کوئی نہیں کہہ سکتا کہ لیڈر کےطور پرمنیش تیواری یا سلمان خورشید کےعزائم نہیں ہیں یا اس کو پورا کرنے کے لیے وہ کتاب لکھنے اور اس کے سوا جو کرتے ہیں، اس کی نکتہ چینی نہیں کی جانی چاہیے ۔ لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس کےرہنماؤں کےطور پر انہیں اپنےخیالات کوپیش کرنے کی اتنی بھی آزادی نہیں ہے کہ وہ رائٹر کےطورپر پارٹی لائن سے ذرا سا بھی الگ جا سکیں؟
کانگریس اب بھی قومی سیاست میں اہمیت رکھتی ہے، لیکن اسے وقت کےحساب سے خودکو نیا روپ دیتے ہوئےسیکولرازم پر توجہ دینی ہوگی۔
دی وائرکی خصوصی رپورٹ: آرٹی آئی کے تحت حاصل کیے گئے خفیہ دستاویز بتاتے ہیں کہ ریزرو بینک نے اپنی رسک اسسمنٹ رپورٹ میں پنجاب نیشنل بینک کی کئی سنگین خامیوں کو اجاگر کیا تھا، لیکن اس میں ان محکمہ جاتی کمیوں کو ٹھیک کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہیرا کاروباریوں میہل چوکسی اور نیرو مودی نے 13000 کروڑ روپے کا گھوٹالہ کیا۔
چاہےمرکز میں یو پی اے کی سرکار رہی ہو یاموجودہ این ڈی اے کی،نکسلائٹ مہم کے نام پرسینٹرل سیکیورٹی فورسزکی جانب سےآدی واسیوں پرتشدد جاری رہتی ہے۔اس بات کی تردید نہیں کی جا سکتی کہ جھارکھنڈ میں ماؤنوازتشددایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن اسے روکنے کے نام پر بے قصورآدی واسیوں کو ہراساں کرنے کا کیاجواز ہے؟ کیوں ابھی بھی آدی واسیوں کےروایتی و ثقافتی نظام کو درکنار کر سیکیورٹی فورسز ان کے علاقے میں دراندازی کرکے انہیں پریشان کر رہے ہیں؟
ویڈیو: ملک میں آپ کو ایک طرف مفت ویکسین مل رہی ہے اور دوسری طرف سرکاریں آپ کی جیب سے پٹیرول، ڈیزل کے نام پر پیسہ نکلوا رہی ہیں۔ کیا فری ویکسین کے پیچھے کی وجہ پیٹرول ، ڈیزل کے بڑھتی قیمت ہے، بتا رہے پروفیسر ارون کمار۔
دی وائر کی خصوصی رپورٹ: آر ٹی آئی کے تحت حاصل اعداد و شمار کے مطابق ٹاپ 100 این پی اے قرض داروں کا این پی اے 446158 کروڑ روپے ہے، جو کہ ملک میں کل این پی اے 1009286 کروڑ روپے کا تقریباً 50 فیصدی ہے۔
ہمارے لبرل صحافی اور روشن خیال دانشوران فاشزم اورکمیونلزم کے خلاف اپنی لڑائی کو مسلمانوں کے کندھوں پر رکھ کر کیوں لڑنا چا ہتے ہیں؟ ڈر کو مسلمانوں کے ساتھ کیوں چپکا دینا چاہتے ہے؟ جہاں تک مسلمانوں کے ڈر جانے کا سوال ہے تو یہ محض ایک فیک نیوز ہے۔ متھ ہے۔ اور کچھ نہیں۔ مسلمان فکر مند ضرور ہیں، خوف زدہ با لکل نہیں۔تقسیم کے بعد جن مسلمانوں نے پاکستان کو ٹھکرا دیا کم از کم ان کے بارے میں تو ایسا ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔
