خبریں

دی ہندو کی رپورٹ میں ہوا انکشاف: رافیل ڈیل میں پی ایم او نے دیا تھا دخل، وزارت دفاع نے کیا تھا اعتراض

دی ہندو اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ فرانس حکومت کے ساتھ رافیل سمجھوتے کو لے کر وزارت دفاع کے ساتھ پی ایم او بھی متوازی بات چیت کر رہا تھا ۔ دی وائر نے بھی اس  سال جنوری میں  اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ وزارت دفاع  کے رافیل معاہدے کی شرطوں کو لے کر پی ایم او سمجھوتہ کر رہا تھا۔

فوٹو: پی آئی بی

فوٹو: پی آئی بی

نئی دہلی: ہندوستان اور فرانس کے بیچ 7.87 ارب یورو  کے متنازعہ  رافیل سودے کو لے کر ہوئی بات چیت میں وزیر اعظم دفتر (پی ایم او) کی جانب سے متوازی بات چیت کی وزارت دفاع نے مخالفت کی تھی ۔دی ہندو نے انکشاف کیا ہے کہ رافیل سودے میں پی ایم او نے فرانس حکومت سے  متوازی بات چیت کی تھی ۔ اخبار کا کہنا ہے  کہ یہ صاف تھا کہ پی ایم او کی جانب سے اس طرح کی متوازی بات چیت نے اس سودے پر وزارت دفاع اور ہندوستاتی مذاکرہ کاروں  کی بات چیت کو کمزور کیا۔

24 نومبر 2015 کے وزارت دفاع کے ایک خط کے ذریعے اس پورے معاملے کو  اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پریکر کی جانکاری میں لایا گیا تھا۔

فوٹو: دی ہندو

فوٹو: دی ہندو

اس خط میں کہا گیا ہے کہ ، ہمیں پی ایم او کو صلاح دینی چاہیے  کہ کوئی بھی افسر جو اس سودے کے لیے ہندوستان کی طرف سے مذاکرہ کرنے والی ٹیم کا حصہ نہیں ہے اس کو فرانس حکومت  کے افسروں  کے ساتھ متوازی بات چیت سے دوری بنائے رکھنی چاہیے۔

اس میں آگے کہا گیا ہے کہ اگر وزارت دفاع کی جانب سے کی جارہی بات چیت کے نتائج سے پی ایم او مطمئن نہیں ہے تو ایک مناسب سطح پر پی ایم او کی قیادت میں نیا مذاکرہ ہوسکتا ہے۔

سپریم کورٹ میں  اکتوبر 2018 میں حکومت  کی جانب سے درج رپورٹ  میں کہا گیا تھا کہ رافیل سودے کو لے کر بات چیت ڈپٹی چیف آف ایئر اسٹاف کی قیادت میں 7 رکنی ٹیم نے کی تھی ۔ اس بات چیت میں پی ایم او کی جانب سے کسی بھی طرح کے رول کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔

دستیاب آفسیل دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ وزارت دفاع نے پی ایم او کی اس دخل اندازی کی مخالفت کی تھی ۔ پی ایم  او کی جانب سے لیے گئے فیصلے وزارت دفاع اور مذاکرہ کرنے والی ٹیم کے فیصلے سے الگ تھے۔

اس وقت کے  Defence Secretary جی موہن کمار نے لکھا تھا، وزیر دفاع اس پر برائے مہربانی توجہ دیں ۔ اس طرح کی بات چیت سے پی ایم او کو بچنا چاہیے کیوں کہ یہ ہماری بات چیت کی سنجیدگی کو کم کرتا ہے۔

فوٹو: دی ہندو

فوٹو: دی ہندو

اس نوٹ کو ڈپٹی سکریٹری (ایئر-2) ایس کے شرما نے تیا رکیا تھا ۔ جس کو  Joint Secretary & Acquisition Manager (ایئر) Director General(Acquisition) دونوں نے حمایت کی تھی ۔اس نوٹ میں کہا گیا ہے  کہ ، اس طرح کی متوازی بات چیت ہمارے مفاد کے لیے نقصاندہ ہو سکتی ہے کیوں کہ فرانسیسی حکومت اپنے نفع کے لیے اس  کا فائدہ اٹھا سکتی ہے  اور ہندوستان کی جانب سے مذاکرہ کرنے والی ٹیم کی حیثیت کو کمزور کر سکتی ہے اور اس معاملے میں بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔

