ویڈیو: آر ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے لگاتار یہ کہا گیا ہے کہ گزشتہ ساڑھے چھ سالوں میں مودی سرکار نے آر ٹی آئی قانون کو بےجان کرکے بدعنوانی کے خلاف اس لڑائی کو کمزور کیا ہے۔ اس بارے میں تفصیل سے بتا رہی ہیں سماجی کارکن انجلی بھاردواج۔
لوک سبھا میں اپوزیشن کےرہنماؤں کی جانب سے پی ایم کیئرس فنڈ پر لگاتار سوال اٹھانے پر بی جے پی رہنما کانگریس پرحملہ آور ہوتے رہے، ساتھ ہی کہا کہ پی ایم ریلیف فنڈگاندھی پریوار کی ذاتی ملکیت کی طرح کام کرتا ہے۔ حالانکہ پی ایم کیئرس فنڈ کی جوابدہی کو لےکر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
مودی سرکار کی ماحولیاتی اثرات کی تشخیص کے متنازعہ مسودے(ای آئی اے) 2020 کو 22 زبانوں میں ترجمہ کرانے کے دہلی ہائی کورٹ کی ہدایت کے خلاف ریویو پٹیشن دائر کرکےمرکز نے کہا ہے کہ ایسا کرنے سے ایک نئے چلن کی شروعات ہو جائےگی اور دوسرے نوٹیفکیشن کا بھی ترجمہ کرنے کا مطالبہ شروع ہوجائے گا۔
آرٹی آئی قانون سے ملی جانکاری کے مطابق، او این جی سی نے سب سے زیادہ 300 کروڑ روپے، این ٹی پی سی نے 250 کروڑ روپے، انڈین آئل نے 225 کروڑ روپے کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی(سی ایس آر) کا پیسہ چندہ کے طور پر پی ایم کیئرس فنڈ میں دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران 12سے 15ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔مصنفین کے مطابق ایک شخص کو گرفتار کرکے آگرہ جیل میں بس اس وجہ سے پہنچایا گیا کہ کسی فوٹو میں اس کو کسی کی نماز جنازہ ادا کرتے ہو ئے دیکھا گیا تھا۔
سپریم کورٹ میں دائر ایک عرضی میں کہا گیا تھا کہ چونکہ پی ایم کیئرس فنڈ کاطریقہ کاربےحدخفیہ ہے، اس لیےاس میں ملنے والی رقم این ڈی آرایف میں ٹرانسفر کی جائے، جو پارلیامنٹ سے پاس کیے گئے قانون کے تحت بنایا گیا ہے اور ایک شفاف سسٹم ہے۔
حال ہی میں مرکزی حکومت نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ2005 کے تحت بنائے گئے نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فنڈ میں افراداور اداروں کے ذریعے چندہ دینےکو منظوری دی ہے۔ لیکن کووڈ 19جیسی آفت کے دور میں جب طبی سہولیات کی بہتری کے لیے اس میں جمع رقم کا استعمال کیا جا سکتا ہے، اس میں چندہ دینے کے بارے میں عوام کو بےحد کم جانکاری ہے۔
ویڈیو: پچھلے دنوں ماحولیات کے مسائل کو اٹھانے والی تین ویب سائٹس کو کسی طرح کی اطلاع دیےبغیر بند کر دیا گیا۔ اسی طرح ہریانہ کے کئی اضلاع میں ایپیڈیمک ایکٹ کا سہارا لےکر کچھ صحافیوں اور سماجی تنظیموں کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
مودی سرکار کے متنازعہ ماحولیاتی قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ویب سائٹ کو بلاک کرنے کا آرڈر دیتے ہوئے دہلی پولیس نے کہا تھا کہ ان کی سرگرمیاں ملک کی سالمیت کے لیے ٹھیک نہیں ہیں۔ اب پولیس کا کہنا ہے کہ یو اے پی اے کے الزام والا نوٹس ‘غلطی’ سے چلا گیا تھا۔
مرکز نے سپریم کورٹ میں پی ایم کیئرس کی تشکیل کو جائز ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کے تحت ایک قانونی فنڈیعنی نیشنل ڈیزاسٹررسپانس فنڈ کے ہونے محض سے رضاکارانہ چندےکے لیے الگ فنڈکی تشکیل پر روک نہیں ہے۔
ویڈیو: بی جے پی نے الزام لگایا ہے کہ 2005-06 میں چین کی حکومت کی جانب سے راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کو چندہ دیا گیا تھا، وہیں کانگریس نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ایم کیئرس فنڈ میں کئی چینی کمپنیوں سے چندہ لیا گیا ہے۔ اس موضوع پر کانگریس ترجمان گورو ولبھ سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹرعارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
پی ایم کیئرس فنڈ کا طرزعمل شفاف نہیں ہے اور اس کوآر ٹی آئی ایکٹ کے دائرے سے بھی باہر کر دیا گیا، جس کی وجہ سے پتہ نہیں چل پا رہا ہے کہ واقعی یہ فنڈ کس طرح سے کام کر رہا ہے، کون اس میں چندہ دے رہا ہے اور اس جمع رقم کو کن کن کاموں میں خرچ کیا جا رہا ہے؟