کسی بھی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں بھولے سے بھی مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا۔کانگریس نے تو انتخابی منشور کی رسم اجراء کی تقریب میں غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل جیسے قدآور لیڈروں کو بھی دوررکھا۔ بہار کی راشٹریہ جنتا دل ،جس کی پوری سیاست مسلمانوں اوریادو پر منحصر ہے اس نے بھی اپنے منشور میں ایک جگہ بھی مسلم لفظ نہیں لکھا۔
2019 میں بی جے پی کی مہم خصوصی طور پر ہندو اکثریت کے لیے ہے۔ پارٹی ان کے خوف اور عدم تحفظ کے احساسات کو بنیاد بنا کر ووٹ مانگ رہی ہے۔ اسی لیے امت شاہ مسلمانوں کو ‘دیمک’ بتا چکے ہیں، آدتیہ ناتھ بجرنگ بلی کو علی کے بالمقابل کھڑا کر چکے ہیں اور مودی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مغربی بنگال میں ہندو ‘جئے شری رام‘ کا نعرہ بھی بلند نہیں کر سکتے۔
آج ہندوستانی سیاست ایک ایسے دور میں ہے جب کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلم کمیونٹی کی بات نہیں کرنا چاہتی۔ وہ سیاسی طور پر اچھوت بنا دئے گئے ہیں۔ اب ان کا استعمال اکثریتی آبادی کو ووٹ بینک میں تبدیل کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔
جنوری 2019 میں سپریم کورٹ نے آر ٹی آئی کے تحت بینکوں کی سالانہ جائزہ سے متعلق رپورٹ نہ دینے پر آر بی آئی کو ہتک عزت نوٹس جاری کیا تھا، حالانکہ جمعہ کو عدالت نے ہتک عزت کی کارروائی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کو آر ٹی آئی قوانین کے اہتماموں پر عمل کرنے کا آخری موقع دے رہی ہے۔
اگستا ویسٹ لینڈ وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر گھوٹالہ میں 6 کروڑ یورو کی دلالی کے ملزم برٹش نژاد مشیل نے کہا کہ میرے بغل والا قیدی چھوٹا راجن ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ میں نے کیا جرم کیا ہے کہ مجھے ان لوگوں کے ساتھ رکھا جا رہا ہے جنہوں نے کئی قتل کئے ہیں۔
اتر پردیش کے جاٹ رہنماؤں نے کہا کہ ان کی کمیونٹی کے لوگ اس بار لوک سبھاا نتخابات میں مایاوتی کو ووٹ دیں گے۔
ایک پولیس افسرکے مطابق ،ملی ٹنٹ تنظیمیں اپنی حکمت عملی تبدیل کر رہی ہیں ۔ اس سے پہلے ملی ٹنسی میں شامل ہوئے ہر ایک ملی ٹنٹ کی تصویر جان بوجھ کر سوشل میڈیا پر وائرل کی جاتی تھی مگر اب سائیلنٹ یا چھپ کر ملی ٹنسی میں شمولیت کی حکمت عملی اپنائی جارہی ہے تاکہ نئے ملی ٹنٹ سیکورٹی راڈارسے محفوظ رہیں اور مختلف علاقوں میں نقل و حمل کرسکیں۔
ای ڈی کے وکیل نے کورٹ کو یہ بھی بتایا کہ سودے کے دوران مشیل اور دوسرے لوگوں کی بات چیت میں کسی ‘بڑے آدمی’ کا ذکر آیا تھا، جس کا نام انگریزی کے ‘آر’ سے شروع ہوتا ہے۔
