حالیہ عرصے میں یورپ کے مختلف ممالک میں دائیں بازو کے سیاست دانوں کے لیے عوام کی بڑھتی ہوئی حمایت کو اور یورپ کے مختلف ممالک میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے معاملوں کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت یورپ بہت تیزی سے دائیں بازو کی قوم پرست تحریکوں کا نشانہ بن رہا ہے۔
ادے پورمرڈر کیس کے خلاف وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل سمیت دیگر دائیں بازو کےگروپوں نے مدھیہ پردیش کے مختلف اضلاع میں مظاہرے کیے، جن میں مسلمانوں کے خلاف نہ صرف اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے بلکہ ان کے خلاف تشدد کی اپیل بھی کی گئی ۔
ہندوستانی فوج تنوع میں اتحاد کی روشن مثال ہے۔ یہ اتحاد ان طاقتوں کو پسند نہیں ہے جو نفرت اور تعصب کے داعی ہیں۔
ہندوستانی فوج میں جموں کے تعلقات عامہ کے افسر کے ٹوئٹر ہینڈل نے فوج کی طرف سے منعقد افطار پارٹی کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے سیکولرازم کی بات کہی تھی، جس کو نشانہ بناتے ہوئے سدرشن نیوز کے سریش چوہانکے نے کہا کہ سیکولرازم کی بیماری ہندوستانی فوج میں بھی گھس گئی ہے۔ اس کے فوراً بعد پی آر او نے یہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دیا۔
گجرات کےشہرسورت میں12 سے 22 دسمبر کےدرمیان‘ٹیسٹ آف انڈیا’ریستوراں میں‘پاکستان فوڈ فیسٹیول’ ہونا تھا۔ابھی تک اس سلسلے میں کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔ بجرنگ دل کے کارکنوں نے بتایا کہ ریستوراں کے مالک نے معافی مانگ لی ہے۔
لبرل دانشور جماعت کے لئے ہندوستان بھلےہی اب تک ہندو راشٹر نہ بنا ہو، لیکن گلیوں میں گھومنے والے ہندتووادیوں کے لئے یہ ایک ہندو راشٹر ہے۔ اس کی علامت بھلے چھپی ہوئی ہوں، لیکن اس کے حمایتی اور متاثرین، دونوں ہی بہت واضح طور پر اس کا تجربہ کر سکتے ہیں۔
بی جے پی کے بانی نے مخالفین کو اینٹی نیشنل کہنے پر اعتراض کیا ہے، جو مودی-شاہ کی حکمت عملی اور مہم کا اہم حصہ رہا ہے۔ ایسا ہی کچھ لال کرشن اڈوانی نے 1970 کی دہائی کے وسط میں ایمرجنسی کے وقت جیل میں بند ہونے کے دوران بھی لکھا تھا۔
گڑگاؤں لگاتار نشانے پر ہے۔ انجان لوگوں سے بسا یہ شہر ہر کسی کو اجنبی سمجھنے کی فطرت پالے ہیں، اس لئے وہ مذہب کی بنیاد پر شک کئے جانے یا کسی کو پیٹ دئے جانے کو برا نہیں مانتا۔ ہندوستان کا یہ سب سے جدید شہر سسٹم سے لےکر ایک صحت مند سماج کے فیل ہونے کا شہر ہے۔ اس شہر میں دھول بھی سیمنٹ کی اڑتی ہے، مٹی کی نہیں۔
سوشل میڈیا پروائرل ویڈیو میں وشو ہندو دل کے ممبر یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ وہ ان کو کشمیری ہونے کی وجہ سے مار رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر آئے ایک ویڈیو میں اتر پردیش کی راجدھانی میں وشو ہندو دل کے ممبر سڑک کنارے بیٹھنے والے کشمیری دکانداروں سے مارپیٹ کرتے دکھ رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے دکھے کہ ان کو کشمیری ہونے کی وجہ سے مار رہے ہیں۔
وزیر اعظم ملک کے مفادات کا خیال رکھنے کے بجائے پارٹی اور اپنی ذات کے لیے کام کرتے دکھ رہے ہوں، تو کیا ہمیں سرکار کی دروغ گوئی اور غلط بیانی کو ٹھکرا دینا چاہیے؟ کیا ہمیں اس پر اور توجہ مرکوز نہیں کرنی چاہیے کہ ہندوستان مستقبل قریب میں یا طویل مدت کے لیے دہشت گردی کے سائے سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟
اگر دونوں ممالک ایک ودسرے کو پچھاڑنے اور نیچا دکھانے کے شغل میں عوامی فلاح وبہبود مثلاً تعلیم ، صحت، روزگار کوہی اپنا مقصود بنالیں، تو یہ خطہ ایک بار پھر اقتصادی طاقت بن سکتا ہے۔
وزیر اعظم اسکالرشپ کے تحت ملک بھر کے کالجوں، اداروں اور یونیورسٹیوں میں جموں و کشمیر کے ذہین طلبا کو داخلہ دیا جاتا ہے۔
برانچ مینجر کا کہنا ہے کہ، مظاہرہ کرنے والوں کو لگا کہ ہم پاکستانی ہیں۔ہم اس نام کا استعمال تقریباً 53 سالوں سے کر رہے ہیں۔ اس کے مالک ہندو ہیں۔
24 سالہ جبران نظیر کا الزام ہے کہ ٹریفک سگنل پر تنازعہ ہونے کے دوران جب انھوں نے بتایا کہ وہ جموں و کشمیر کے ہیں تب دو لوگون نے مل کر ان کی پٹائی کر دی۔