آر ٹی آئی کے تحت حاصل کیے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ماحولیاتی اثرات کی تشخیص کے متنازعہ ڈرافٹ(ای آئی اے) کو لےکرعوام کی جانب سے بھیجے گئے مشوروں کی بنیاد پر وزارت ماحولیات کے افسران نے تجاویز ارسال کرنے کی مدت60 دن بڑھانے کی مانگ کی تھی، لیکن وزیرماحولیات پرکاش جاویڈکر نے اس میں محض 20 دن کا اضافہ کیا۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ چونکہ پی ایم کیئرس فنڈ کے کام کرنے کا طریقہ شفاف نہیں ہے اور اس کو آر ٹی آئی ایکٹ کے دائرے سے بھی باہر رکھا گیا ہے، اس لیے اس میں جمع رقم کو این ڈی آر ایف میں ٹرانسفر کیا جائے، جس پر آر ٹی آئی ایکٹ بھی نافذ ہے اور اس کی آڈٹنگ کیگ کرتا ہے۔
وزیر اعظم دفتر کی ویب سائٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ایم کیئرس فنڈ کا مالی سال کے آخر میں ایک آڈٹ کیا جائےگا اور 27 مارچ، 2020 کو نئی دہلی میں ایک پبلک چیریٹیبل ٹرسٹ کے طور پر اس کورجسٹرڈ کیا گیا تھا۔
دہلی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے وزیر اعظم دفتر کے اس جواب کو چیلنج دیا گیا ہے، جس میں اس نے کہا تھا کہ پی ایم کیئرس فنڈ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔
پی ایم کیئرس فنڈ میں حاصل ہوئی رقم اور اس کے خرچ کی تفصیلات عوامی کرنے سے منع کرنے کے بعد اب وزیر اعظم دفتر نے فنڈ میں چندہ کوٹیکس فری کرنے اور اس کوسی ایس آر خرچ ماننے کے سلسلے میں دستاویزوں کا انکشاف کرنے سے منع کر دیا ہے۔
بامبے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے پی ایم کیئرس فنڈ کے بارےمیں جانکاری کوعوامی کرنے اور کیگ سے اس کو آڈٹ کرانے کی مانگ کی گئی ہے۔
آر ٹی آئی کے تحت پی ایم کیئرس فنڈ سے متعلق خط وکتابت کی کاپی، فنڈ کو ملے کل چندے، اس فنڈ سے خرچ کی گئی رقم اور ان کاموں کی تفصیلات جس میں پیسے خرچ کیے گئے ہیں، یہ تمام جانکاریاں مانگی گئی تھیں۔ پی ایم او نے کہا کہ یہ جانکاری نہیں دے سکتے کیونکہ پی ایم کیئرس آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔
عالم یہ ہے کہ سلیکشن کمیٹی کے ایک ممبر فنانس سکریٹری راجیو کمارنے بھی سی وی سی کےعہدے کے لئے درخواست کی تھی اور ان کو اس کے لیے شارٹ لسٹ کیاگیا تھا۔
گزشتہ نومبر میں مرکزی وزیر پرہلاد پٹیل نے راجیہ سبھا میں بتایا تھا کہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم ہونے اور مختلف پابندیوں کے بعد ریاست میں سیاحت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ آر ٹی آئی کے تحت محکمہ سیاحت کے ذریعے دی گئی جانکاری ان کے دعویٰ کے برعکس تصویر پیش کرتی ہے۔
ایک آر ٹی آئی کے جواب میں دہلی پولیس نے بتایا کہ گزشتہ ساڑھے تین سال میں انہیں اپنے اہلکاروں کےخلاف تقریباً انیس ہزار شکایتیں ملیں، جن میں سے 8.2 فیصد پر کارروائی کی گئی۔
اس سے پہلے مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں بتایا تھا کہ سی آئی سی میں 13000 سے زیادہ ایسے معاملے ہیں، جو ایک سال سے زیادہ وقت سے زیر التوا ہیں۔
مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں جموں و کشمیر انتطامیہ کی طرف سے دیے گئے اعداد وشمار کی بنیاد پر بتایا ہے کہ جموں و کشمیر میں لاء اینڈ آرڈر بنائے رکھنے کے لیے وادی میں 4 اگست سے 5161 لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ان میں سے 609 لوگوں کو احتیاط کے طور پر حراست میں لیا گیا ہے۔
غیرسرکاری تنظیم سترک ناگرک سنگٹھن اور سینٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز کے ذریعے تیار کی گئی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کمیشن میں زیر التوا معاملوں کی اہم وجہ انفارمیشن کمشنر کی تقرری نہ ہونا ہے۔رپورٹ کے مطابق، ملک بھرکے26انفارمیشن کمیشن میں31مارچ2019تک کل 218347 معاملے زیر التوا تھے۔
اس کے علاوہ ایک مارچ 2018 سے 24 جولائی 2019 کے بیچ خریدے گئے کل الیکٹورل بانڈ میں سے 99.7 فیصدی بانڈ 10 لاکھ اور ایک کروڑ روپے کے تھے۔ تقریباً 80 فیصدی الیکٹورل بانڈ نئی دہلی میں بھنائے گئے ہیں۔
