حکومت چاہتی ہے کہ اس سے سوال پوچھے جانے بند ہو جائیں : ابھیسار شرما
ایک تنظیم کی طرف سے جاری مبینہ ‘اربن نکسل’ لسٹ پر سینئر صحافی ابھیسار شرما کا نظریہ
ایک تنظیم کی طرف سے جاری مبینہ ‘اربن نکسل’ لسٹ پر سینئر صحافی ابھیسار شرما کا نظریہ
میانمار کی حکومت ان جرائم سے انکار کرتی رہی ہے۔ لیکن صحافیوں کی گرفتاری کے بعد خود میانمار کی فوج نے مانا کہ اس نے گاؤں میں 10 روہنگیا ئی مردوں اور نوجوانوں کو مارا تھا۔
ایک بات جو موجودہ حالات کو ایمرجنسی سے بھی زیادہ سنگین بناتی ہے وہ یہ کہ آج ملک کو تانا شاہی کے ساتھ ساتھ فسطائیت کا بھی سامنا ہے۔ فرقہ پرستی اپنے عروج پر ہے۔ مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف تشدد عام ہو گیا ہے۔ اس کے خلاف کوئی شنوائی نہیں ہے۔ مظلوم کو انصاف کی جگہ ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مدیران کا کام اقتدار کے لحاظ سےمواد کو بنائے رکھنے کا ہے اور حالات ایسے ہیں کہ اقتدار کے موافق تشہیر کی ایک ہوڑ مچی ہوئی ہے۔ آہستہ آہستہ حالات یہ بھی ہو چلے ہیں کہ اشتہار سے زیادہ تعریف نیوز رپورٹ میں دکھائی دے جاتی ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اظہاررائے کی آزادی کو بچائے رکھنے والے ہر قانون کی اپنی جگہ پر ہونے کے باوجود اخباروں اور ٹیلی ویژن چینلوں نے بنا مزاحمت کے خود سپردگی کر دی ہے اور اوپر سے آرڈر لینا شروع کر دیا ہے۔
میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سنیے میڈیا کی آزادی پر سابق صحافی اور عآپ رہنما آشوتوش اور سینئر صحافی نیریندر ناگر سے ارملیش کی بات چیت۔
مانیٹرنگ کےطریقوں پر غور کرنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ مانیٹرنگ کا چہرہ مودی حکومت کی ہی دین ہے ایسا نہیں ہے،لیکن مودی حکومت کے دور میں مانیٹرنگ کے معنی اور مانیٹرنگ کے ذریعہ میڈیا پر نکیل کسنے کا انداز ہی سب سے اہم ہو گیا ہے۔
صحافی مالینی سبرامنیم اور بھوم کال سماچارکے مدیر کمل شکلا سےبستر میں صحافت کے خطروں پرمہتاب عالم کی بات چیت۔
شجاعت کے ساتھ میری دوستی کا سفر غالباً 1988 میں گورنمنٹ کالج سوپور سے شروع ہوا۔ جرنلزم اور سماجی سرگرمیاں تو انکی روح میں تھیں۔کالج میں ہی اسنے ایک’پیرراڈایز رائٹرز فورم ‘تشکیل دی تھی جس کی نشستیں کالج کے سبزہ زار میں چنار کے پیڑوں کے تلے ہوتی تھیں۔
ایمرجنسی کوئی ناگہانی واقعہ نہیں بلکہ اقتدار کی بےانتہا مرکزیت، جابرانہ رویہ ، شخصیت پرستی اور چاپلوسی کے بڑھتے رجحان کا ہی نتیجہ تھا۔ آج پھر ویسا ہی نظارہ دکھ رہا ہے۔ سارے اہم فیصلے پارلیامانی کمیٹی تو کیا، مرکزی کابینہ کاؤنسل کی بھی عام رائے سے نہیں کئے جاتے، صرف اور صرف پی ایم او اور وزیر اعظم کی چلتی ہے۔
ایمرجنسی کے 43 سال بعد ان سینسر فرمان کو پڑھنے پر اس ڈراؤنے ماحول کا اندازہ ہوتا ہے جس میں صحافیوں کو کام کرنا پڑا تھا، اخباروں پر کیسی پابندی لگی تھی اور کیسی کیسی خبریں روکی جاتی تھیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہے جب بی جے پی رہنماؤں پر سوال اٹھاتی کسی خبر کو نیوز ویب سائٹس نے بنا وجہ بتائے ہٹایا ہے۔
ترکی میں اپوزیشن کے مرکزی اخبار ’جمہوریت‘ کے چودہ صحافیوں کو دہشت گردوں کی مدد کرنے کے الزام میں قید کی سزائیں سنا دی گئی ہیں۔ کئی بین الاقوامی تنظیموں نے ترکی میں آزادی صحافت کی ابتر صورت حال پر شدید تنقید کی ہے۔
مرکز ی حکومت کے 13 وزیر جس ویب سائٹ کا لنک ٹوئٹ کرتے ہیں، اپیل کرتے ہیں کہ فیک نیوز کے خلاف آواز اٹھائیں، اس ویب سائٹ کو کون چلاتا ہے، کہاں سے چلتی ہے، اس کا پتا دو دنوں تک میڈیا میں بحث ہونے کے بعد بھی نہیں چلتا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم ٹرانس پیرینسی انٹرنیشنل کی 180 ممالک کی رپورٹ میں ہندوستان کو ایشیا پیسفک ریجن میں بد عنوانی اور پریسکی آزادی کے معاملے میں سب سے خراب حالت والے ممالک کے زمرہ میں رکھا گیا ہے۔
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے موڈیز ریٹنگ اور پریس کی آزادی پرونود دوا کا تبصرہ
گزشتہ27 اکتوبر کو غازی آباد سےانہیں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔مسٹر ورما کو عدالت نے 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیاہے۔ رائے پور:چھتیس گڑھ میں ایک وزیر کی مبینہ فحش سی ڈی کے معاملے میں اترپردیش کے غازی آباد سےگرفتار سینئر صحافی […]
ریاستی حکومت کا یہ قدم دھمکی بھرا رویہ ظاہر کرتا ہے اور ہم اس معاملے کی غیر جانبدارانہ جانچ کرائے جانے کے حق میں ہیں جس میں نہ تو کسی کا دباؤ ہو اور نہ ہی ان کے خاندان کا کسی طرح کا استحصال ہو۔ نئی دہلی : […]
پولیس نے ورما کے گھر سے تین سو سی ڈی بر آمد ہونے کی بات کی،لیکن وہ ایک عدد سی ڈی عدالت کو فوراً کیوں نہیں دے سکی؟ سینئرصحافی ونود ورما کو اتّر پردیش پولیس کی مدد سے منھ اندھیرے تین اور چار بجے کے درمیان اٹھاکر اندراپورم […]
عالمی ادارہ رپورٹرس وداؤٹ بارڈرس کا کہنا ہے کہ 2015 سے اب تک حکومت کی تنقید کرنے والے نو صحافیوں کا قتل کر دیا گیا۔ نئی دہلی : میڈیا اور صحافیوں کی آزادی پر نگرانی رکھنے والے عالمی ادارہ رپورٹرس وداؤٹ بارڈرس کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں […]