٰ اروند کیجریوال کےمبینہ ہندو مخالف خیالات کی مخالفت کرنے کے لیے اسی دن اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کیا۔اس ویڈیو میں راجپوت کو وزیر اعلیٰ کیجریوال کے لیےغیر مہذب زبان کا استعمال کرتے اور انہیں گولی مارنے کی دھمکی دیتے سنا جا سکتا ہے۔
دہلی کے براڑی میں سنت نگر علاقے کا معاملہ۔ پولیس کے مطابق، ویڈیو میں ملزم خود کو بجرنگ دل کا رکن بتا رہا ہے۔ اس کو دیوالی کے دن بریانی کی دکان کھولنے پر مبینہ طور پر ایک مسلم دکاندار کو دھمکاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ کسی تہوار پر دکان نہ کھولیں۔
گڑگاؤں میں پچھلے کچھ مہینوں سےہندوتوا گروپ کھلے میں نماز کی مخالفت کر رہے ہیں۔انتطامیہ نے گزشتہ تین نومبرکو 37طے شدہ مقامات میں سے آٹھ پر نماز ادا کرنے کی منظوری کو منسوخ کر دیا ہے ۔ اس بیچ سنیکت ہندو سنگھرش سمیتی نے سیکٹر12اے میں اس مقام پرگئووردھن پوجا کا اہتمام کیا ہے، جہاں پچھلے کچھ دنوں سے نماز کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
شدت پسندہندوتوا لیڈریتی نرسنہانند غازی آبادواقع ڈاسنہ دیوی مندر کے مہنت ہیں۔ وہ مسلم مخالف بیان بازیوں کو لےکرسرخیوں میں رہتے ہیں۔اس مہینے کی شروعات میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ ایک مسلم لڑکے کو ان کی جاسوسی کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اسی سال مارچ میں ڈاسنہ مندر میں ایک مسلم لڑکے کے پانی پینےکی وجہ سے اس کی پٹائی کی گئی تھی۔ جس شخص نے لڑکے کو پیٹا تھا، نرسنہانند نے اس کی حمایت کی تھی۔
ویڈیو: گڑگاؤں کے سیکٹر47 میں ہر جمعہ کونماز کے لیےمسلمان جمع ہوتے ہیں۔ وہ مئی2018 سے یہاں کی ایک خالی زمین پر نماز ادا کر رہے ہیں۔اس سال بجرنگ دل اور بھارت ماتا واہنی کے کارکن اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
ڈاسنہ مندر کے پجاری اوررائٹ ونگ کےشدت پسند رہنمایتی نرسنہانند سرسوتی نےالزام لگایا کہ بچے کو ان پر نظر رکھنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ بچہ اس علاقے سے واقف نہیں تھا اور انجانے میں مندر میں چلا گیا تھا۔ اس کے بیان کی سچائی جاننے کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا۔
ہندوتواکو ایک قومی خطرہ نہیں بلکہ مقامی یا انتخابی سیاست کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔سادہ لفظوں میں ہمارے یہاں خطرے کا مطلب؛ ایٹم بم،دشمن کے جنگی طیارےاور لمبی لمبی داڑھیوں والے آدمی تھے۔ دوسروں کو پیٹ کر جبراً جئےشری رام بلوانے والے لوگ محض شر پسند نظر آتے […]
کرناٹک کے بیلگاوی ضلع کا معاملہ۔ 28 ستمبر کو 24 سالہ اربازکی مسخ شدہ لاش ضلع سے لگ بھگ 30 کیلومیٹر دور ریلوے ٹریک سے برآمد کی گئی۔مہلوک کی ماں نے رائٹ ونگ تنظیم شری رام سینا کے دو ممبروں اور ہندو لڑکی کے والدکے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔
اتر پردیش کےعلی گڑھ ضلع کا معاملہ۔اہل خانہ نے ایف آئی آر پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لڑکے12ویں میں پڑھتے ہیں اور وہ اپنے دوستوں کے بیچ محض ‘بات چیت’ کر رہے تھے۔ اس کو لےکر بےوجہ کسی نے شکایت درج کرائی ہے۔شکایت درج کرانے والے بی جے پی رہنما نے کہا کہ ویڈیوکی وجہ سے لوگوں میں غصہ ہے اور اس کی وجہ سےمذہبی منافرت پھیل سکتی ہے۔
مبینہ طور پر‘تبدیلی مذہب کا سب سے بڑاریکٹ’چلانے کےالزام میں یوپی اے ٹی ایس نے اسلامی اسکالر مولانا کلیم صدیقی کو گزشتہ 21ستمبر کو میرٹھ سے گرفتار کیا تھا۔ صدیقی کے وکیل نے کہا ہے کہ پولیس ثبوت کے طور پر ان کے یوٹیوب چینل کو پیش کر رہی ہے جو پہلے سے ہی عوامی ہے اور اس میں کچھ بھی مجرمانہ یاملک کے خلاف نہیں ہے۔
اس سے پہلے بھی غازی آباد کے ڈاسنہ دیوی مندر کے پجاری یتی نرسنہانند سرسوتی کے خلاف پیغمبر محمد پر قابل اعتراض تبصرہ کرنے کے الزام میں شکایت درج کرائی جا چکی ہے۔نرسنہانند تب سرخیوں میں آئے تھے، جب ڈاسنہ مندر میں پانی پینے کی وجہ سے ایک نابالغ مسلم لڑکے کی بے رحمی سے پٹائی کی گئی تھی۔
گزشتہ4 اگست کو فیصل احمد خان نام کےقانون کے ایک استاذ نے رائٹ ونگ کے شدت پسند رہنماؤں یتی نرسنہانند اورسورج پال امو کے الگ الگ مواقع پرمسلم مخالف بیانات پر جامعہ نگر پولیس اسٹیشن میں شکایتیں کی تھیں۔ کوئی کارروائی نہ ہونے پر 7 اگست کو انہوں نے نے ساکیت ضلع کورٹ سے پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دینے کامطالبہ کیا۔