ویڈیو:اتر پردیش پولیس کی ایس ٹی ایف نےجمعہ کو دعویٰ کیا تھا کہ مدھیہ پردیش کے اجین میں گزشتہ نو جولائی کو گرفتار کیے گئے آٹھ پولیس اہلکاروں کے قتل کے کلیدی ملزم وکاس دوبے کو کانپور لاتے وقت پولیس ٹیم کی ایک گاڑی پلٹ گئی۔ اس دوران وہ بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا، تو پولیس کو گولی چلانی پڑی۔
کانپور کے بکرو گاؤں میں جان گنوانے والے پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ وکاس دوبے کے مبینہ انکاؤنٹر سے مطمئن ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اب اس کے ساتھیوں اور سرپرستوں کا پردہ فاش نہیں ہو پائےگا۔
کانپور میں پچھلے ہفتے آٹھ پولیس اہلکاروں کےقتل کے کلیدی ملزم اور ہسٹری شیٹر وکاس دوبے کے مبینہ انکاؤنٹر پراپوزیشن نے سوال اٹھاتے ہوئے اس کو دوبے کے سیاسی سرپرستوں کو بچانے کی کوشش بتایا ہے اور جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔
مدھیہ پردیش سے ہسٹری شیٹر وکاس دوبے کو کانپور لا رہی یوپی پولیس کی ٹیم کے قافلے کے پیچھے چل رہے میڈیااہلکاروں نے بتایا ہے کہ ‘انکاؤنٹر’ سے کچھ ہی منٹ پہلے اچانک پولیس نے اس سڑک پر گاڑیوں کو روک دیاتھا۔
دو جولائی کی دیر رات اتر پردیش میں کانپور کے چوبےپور تھانہ حلقہ کے بکرو گاؤں میں پولیس کی ایک ٹیم گینگسٹر وکاس دوبے کو پکڑنے گئی تھی، جب وکاس اور اس کے ساتھیوں نے پولیس پر حملہ کر دیا تھا۔ اس تصادم میں آٹھ پولیس اہلکاروں کی موت ہو گئی تھی۔ گزشتہ نو جولائی کو پولیس نے وکاس دوبے کو مدھیہ پردیش کے اجین شہر سے گرفتار کیا تھا۔
لکھنؤ پولیس کی جوائنٹ کمشنرنے بتایا کہ سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران آگ زنی اور توڑ پھوڑ کرنے والے لوگوں کے خلاف گینگسٹر ایکٹ لگانے کی ہدایت پولیس تھانوں کو دی گئی ہے۔
سابق آئی پی ایس افسرایس آر داراپوری اور سماجی کارکن صدف جعفر ان 57 لوگوں میں شامل ہیں، جو 19 دسمبر، 2019 کے سی اے اے مخالف مظاہرہ کے دوران لکھنؤ میں1.55 کروڑ روپے کی پبلک پراپرٹی کے نقصان کے ملزم ہیں۔
پولیس کے مطابق، کانپور کے چوبے پور تھانہ حلقہ کے دکرو گاؤں میں ایک پولیس ٹیم جمعرات کو دیر رات ہسٹری شیٹر وکاس دوبے کو گرفتار کرنے جا رہی تھی، جب ان کا راستہ روک کر پاس کی چھت سے گولیاں چلائی گئیں۔اس میں سات لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ دوبے کے خلاف تقریباً60مجرمانہ معاملے چل رہے ہیں۔
صدر تحصیلدار نے بتایا کہ سی اے اے مخالف مظاہروں کو لے کر لکھنؤ کے چار تھانوں میں درج معاملوں کے سلسلے میں 54 لوگوں کے خلاف وصولی کا نوٹس جاری کیا گیاتھا۔ ان میں سے حسن گنج علاقے میں دو املاک کو منگل کو قرق کر لیا گیا۔
یوپی کانگریس اقلیتی سیل کے صدرشاہنواز عالم کو گزشتہ سال 19 دسمبر کو لکھنؤ میں سی اے اے-این آرسی کے خلاف ہوئے مظاہرہ کے معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ کانگریس نے اس کو سیاسی انتقام کے جذبے سے کی گئی کارروائی بتایا ہے۔
اتر پردیش کے اناؤ ضلع میں ایک صحافی کو گولی مارکر ہلاک کر دیاگیا تھا۔قتل کے پیچھے علاقےمیں سرگرم ریت فیا کا ہاتھ بتایا جا رہا ہے۔
اتر پردیش کے کانپور سے شائع ہونے والے ایک اخبار کے صحافی25سالہ شبھم منی ترپاٹھی نے اپنےقتل سے پہلے حکام کو خط لکھ کر علاقے کے زمین مافیا اور ریت مافیا سے اپنی جان کو خطرہ ہونے کی بات کہی تھی۔
معاملہ اتر پردیش کے فیروزآباد کا ہے۔مقامی بی جے پی رہنما نے پولیس سے کی گئی شکایت میں الزام لگایا ہے کہ ایک وہاٹس ایپ گروپ میں کیے جا رہے پوسٹ لوگوں کے جذبات کو مشتعل کر سکتے ہیں۔
