جموں و کشمیر کے ایوارڈ یافتہ صحافی آصف سلطان کو 2018 میں دہشت گردوں کے ساتھ مبینہ روابط کے الزام میں پہلی بار گرفتار کیا گیا تھا۔ تقریباً 3 سال بعد 2022 میں انہیں ضمانت ملی تو رہا ہونے سے پہلے ہی دوبارہ پی ایس اے کے تحت حراست میں لے لیا گیا۔ جب اس معاملے میں بھی ضمانت ملی تو ایک اور کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایس بی آئی کو اپنے پاس دستیاب تمام تفصیلات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ اس میں خریدے گئے الیکٹورل بانڈ کا الفا نیومیرک نمبر اور سیریل نمبر، اگر کوئی ہو تو، شامل ہوں گے۔
جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے کشمیری صحافی آصف سلطان پر لگے پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کو رد کر دیا ہے۔ نیوز میگزین ‘کشمیر نیریٹر’ کے رپورٹر آصف کو 2018 میں دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، جنہوں نے اُسی سال سری نگر میں ایک انکاؤنٹر کے دوران ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کر دیا تھا۔
کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے کہا کہ نریندر مودی حکومت نے فوج سے ملک بھر میں سیلفی پوائنٹ بنانے کو کہا ہے جہاں فوجیوں کی بہادری کے بجائے اس کی اسکیموں کی تشہیر کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکمراں جماعت نے ‘فوجیوں کی مقبولیت کا فائدہ اٹھا کر’ فوج کے وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
سابق دفاعی سربراہوں نے اس کو’سیاست’ قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کی شدید تنقید کی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے انتخابات کے موقع پر اس طرح کی سیاسی مہم کو وزارت دفاع سے دور رکھنے کی روایت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
آر ایس ایس کے ہفتہ وار میگزین ‘آرگنائزر’ نے جون میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں دہلی کے ایک عیسائی اسکول کے پرنسپل پر راہباؤں اور طالبات کے استحصال سمیت کئی الزامات لگائے گئےتھے۔ اسے ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا کہ پہلی نظر میں یہ مضمون ‘حقائق کی تصدیق کے بغیر لاپرواہی سے’ شائع کیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ1921 کے مالابار بغاوت کے آس پاس کے واقعات پر مبنی ملیالم فلم ‘1921 پوزہ متھل پوزہ وارے’ کو سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن کے چیئرمین پرسون جوشی کی طرف سے قائم کی گئی جائزہ کمیٹی نے سات کٹ کے ساتھ ہری جھنڈی دی تھی، لیکن جوشی نے اسے واپس دوسری جائزہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا تھا، جس نے فلم میں 12 کٹ لگا دیے۔ جس کے خلاف ڈائریکٹر نے کیرالہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
جامع مسجد کی انتظامیہ کی جانب سے جمعرات کو مرکزی دروازوں پر لگائے گئے نوٹس میں کہا گیا تھاکہ مسجد میں لڑکیوں کا اکیلے یا گروپ میں داخلہ ممنوع ہے۔ اس فیصلے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کے بعد مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے بتایا کہ لیفٹیننٹ گورنر سے بات چیت کے بعد اسے واپس لے لیا گیا ہے۔