سابق انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریولو نے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو خط لکھکر کہا ہے کہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن کو حکومت کے ذریعے اس کے خلاف دائر مقدموں کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
براڈ کاسٹ آڈینس ریسرچ کاؤنسل کے ذریعے حالیہ اعدادو شمار کے مطابق ؛ 12 سے 16 نومبر کے بیچ ٹی وی چینلوں پر 22099 بار بی جے پی کا اشتہار دکھایا گیا۔ یہ اعداد وشمار ملک کے دوسرے سب سے بڑی ٹی وی اشتہار نیٹ فلکس سے 10 ہزار زیادہ ہے۔
گزشتہ اکتوبر مہینے میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے وزیر اعظم دفتر کو 2014 سے 2017 کے درمیان مرکزی وزراء کے خلاف ملی بد عنوانی کی شکایتوں، ان پر کی گئی کارروائی اور بیرون ملک سے لائے گئے بلیک منی کے بارے میں جانکاری دینے کا حکم دیا تھا۔
انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریولو نے چیف انفارمیشن کمشنر آر کے ماتھر کو خط لکھکر کہا کہ آر بی آئی کے ذریعے جان بوجھ کر قرض نہ چکانے والے لوگوں کی جانکاری نہیں دینے پر سینٹرل انفارمیشن کمیشن کو سخت قدم اٹھانا چاہیے۔
اسپیشل رپورٹ : سپریم کورٹ نے تین سال پہلے دسمبر 2015 میں آر بی آئی کی تمام دلیلوں کو خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آر بی آئی ملک کے ٹاپ 100 ڈفالٹرس کے بارے میں جانکاری دے اور اس سے متعلق اطلاع ویب سائٹ پر اپلوڈ کرے۔
سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) نے 50 کروڑ روپے اور اس سے زیادہ کا قرض لینے اور جان بوجھ کر اس کو ادا نہیں کرنے والوں کے نام کے بارے میں اطلاع نہیں مہیا کرانے کو لے کر آر بی آئی گورنر ارجت پٹیل کو وجہ بتاؤ نوٹس بھیجا ہے۔
دی وائر کی اسپیشل رپورٹ: ایک آر ٹی آئی کے جواب میں آر بی آئی نے بتایا کہ سابق آر بی آئی گورنر رگھو رام راجن نے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت وزارت خزانہ کو این پی اے گھوٹالےبازوں کی فہرست بھیجی تھی۔ فہرست کے تعلق سے ہوئی کارروائی پر جانکاری دینے سے مرکزی حکومت نے انکارکیاہے۔
اب یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ کیا مودی حکومت ان بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے خلاف کارروائی کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہے، جو آنے والے عام انتخابات میں نامعلوم انتخابی بانڈس کے سب سے بڑے خریدار ہو سکتے ہیں۔
وجے مالیا نے ہر پارٹی کی مدد سے خود کو راجیہ سبھا میں پہنچا کر ہندوستان کی پارلیامانی روایت پر احسان کیا ۔میں مالیا کا اس وجہ سے احترام کرتا ہوں ۔ اس معاملے میں میں پرو-مالیا ہوں ۔کیا مالیا بہت بڑے سیاسی مفکر تھے؟ جن جن لوگوں نے ان کو پارلیامنٹ پہنچایا وہ آکر سامنے بولیں تو ون سنٹینس میں !