جموں و کشمیر کے پلواما میں دہشت گردانہ حملے کے بعد کشمیریوں کے ساتھ بد سلوکی کی خبروں پر این ایچ آر سی نے مرکزی وزارت داخلہ ،ایم ایچ آر ڈی اورمغربی بنگال ،اتراکھنڈ ،اتر پردیش کی ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔
کشمیری طلبا نے کہا کہ حملہ آوروں نے ہم سے کمرے خالی کر 4 دنوں کے اندر کشمیر لوٹ جانے کو کہا۔ ہمیں وارننگ دی گئی کہ اگر ہم واپس نہیں گئے تو وہ ہمیں مار ڈالیں گے۔
سپریم کورٹ نے مرکز اور 10 ریاستوں کو نوٹس جاری کیا ہے ۔ کورٹ نے کہا ہے کہ ریاستوں کے نوڈل افسر کشمیری اور دیگر اقلیتوں کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کو روکیں۔
عرضی میں الزام لگایا گیا ہے کہ پلواما دہشت گردانہ حملے کے بعد کشمیری طلبا پر ملک بھر کے مختلف تعلیمی اداروں میں حملہ کیا جارہا ہے اور متعلقہ اتھارٹی کو اس طرح کے حملے کے خلاف قدم اٹھانا چاہیے۔
گروگرام کی ایس جی ٹی یونیورسٹی میں پلواما حملے میں شہید ہوئے جوانوں کو لےکر مبینہ طور پر قابل اعتراض پوسٹ پر ایک کشمیری طالبہ کو برخاست کر دیا گیا ہے۔ وہیں، نوئیڈا کے ایک ہوٹل میں کشمیریوں کی مخالفت میں ایک بورڈ لگایا گیا تھا۔
میگھالیہ کے گورنراس سے پہلے بھی اپنے متنازعہ بیانات میں ہندومسلم مسئلے کے خاتمہ کے لیے خانہ جنگی کی صلاح دینے کے ساتھ ساتھ ایک بار یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اذان کی وجہ سے آواز آلودہ ہوتی ہے۔
ویڈیو: آج کی ماسٹر کلاس میں اپوروانند پلواما میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں کشمیری طلبا کے ساتھ ہو رہی بد سلوکی پر بات کر رہے ہیں۔
ویڈیو: میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سنیے حال ہی میں ہوئے پلواما دہشت گردانہ حملے اور ان حملوں کا آئندہ انتخابات پر کیا اثر ہوگا، اس بارے میں سینئر صحافی آشوتوش اور سمتا شرما سے ارملیش کی بات چیت۔
جموں و کشمیر کے پلواما میں سی آر پی ایف جوانوں پر حملے بعد دہرادون میں اے بی وی پی ، بجرنگ ال اور وشو ہندو پریشد جیسی ہندتوادی تنظیموں کے مطالبے پر دو کالجوں نے آئندہ سیشن میں کشمیریوں کو داخلہ نہ دینے کی بات کہی ہے۔
گزشتہ سنیچر کو شہلا رشید نے ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ بھیڑ کے غصے کی وجہ سے دہرادون کے ہاسٹل میں کچھ کشمیری لڑکیاں پھنسی ہوئی ہیں ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کا یہ دعویٰ غلط تھا اور اسی وجہ سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
کشمیری طلبا نے الزام لگایا ہے کہ ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور ان کے مکان مالکوں نے ان کو مکان خالی کرنے کے لیے کہا۔
دہرادون واقع بابا فرید انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی اور الپائن کالج آف مینجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی نےخط جاری کر کے کہا ہے کہ وہ آئندہ سیشن سے کسی بھی کشمیری طلبا کو داخلہ نہیں دیں گے۔
انفارمیشن ٹکنالوجی معاملوں کی پارلیامانی کمیٹی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے مدعے پر ٹوئٹر افسروں کو طلب کیا تھا۔
کچھ دن پہلے رائٹ ونگ تنظیم یوتھ فار سوشل میڈیا ڈیموکریسی کے ممبروں نے ٹوئٹر پر الزام لگایا تھا کہ اس نے رائٹ ونگ مخالف رخ اختیار کیا ہے اور ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹس کو بند کر دیا ہے۔ تنظیم نے پارلیامانی کمیٹی کے صدر انوراگ ٹھاکر سے اس کی شکایت کی تھی۔
قلمکار ایس ہریش کے ملیالم ناول ’ میشا ‘ کے کچھ حصے کو ہٹانے کی مانگ کرنے والی عرضی کو خارج کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ قلمکار کی تخلیقیت کی عزت کی جانی چاہیے۔
اینٹی نیشنل، ہندوستان مخالف جیسے لفظ ایمرجنسی کے حکمرانوں کی فرہنگ کا حصہ تھے۔ آج کوئی اور اقتدار میں ہے اور اپنے ناقدین کو ملک کا دشمن بتاتے ہوئے اسی زبان کا استعمال کر رہا ہے۔
بھگوا اور کالے رنگ سے بنی ہنومان کی تصویر ، جس میں ان کی بھنویں تنی ہوئی ہیں اور تیوریاں چڑھی ہوئی ہیں۔ ہندو گرنتھوں سے الگ موجودہ تصویرخود ساختہ ہندتووادی مرد کی امیج کے ساتھ فٹ بیٹھتی ہے۔