وزیر اعظم کے گود لیے گئے گاؤں سےمتعلق ایک رپورٹ پرصحافی سپریہ شرما کے خلاف وارانسی میں کیس درج کیا گیا ہے۔میڈیااداروں کا کہنا ہے کہ حکام کے ذریعےقوانین کے اس طرح سے غلط استعمال کا بڑھتاہوارجحان ہندوستان کی جمہوریت کے ایک اہم ستون کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
نیوزپورٹل‘اسکرال ڈاٹ ان’کی ایگزیکٹو ایڈیٹر سپریہ شرما اور ایڈیٹران چیف کے خلاف ایس سی/ایس ٹی(انسداد مظالم)ایکٹ 1989 اور آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت اتر پردیش پولیس نے مقدمہ درج کیا ہے۔
ویڈیو: اتر پردیش کے شاملی ضلع میں پولیس کی بربریت کا ایک معاملہ سامنے آیا ہے۔ شاملی کے ٹپرنا گاؤں کے لوگوں کا الزام ہے کہ گزشتہ 26 مئی کو دیر رات پولیس نے لگ بھگ 35 مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر توڑپھوڑ کی۔ مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ مارپیٹ کی۔
سال2015 سے ڈوئچے ویلے کی جانب سےیہ سالانہ اعزازصحافت کے شعبہ میں انسانی حقوق اور بولنے کی آزادی کے لیے کام کرنے کے لیے دیا جاتا رہا ہے۔ اس بار یہ ایوارڈ دنیا بھر کے ان صحافیوں کو دیا جا رہا ہے، جنہوں نے کو رونابحران کے دوران ان کے ملکوں میں اقتدارکے استحصال اور کارروائی کا سامنا کیا ہے۔
ملک میں ایک لمبی اور مشکل لڑائی کے بعد حاصل کئے گئے جمہوری حقوق خطرے میں ہیں کیونکہ حکمراں پارٹی کے ذریعے ان کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
اتر پردیش کی فیض آباد پولیس کے ذریعے درج ایک ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ‘دی وائر’ کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن نے اتر پردیش کےوزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے بارے میں ‘قابل اعتراض ’ تبصرہ کیا تھا۔
معاملہ اتر پردیش کے بھدوہی ضلع کا ہے۔ پولیس نے کہا کہ دو بیٹیوں کی لاش کوغوطہ خوروں نے نکال لیا ہے۔ جبکہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی لاش کو نکالنےکی کوشش کی جا رہی ہے۔
سی آر پی سی کی دفعہ41 (اے)کے تحت بھیجے گئے نوٹس میں فیض آباد پولیس کے ذریعے درج ایک ایف آئی آر کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ‘دی وائر’ کے بانی مدیرسدھارتھ وردراجن نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے بارے میں ‘قابل اعتراض ’ تبصرہ کیا تھا۔
اس ہفتے کی شروعات میں مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ میڈیا کو رونا وائرس سے متعلق کوئی بھی جانکاری چھاپنے یا دکھانے سے پہلے سرکار سے اس کی تصدیق کرائے۔ اس کے بعد عدالت نے میڈیا کو ہدایت دی کہ وہ خبریں چلانے سے پہلے اس معاملے پر سرکاری بیان لے۔
دی وائر کے بانی مدیران نے بدھ کو ایک بیان جاری کر کے کہا کہ یوپی پولیس کے ذریعے درج ایف آئی آر جائز اظہار اور حقائق پر مبنی جانکاری پر حملہ کرنے کی کوشش ہے۔
لکھنؤانتظامیہ نے جن 13 لوگوں کو ری کوری سرٹیفیکٹ اور ڈیمانڈ نوٹس جاری کیے ہیں، وہ ان 57 لوگوں میں سے ہیں جنہیں پچھلے سال 19 دسمبر کو مظاہرہ کے دوران پبلک پراپرٹی کے نقصان کو لےکر 1.55 کروڑ روپے کی وصولی کے نوٹس بھیجے گئے تھے۔
سیڈیشن کے معاملے میں ملزم بنائے گئے کانپور کی ضلع عدالت کے وکیل عبدالحنان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ لکھنؤ کے حضرت گنج علاقے میں وزیراعلیٰ یوگی اور نائب وزیر اعلیٰ کیشوپرساد موریہ کے خلاف غیر مہذب پوسٹر لگانے کے الزام میں تین لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ان میں سے سدھانشو باجپئی اور اشونی کمار کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اتر پردیش کابینہ نے جلوس، مظاہرہ ، بند وغیرہ کے دوران پرائیویٹ اور پبلک پراپرٹی کے نقصان کی بھرپائی کے لیے جمعہ کو ایک آر ڈیننس کی تجویز کو منظوری دی۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش کی یوگی حکومت کو حکم دیا تھا کہ لکھنؤ میں سی اے اے مخالف مظاہرین کے نام، فوٹو اور ان کے پتے کے ساتھ لگائی گئی تمام ہورڈنگس فوراً ہٹائی جائیں۔ سپریم کورٹ نے اس حکم پر روک نہیں لگائی ہے۔