اگر یہ سیاسی تنازعہ کسی بھی طرح سے اقتصادی جرم کا ہے تو دس لاکھ کروڑ روپے لےکر فرار مجرموں کے نام لئے جانے چاہیے۔ کس کی حکومت میں لون دیا گیا یہ تنازعہ ہے، کس کو لون دیا گیا اس کا نام ہی نہیں ہے۔
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے پیٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمت اور اس کے متعلق مودی حکومت کے رد عمل پر ونود دوا کا تبصرہ۔
کچھ امیر صنعت کار اور امیر ہوتے رہے، عوام ہندو-مسلم کرتی رہی، اس لئے کانگریس بھی نہیں بتاتی ہے کہ وہ جب اقتدار میں آئےگی تو اس کی الگ اقتصادی پالیسی کیا ہوگی۔ بی جے پی بھی یہ سب نہیں کرتی ہے جبکہ وہ اقتدار میں ہے۔
پارلیامنٹ کی Estimates Committee کو بھیجے خط میں آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے ان طریقوں کے بارے میں بتایا ہے جن کے ذریعے بےایمان بزنس گھرانوں کو حکومت اور بینکنگ نظام سے گھوٹالہ کرنے کی کھلی چھوٹ ملی۔
کشمیر کے موجودہ حالات پر سینئر صحافی اور The Generation of Rage in Kashmir کے مصنف ڈیوڈ دیوداس کے ساتھ مہتاب عالم کی بات چیت۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ اس سے پارلیامنٹ کے خصوصی اختیارات کی پامالی ہوگی۔ وزارت کے مطابق بلیک منی سے متعلق رپورٹ گزشتہ سال 21 جولائی کو پارلیامنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس بھیج دی گئی تھی، لیکن اس کو شیئر نہیں کیا جا سکتا ہے۔
معاملے کے ایک ملزم کرشچین مشیل کی بہن اور وکیل نے الزام لگایا ہے کہ ہندوستانی جانچ افسروں نے مشیل سے یہ پیشکش کی تھی کہ اگر وہ قبولکر لے کہ جس وقت وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر ڈیل ہوئی ، وہ ذاتی طور پر سونیا گاندھی کو جانتا تھا تو اس کو رہا کر دیا جائےگا۔
اگر آپ صرف وزیر اعظم نریندر مودی کی ٹوئٹر ٹائم لائن دیکھیںگے، تو آپ کو پتہ نہیں لگےگا کہ ملک میں کیا چل رہا ہے۔
مودی حکومت کو چار سال کا جشن منانے کا کوئی حق نہیں ہے۔یہ حکومت بد عنوانی، کالے دھن، مہنگائی، دہشت گردی اور خارجہ پالیسی کو لےکر پوری طرح ناکام رہی ہے۔
ہر حکومت کے دور میں ایک سیاسی تہذیب پنپتی ہے۔ مودی حکومت کے دور میں جھوٹ نئی سرکاری تہذیب ہے۔ جب وزیر اعظم ہی جھوٹ بولتے ہیں تو دوسرے کی کیا کہیں۔
یہ بات بالکل دو اور دو چار جیسی صاف ہے کہ کانگریس جنرل اسمبلی کے منچ سے جو بھی بولا جا رہا تھا وہ محض سیاسی بیان بازی تھی۔
ہمارے عظیم کھلاڑیوں کو عوام سرآنکھوں پر بٹھاتی ہے، مگر عوام پر جب ایسا کوئی برا وقت آتا ہےجس کے لئے حکومت یا سماج کا ایک طبقہ ذمہ دار ہو تو وہ ایسے غائب ہو جاتے ہیں، گویا اس دنیا میں رہتے نہ ہوں۔
چاہے ہیراکاروبار کا معاملہ ہو یا بنیادی ڈھانچوں کے کچھ بڑے منصوبے، کام کرنے کا طریقہ ایک ہی رہتا ہے-منصوبے کی لاگت کو بڑھاچڑھاکر دکھانا اور بینکوں اور ٹیکس دہندگان کا زیادہ سے زیادہ پیسہ اینٹھنا۔
پبلک سیکٹرکے بینکوں کو نجی ہاتھوں میں دینے سے مسئلہ ختم ہو جائےگا، ایسا سوچنا جہالت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
پچھلی حکومتوں میں سسٹم کو اپنے فائدے کے لئے توڑ نے مروڑنے والے سرمایہ دار مودی حکومت میں بھی پھل پھول رہے ہیں۔
2017 کو ایک ایسے سال کے طور پر یاد کیا جائےگا، جس میں ہندوستانی معیشت کو اپنے ہی ہاتھوں بھاری نقصان پہنچایا گیا۔ ہو سکتا ہے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی آنے والے وقت میں 2017 میں سیاسی معیشت میں آئی رکاوٹوں […]