الزام ہے کہ اتراکھنڈ کے دھارچولا شہر میں نائی کی دکان پر کام کرنے والا ایک مسلم نوجوان دو ہندو نابالغ لڑکیوں کو ورغلا کر اپنے ساتھ لے گیا تھا، جس کے بعد دھارچولا ٹریڈ بورڈ نے مقامی انتظامیہ کے ساتھ مشاورت کرتے ہوئے 91 دکانوں کی رجسٹریشن رد کر دی، تقریباً ساری دکانیں مسلمانوں کی ہیں۔
اب تک جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے 13 متاثرہ مساجد کا دورہ کیا ہے، اور بتایا ہے کہ صرف پلول میں 6 مساجد نذر آتش کی گئیں، ہوڈل میں تین مساجد ، سوہنا میں تین مساجد، اور ایک مسجد گروگرام میں جلائی گئی۔ وفد کا یہ بھی کہنا ہے کہ تشدد کے دوران مذہبی کتابوں کو جلایا گیا اور تبلیغی جماعت کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔
غلامی کے دور میں غیر ملکی حکمرانوں تک نے اپنی پولیس سے عوام کے جان و مال کے تحفظ کی امید کی تھی، لیکن اب آزادی کے امرت کال میں لوگوں کی چنی ہوئی حکومت اپنی پولیس کے بوتے سب کو تحفظ دینے سے قاصر ہے۔
کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے نوح تشدد کے بعد متاثرہ علاقے میں جاری انہدامی کارروائی پر روک لگا دی ہے۔ عدالت نےکہا کہ لاء اینڈ آرڈر کے مسئلے کا استعمال ضروری قانونی ضابطوں کی پیروی کیے بغیر عمارتوں کو گرانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ہریانہ کے نوح میں31 جولائی کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں سوشل میڈیا اور کچھ نیوز ویب سائٹ پر ایسے دعوے کیے جا رہے تھے کہ نلہر مہادیو مندر میں پھنسی خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا تھا، پولیس نے ان دعووں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
اس ہفتے ہریانہ کے نوح میں تشدد کے بعد ضلع انتظامیہ نے جمعہ کو مکان اور املاک کو مسمار کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔ ایک طرف کچھ اہلکار کہہ رہے ہیں کہ توڑ پھوڑ کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں ہے تو دوسری طرف کچھ حکام کا دعویٰ ہے کہ کچھ املاک کے مالکان تشدد میں ملوث تھے۔
ویڈیو: گزشتہ ماہ مسلم کمیونٹی کے ایک شخص سمیت دو نوجوانوں نے مبینہ طور پر ایک لڑکی کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی، اس کے بعد اتراکھنڈ کے اترکاشی شہر میں حالات کشیدہ ہیں۔ اس کشیدگی کے درمیان پرولابازار میں کچھ پوسٹر لگائے گئے تھے، جس میں مسلم تاجروں سے کہا گیا ہے کہ وہ 15 جون سے پہلے اپنی دکانیں خالی کر دیں۔
سال 2021 میں ہونے والی مردم شماری ابھی تک نہیں ہوئی ہے، لیکن اتراکھنڈ میں ایک خاص مذہب کے لوگوں کی آبادی میں اضافے کے فرضی اعداد و شمار کھلے عام مشتہر کیے جا رہے ہیں۔ وہیں، ریاستی حکومت سپریم کورٹ کی سرزنش کی پرواہ نہ کرتے ہوئےکبھی تبدیلی مذہب کے قانون ،کبھی یکساں سول کوڈ، تو کبھی ‘لینڈ جہاد’ کے نام پر فرقہ پرست عناصر کو ہوا دے رہی ہے۔
گزشتہ ماہ مسلم کمیونٹی کے ایک شخص سمیت دو نوجوانوں نے مبینہ طور پر ایک لڑکی کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی، اس کے بعد سے اتراکھنڈ کے اترکاشی شہر میں کشیدگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔اس کشیدگی کے درمیان پرولا بازار میں کچھ پوسٹر چسپاں کیے گئے تھے، جس میں مسلم تاجروں سے 15 جون کو ہونے والی مہاپنچایت سے پہلے دکانیں خالی کرنے کو کہا گیا ہے۔
معاملہ ڈنڈوری کا ہے، جہاں خاتون کے اہل خانہ کی جانب سے ایک مسلم نوجوان پر اغوا کا الزام لگائے جانے کے بعد انتظامیہ نے ان کے گھر اور دکان توڑ دیے تھے۔ خاتون نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے، جس کے بعد عدالت نے اغوا کے کیس میں کارروائی نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