نٹور سنگھ ایک زیرک اور کامیاب سفارت کار تھے، گاندھی خاندان کے بے حد قریبی مانے جاتے تھے، مگر سیاست کسی کی دوست نہیں ہوتی ہے، یہ بس مفادات کی آبیاری کانام ہے۔ کانگریس ان سے دور ہوگئی، تو نٹور سنگھ اور ان کے بیٹے جگت سنگھ بھی خود تمام عمر کے پالے ہوئے نظریہ کو لات مار کر بی جے پی کی گود میں بیٹھ گئے، جہاں ان کے نظریہ ساز نہرو کو دن رات گالیاں دی جا رہی ہیں۔
پیش نظر کتاب کی مصنف نیرجا چودھری کا نام صف اول کے ان صحافیوں میں لیا جاتا ہے، جو سیاسی نبض پرکھنا جانتے ہیں اور ان کی رپورٹس، تجزیوں کے بین السطور میں سیاست کے اونٹ کی کروٹ کا اندازہ ہوتا رہتاہے۔ 491 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں انہوں نے اندرا گاندھی سے لے کر منموہن سنگھ کے ادوار اور ان کے کام کرنے کے اسٹائل کا احاطہ کیا ہے۔ ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے مودی کو کیوں نظر انداز کیا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے ارد گرد کے افراد نے ان سے تعاون کرنے سے گریز کیا اور وہ فی الحال آن ریکارڈ نہیں آنا چاہتے۔
یوم پیدائش پر خاص : وی پی سنگھ کہا کرتے تھے کہ سماجی تبدیلی کی جو مشعل انہوں نے جلائی ہے اور اس کے اجالے میں جو آندھی اٹھی ہے، اس کا منطقی عروج تک پہنچنا ابھی باقی ہے۔ ابھی تو سیمی فائنل ہوا ہے اور ہو سکتا ہے کہ فائنل میرے بعد ہو۔ لیکن اب کوئی بھی طاقت اس کا راستہ نہیں روک پائےگی۔
1984کے راجیو گاندھی اور 1993 کے نرسمہا راؤ کی طرح واجپائی تاریخ میں ایک ایسے وزیر اعظم کے طور پر بھی یاد کیے جائیں گے ،جنہوں نے سبق کو رواداری کا پڑھایا ،مگر بے گناہ شہریوں کے قتل عام کی طرف سے آنکھیں موند لیں ۔
اس مہینے کی شروعات میں مدراس ہائی کورٹ نے نلنی کو اس کی بیٹی کی شادی میں شامل ہونے کے لئے 30 دن کے پیرول کی منظوری دی تھی۔ حالانکہ، اس دوران اس کے انٹرویو دینے، سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے اور کسی بھی سیاسی شخصیت سے ملاقات کرنے پر روک رہےگی۔
ہتھیاروں کے سودے کرانا، دو ریاستوں کے رشتوں میں ان کی سرحدوں کو متنازعہ بنانا، ڈپلومیسی اور انٹیلیجینس میں اس کا عمل دخل رہتا تھا۔ اندرا گاندھی کے دور میں ویلی مائیکل کا دہلی آنا جانا بھی لگا رہتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ کچے تیل کا قرار کرانے میں اس نے اہم کردار نبھایا تھا، نیز ہندوستان میں برٹش سفارت خانے کے کئی بھیدیوں سے بھی اس کا خاصہ ربط ضبط تھا۔
1984 کے سکھ مخالف فسادات چونکہ بہت جذباتی اور حساس معاملہ ہے، چنانچہ اس سے متعلق باتیں کرتے ہوئے راہل چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ہندوستان کی عوام نے دلائی لاما سے محبت کی اور انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا؛ بدلے میں یہی انہوں نے ہندوستانی عوام کو لوٹایا۔ دوسری طرف ہندوستان کی حالیہ حکومتوں نے، چین کے خوف سے انہیں لے کر محتاط رویہ اپنایا۔ جبکہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔
بابری مسجدکی شہادت میں عدلیہ اور انتظامیہ نے بھرپور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کی پول کھول دی ۔
پانچ ابواب پر مشتمل 267 صفحات کو محیط اس کتاب کا بنیادی مقصد شاہ بانو کیس سے متعلق ضیاء الرحمان انصاری کے نقطہ نظر کی معروضی وضاحت ہے تاکہ مصنف کے بقول غلط تعبیر ، غلط فہمی اورحقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی روش کا محاسبہ کیا جا سکے۔
کانگریس نے سیکولرازم کا نام لینا چھوڑ دیا ہے۔ ایک ایسا خیال جس میں اس پارٹی کی خاص خدمات تھیں، ہندوستان کو ہی نہیں، پوری دنیا کو، اب اس میں اتنا اعتماد نہیں رہ گیا ہے کہ انتخاب کے وقت اس کی بات بھی کی جا سکے۔
کانگریس کا موقف ہے کہ راہل کی کیلاش مان سروور یاترا ایک ذاتی اور مذہبی یاترا ہے۔ راہل جب کرناٹک الیکشن کے دوران ایک ہوائی سفر میں حادثے کا شکار ہوتے ہوتے بچے تھے تو کانگریس صدر نے منت مانی تھی۔
’اگر آپ ایک رہنما ہیں اور آپ کی نظروں کے سامنے بڑی تعداد میں لوگوں کا قتل کیا جاتا ہے، تب آپ لوگوں کی زندگی بچا پانے میں ناکام رہنے کی جوابدہی سے مکر نہیں سکتے۔ ‘
میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سیلاب کی تباہی کی میڈیا کوریج اور اٹل بہاری واجپائی کی شخصیت کے بارے میں سینئر صحافی پورنیما جوشی اور جنتا کا رپورٹر کے مدیر رفعت جاوید سےارملیش کی بات چیت۔
لوگوں کا ماننا ہے کہ آگرہ سربراہ کانفرنس اور رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ حل کرنے میں اٹل بہاری واجپائی کو کامیابی ملی ہوتی تو ملک کی صورتِحال آج کچھ اور ہوتی۔ لیکن تاریخ میں اگر مگر کی گنجائش ہی کہاں ہوتی ہے!
کچھ لوگوں کا تو یہ بھی ماننا ہے کہ شاہ بانو پر لیے گئے اسٹینڈنے کانگریس کو سیاسی طور پر کافی نقصان پہنچایا اوربی جےپی جیسی سیاسی جماعت کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔
راہل گاندھی کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ماضی کو دیکھیں کہ راجیو گاندھی نے شاہ بانو کیس کا معاملہ کیسے طے کیا اور اس کے کیا نتائج ہوئے۔
واقعی؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ پٹیل جوناگڑھ اور حیدر آباد کے بدلے پورا کشمیر پاکستان کو دینے کو تیار تھے؟
کیا ہمارے سیاست داں نوکرشاہی کی ملی بھگت کے بغیر ہی کالا دھن جمع کرنے اورطرح طرح کے جرم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟ یکم نومبر 2017 کو سیاست دانوں پر چل رہے مجرمانہ مقدموں کی فوری سماعت اور قصوروار ثابت ہونے والے نیتاؤں کو انتخاب لڑنے سے روکنے […]