وزارت دفاع نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جنرل ریب نے اپنے خط میں کہا تھا کہ فرانس کے ڈپلومیٹک مشیر اور وزیر اعظم کے جوائنٹ سکریٹری کے درمیان جو بات چیت ہوئی ہے، اس میں طے ہوا کہ کوئی بینک گارنٹی نہیں دی جائے‌گی،’لیٹر آف کنفرٹ ‘ہی کافی ہے۔ اس کو کمپنی کی طرف سے گارنٹی کے طور پر مانا جائے۔نوٹ میں کہا گیا کہ یہ وزارت دفاع کے رخ سے الگ تھا اور ہندوستان کی مذاکرہ کار ٹیم کی طرف سے  واقف کرایا گیا تھا کہ کسی بھی تجارتی سمجھوتہ کے لئے سرکاری یا بینک گارنٹی ہونی چاہیے۔ پی ایم او کی طرف سے اس متوازی بات چیت کی وزارت دفاع سے ایک دم الگ رخ کی ایک اور مثال اس معاہدے میں ثالثی نظام بھی ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے اپریل 2015 میں پیرس میں اس سمجھوتہ کا اعلان کیا تھا۔ 26 جنوری 2016 کو جب فرانس کے سابق صدر فرانسوا اولاند یوم جمہوریہ تقریب میں بطور مہمان خصوصی ہندوستان آئے تھے تب اس سمجھوتہ پر دستخط ہوئے تھے۔وزارت دفاع کے نوٹ کے مطابق، پی ایم او کی طرف سے یہ متوازی بات چیت فرانس کی مذاکرہ کار ٹیم کے صدر جنرل اسٹیفن ریب کے 23 اکتوبر 2015 کو لکھے خط سے سامنے آئی۔اس خط میں پی ایم او میں جوائنٹ سکریٹری جاوید اشرف اور فرانس کی وزارت دفاع میں ڈپلومیسی مشیر لوئیس ویسی کا ٹیلی فون مذاکرہ کا بھی ذکر ہے۔

وزارت دفاع کے ذریعے جنرل ریب کے خط کو پی ایم او کے علم میں لایا گیا۔ اس معاہدے کے لئے ہندوستان کی طرف سے مذاکرہ کار ٹیم کے چیف ایئر مارشل ایس بی پی  سنہا نے وزیر اعظم کے جوائنٹ سکریٹری اشرف کو بھی خط لکھا۔اشرف نے 11 نومبر 2015 کو ایئر مارشل سنہا کو جواب دیتے ہوئے تصدیق کی کہ انہوں نے فرانس کے وزیر دفاع کے ڈپلومیسی مشیر لوئیس ویسی سے بات چیت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ویسی نے فرانس کے صدر دفتر کی صلاح پر مجھ سے بات کی تھی۔

غور طلب ہے کہ اولاند نے کہا تھا کہ اربوں ڈالر کے اس معاہدے میں حکومت ہند نے انل امبانی کے ریلائنس ڈیفینس کوڈاسسو ایویشن کا پارٹنر  بنانے کی تجویز دی تھی۔اولاند کے حوالے سے کہا گیا تھا، حکومت ہند نے اس گروپ کو تجویز دی تھی اور ڈاسسو ایویشن نے (انل) امبانی گروپ کے ساتھ بات چیت کی۔ ہمارے پاس کوئی اختیار نہیں تھا، ہم نے وہ مذاکرہ کار لیا جو ہمیں دیا گیا۔

یہ پوچھے جانے پر کہ پارٹنر کے طور پر کس نے ریلائنس کا انتخاب کیا اور کیوں؟ اولاند نے کہا، اس تناظر میں ہمارا کوئی کردار نہیں تھا۔دی وائر نے اپنی رپورٹ میں پہلے ہی اس بات کاانکشاف کیا تھا۔ دراصل، انتہائی معتبر ذرائع نے دی وائر کو بتایا تھا کہ یہ سرکاری طور پر سرکاری فائلوں میں درج ہے کہ وزارت دفاع کے رافیل معاہدے کی شرطوں کو لےکر وزیر اعظم دفتر (پی ایم او) سمجھوتہ کر رہا تھا۔ وزارت دفاع 2015 کے آخر تک معاہدے کے مختلف حساس پہلوؤں پر بات کر رہا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سرکاری فائلوں میں یہ درج ہے کہ وزارت دفاع کی ٹیم کے رافیل سمجھوتہ  کی شرطوں کو لےکر پی ایم او مسئلہ پیدا کر رہا تھا۔ضابطہ کے مطابق، وزارت دفاع کی معاہدہ سے متعلق مذاکرہ کمیٹی میں ایسے ماہر ہوتے ہیں جو دفاعی سامان کی خریداری کی مکمل طور سے آزادانہ تشخیص کرتے ہیں۔اس کے بعد کمیٹی کے فیصلے اور اندازے کو کابینہ کمیٹی آن سکیورٹی(سی سی ایس)کو بھیج دیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں، ایسے اشارے ہیں کہ پی ایم او وقت سے پہلے مداخلت کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