ویڈیو: سپریم کورٹ کے حکم کے 4 سال بعد پہلی بار آر بی آئی نے آر ٹی آئی کے تحت ٹاپ ول فل ڈیفالٹرس کی فہرست جاری کی ہے۔ اس مدعے پر دی وائر کے صحافی کبیر اگروال اور دھیرج مشرا کی بات چیت۔
خصوصی رپورٹ : حال ہی میں کابینہ نے این جی ٹی میں وزارت ماحولیات کے دوسینئر افسروں کو ماہرین کے طور پر ممبر بنانے کی منظوری دی ہے۔ ان کی مدت کارپانچ سال کے بجائے تین سال طےکی گئی ہے۔ ماہرین ماحولیات کا الزام ہے کہ مدت کار کو گھٹاکر مرکزی حکومت این جی ٹی کی خودمختاری کو متاثر کرنا چاہتی ہے۔
آر ٹی آئی کارکنوں نے نئے اصولوں کو انفارمیشن کمیشن کی آزادی اور ان کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا ہے۔
کسی شخص کے تحفظ کو خطرہ میں ڈال سکنے والی اطلاع ہونے کا حوالہ دےکر آر ٹی آئی کے تحت آگرہ سینٹرل جیل کی طرف سے جانکاری دینے سے انکار کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر تمام ریاستوں میں آر ٹی آئی دائر کرنے کے نظام کوآن لائن کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔ مرکز نے 2013 تمام ریاستوں سے آر ٹی آئی آن لائن پورٹل بنانے کے لئے کہا تھا لیکن ابھی تک صرف دہلی اور مہاراشٹر نے ہی یہ کام کیا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے سینٹرل انفارمیشن کمیشن کی 14ویں سالانہ کانفرنس میں کہا کہ آر ٹی آئی درخواستوں کی بڑی تعداد میں کسی حکومت کی کامیابی نہیں چھپی ہوتی۔
آر ٹی آئی قانون نافذ ہونے کی 14ویں سالگرہ پر جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق فروری 2019 میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد بھی انفارمیشن کمشنرکی وقت پر تقرری نہیں ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے ملک بھرکے انفارمیشن کمیشن میں زیرالتوا معاملوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور لوگوں کو صحیح وقت پر اطلاع نہیں مل پا رہی ہے۔
آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 24 (1) کچھ خفیہ اور سکیورٹی ایجنسی کو جانکاری شیئر کرنے سے چھوٹ دیتی ہے۔ حالانکہ، اگر مانگی گئی اطلاع بد عنوانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے جڑی ہے تو یہ اصول نافذ نہیں ہوتا ہے۔
وزارت خزانہ کے ڈپارٹمنٹ آف اکانومک افیئرس میں آر ٹی آئی داخل کرکے سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینے کے دوران پہچان کی رازداری بنائے رکھنے کے بارے میں چندہ دینے والوں کے ذریعے لکھے گئے خط اور الیکٹورل بانڈ اسکیم کے ڈرافٹ کی کاپی کے بارے میں جانکاری مانگی گئی تھی۔
آر ٹی آئی کے تحت مانگی گئی جانکاری میں وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ اس بارے میں ہمارے پاس کوئی جانکاری نہیں ہے۔یہ جانکاری جموں و کشمیر حکومت کے پاس ہو سکتی ہےلیکن اس درخواست کو وہاں ٹرانسفر نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ سینٹرل آر ٹی آئی قانون وہاں نافذ نہیں ہے۔
آر ٹی آئی کے تحت ملی جانکاری کے مطابق، گود دینے والے اداروں میں ایک اپریل 2016 سے اس سال آٹھ جولائی تک سب سے زیادہ 124 بچوں کی موت اتر پردیش میں ہوئی۔ اس کے بعد بہار میں 107 اور مہاراشٹر میں 81 بچوں کی موت درج کی گئی۔
وزارت کے جواب کے مطابق گووا ایک ایسی ریاست ہے ،جو جنگلی علاقہ پر قبضےسےآزادہے۔
آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل جانکاری کے مطابق، 31 جولائی 2019 تک یمنا ایکسپریس وے پر 357 سڑک حادثات میں 145 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ اگست اور ستمبر میں 9 اور لوگوں کی موت کے ساتھ یہ اعداد و شمار بڑھکر 154 ہو گئے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ حکومت سے براہ راست یا بلاواسطہ طور پر امداد پانے والے اسکول، کالج اور ہاسپٹل جیسے ادارے بھی آر ٹی آئی قانون کے تحت شہریوں کو اطلاعات مہیا کرانے کے لئے باؤنڈ ہیں۔