خبریں

مجھے جموں وکشمیر کے لوگوں کی فکر ہے، واپس آکر سپریم کورٹ کے سامنے رپورٹ پیش کروں گا

سپریم کورٹ نے سوموار کو سینئر کانگریسی رہنما اور جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد کو ریاست میں جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کوئی سیاسی جلسہ نہ کریں۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار کو کانگریس کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد کو جموں وکشمیر جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ  وہ وہاں کوئی سیاسی ریلی نہ کریں۔چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی  ایک بنچ نے جموں کشمیر کےسابق وزیر اعلیٰ  کو جموں، اننت ناگ، بارہمولہ اور سرینگر جانے اور لوگوں سے بات چیت کرنے کی اجازت دے دی۔بنچ میں جسٹس ایس اے بوبڈے اور جسٹس ایس اے  نذیر بھی شامل تھے۔

آزاد کی جانب سے سینئر وکیل اے ایم سنگھوی نے بنچ سے کہا کہ وہ لوگوں سے مل کر ان کا حال چال جاننا چاہتے ہیں۔سنگھوی نے کہا کہ آزاد نے تین بار وہاں جانے کی کوشش کی لیکن انہیں ہوائی اڈے سے ہی لوٹا دیا گیا۔ آزاد نے اتوار کو کہا تھا کہ وہ ‘غیر سیاسی’ تھا۔آزاد نے عرضی میں عدالت سے اپنے اہل خانہ  اور رشتہ داروں سے ملنے کی اجازت بھی مانگی تھی۔ آزاد نے ریاست کو خصوصی درجہ دینے والے اہتماموں کو ہٹائے جانے کے بعد افسروں  کی جانب سے  عائد پابندیوں  کے مد نظر سماجی صورت حال  کے  معائنہ کی اجازت بھی مانگی تھی۔

وہیں، جموں کشمیر کے دورے کی اجازت دینے کے لئے سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد نے سوموار کو کہا کہ انہیں ریاست  کے لوگوں کی تشویش  ہے اور واپس آ کر وہ عدالت کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔؎آزاد نے صحافیوں سے کہا، ‘مجھے بھی تشویش  ہے کہ جموں کشمیر میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ خدمات ہونی چاہیے۔ لیکن اس سے پہلے ترجیح یہ ہے کہ لوگ زندہ  رہنے کے لئے کمائیں اور اپنے اہل خانہ کو کھلائیں۔’

انہوں نے دعویٰ کیا، ‘بی جے پی  کے رہنماؤں کو چھوڑکر دوسری پارٹیوں  کے رہنماؤں کو نظربند کیا گیا۔ کون آواز اٹھائے گا؟ اس لئے میں سپریم کورٹ گیا۔ حکومت  اس کو لے کر فکرمند نہیں ہے۔’آزاد نے کہا، ‘میں نے جموں کشمیر جانے کی کوشش کی تھی لیکن مجھے واپس بھیج دیا گیا۔ میں نے بالکل نہیں کہا ہے کہ اپنے اہل خانہ سے ملنے جا رہا ہوں۔گھروالوں  کی بھی فکر ہے، لیکن اس سے زیادہ میری لوگوں کے بارے میں تشویش ہے کہ وہ کیا کھا رہے ہیں، کیا پی رہے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘میں پوری  ریاست کا دورہ کرنا چاہتا تھا، لیکن مجھے کچھ جگہوں  پر جانے کی اجازت ملی ہے۔ میں سپریم کورٹ کا شکریہ  کرتا ہوں۔ جو بھی رپورٹ لاؤں گا وہ عدلیہ  کے سامنے  رکھوں گا۔’