کورٹ نے مانا کی ریاستی حکومت کے ذریعے اس طرح کی ہورڈنگس لگانالوگوں کی پرائیوسی میں دخل اور آئین کے آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی ہے۔
ہائی کورٹ نے اتر پردیش کی یوگی حکومت کو حکم دیا کہ آج دوپہر تین بجے سے پہلے یہ سارے ہورڈنگس ہٹائے جائیں اور تین بجے کورٹ کو اس کی جانکاری دی جائے۔
لکھنؤ میں کئی مقامات پر لگائے گئے ان ہورڈنگس میں مظاہرین سے پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچانے کے الزام میں جرمانہ بھرنے کو کہا گیا ہے۔
علی گڑھ کے اپرکوٹ علاقے میں اتوار کو خواتین کو پولیس کے ذریعے شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے کی اجازت نہ دینے کی بات کہہ کر روکنے کے کوشش کی گئی جس کے بعد پولیس اور مظاہرین کے بیچ جھڑپ ہوئی۔ تشدد کے بعد علاقے میں سوموار آدھی رات تک انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ہے۔
اتر پردیش انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ 19 دسمبر 2019 کو لکھنؤ کے حضرت گنج میں شہریت قانون کے خلاف ہوئے احتجاج اور مظاہرے کے دوران پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ حالانکہ اس دن کئی کارکن نظربند تھے۔
معاملہ فیروزآباد ضلعے کا ہے۔ اگست 2019 میں ملزم نے ایک نابالغ لڑکی سے ریپ کیا تھا۔ رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ ملزم لگاتار ان پر مقدمہ واپس لینے کے لئے دباؤ بناتے ہوئے دھمکیاں دے رہا تھا، لیکن شکایت کے باوجود پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
اتر پردیش پولیس نے بتایا کہ کچہری میں کچھ لوگوں نے بار ایسوسی ایشن کے جوائنٹ سکریٹری سنجیو لودھی پر بم سے حملہ کیا۔ ایک بم پھٹا جبکہ باقی دو میں دھماکہ نہیں ہوا۔
سبھاش باتھم نام کے ایک شخص نے اپنی بچی کے برتھ ڈے کے بہانے بچوں کو اپنے گھر بلایا تھا اور گھر کے نیچے بنے بیسمینٹ میں ان بچوں کو رکھا تھا۔ ملزم قتل کے الزام میں جیل میں بند تھا اور حال ہی میں ضمانت پر باہر آیا تھا۔
ویڈیو: شہریت ترمیم قانون کو لےکر اتر پردیش میں ہوئے تشدد، لوگوں کی موت اور پولیس کے کام کرنے کے طریقے پر ریاست کے سابق آئی جی اور سماجی کارکن ایس آر داراپوری سے دی وائر کے مہتاب عالم کی بات چیت۔
اترپردیش کے فیروزآباد شہر میں گزشتہ 20 دسمبر کو شہریت ترمیم قانون کو لے کر ہوئے مظاہرے اور تشدد کے بعد پولیس نے ایسے 200 لوگوں کو نشان زد کر نوٹس بھیجا ہے، جن میں ایک مرحوم شخص اور شہر کے کچھ بزرگوں کے بھی نام ہیں،جو اب چل پھربھی نہیں سکتے۔
ویڈیو: شہریت ترمیم قانون کو لے کر ہوئے مظاہروں اور تشدد کے بعد اترپردیش پولیس پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ اترپردیش کے کئی علاقوں کا دورہ کر کے لوٹی فیکٹ فائڈنگ ٹیم کے ممبر اور سماجی کارکن ہرش مندر سے دی وائر کے ڈپٹی ایڈیٹر اجئے آشیروادکی بات چیت۔
مؤرخ عرفان حبیب نے ملک کے الگ الگ حصوں میں مظاہرین پر پولیس کارروائی کولے کر کہا کہ نوآبادیاتی زمانے میں بھی ہم نے مخالفت کا اس طرح استحصال نہیں دیکھا۔ مخالفت کو اس طرح کچلنے کی کوششوں کو لےکر لوگ کافی فکرمند ہیں کیونکہ مخالفت کا حق جمہوری سماج کا حصہ ہے۔