خبریں

ہائی کورٹ نے پلواما حملے سے متعلق پی ایس اے کے 80 فیصدی معاملات کو رد کیا

ایک رپورٹ کے مطابق، جموں  و کشمیر ہائی کورٹ کی سری نگر بنچ  میں   14 فروری 2019 کو ہوئے پلواما حملے سے لےکر پانچ اگست تک 150ہیبیس کارپس کی عرضیاں  داخل کی گئی ہیں۔ ان میں پبلک سیفٹی ایکٹ سے جڑے 39 معاملات میں سے تقریباً 80 فیصدی معاملات ایسے تھے جن میں عدالت نے   حراست میں  لئے گئے لوگوں کو رہا کرنے کا حکم دیا  تھا۔

فوٹو: بہ شکریہ فیس بک

فوٹو: بہ شکریہ فیس بک

نئی دہلی :جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد سے یعنی پانچ اگست سے لےکر ابھی تک 4000 لوگوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے ، جن میں تقریباً 300 لوگوں کو پی ایس اے کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔ حالانکہ اب تک سرکار کی طرف سے کسی طرح کے اعداد و شمارکا پتہ نہیں چلاہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، جموں و کشمیر میں درجن بھرہیبیس کارپس عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔ ان عرضیوں میں لوگوں کی حراست  کو چیلنج دیا گیا ہے اور حکومت سے حراست میں رکھے گئے لوگوں کو عدالت میں پیش کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے  ذریعے حاصل کیے گئے ریکارڈ کے مطابق، 14 فروری کو ہوئے پلواما حملے سے لےکر  پانچ اگست تک جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے سرینگر بنچ کے سامنے 150 ہیبیس کارپس عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔ ان میں سے 39  پر فیصلہ آ گیا ہے۔ عدالت نے تقریباً 80 فیصدی معاملات  میں حراست میں لئے گئے لوگوں کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے ۔ یہ تمام 39 عرضیاں ان لوگوں کی تھیں، جن کو پی ایس اے کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ ، پانچ اگست کو جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو مرکز ی کی مودی حکومت نے ختم کر دیا تھا۔ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے  کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے تحت ہائی کورٹ نے چھ بنیادوں پر حراست میں لئے گئے لوگوں کو رہا کرنے کا حکم دیا، جن میں آئینی حقوق کی خلاف ورزی، ضابطے کے نفاذ میں خامیاں، کاروائی کے لئے عام قانون کے کافی ہونے پر پی ایس اے کی ضرورت نہیں اور حراست کو صحیح ٹھہرانے کے لئے نئے حقائق  کا نہیں ہونا شامل ہے۔

جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے ذریعے حراست میں لئے گئے لوگوں کو رہا کرنے کے ان 39 معاملات میں دیے گئے فیصلوں کا مطالعہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ اگر ریاست کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کو این ایس اے کے تحت حراست میں رکھے جانے کو لےکر قانونی چیلنج کیا جاتا ہے، تو ان کو حراست میں رکھنے کے اس  فیصلے  کے تحت چیلنج دیا جا سکتا تھا۔آٹھ معاملات  میں سے جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے حراست میں لئے جانے کا معاملہ اس لئے رد کر دیا کیونکہ عدالت کا کہنا تھا کہ ضلع مجسٹریٹ (ڈی ایم) کے ذریعے ان معاملات  میں عرضی نہیں پیش کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ڈی ایم خود ملزم کو حراست میں لئے جانے  کے معاملےمیں پراعتمادنہیں  تھے۔

پانچ معاملات میں حکومت کی شدید خامیاں پائی گئیں۔ حکومت کے ذریعے  یہ نہیں بتایا  گیا کہ مجرمانہ عدالتوں نے پہلے سے ہی حراست میں رکھے گئے لوگوں کو ضمانت دے دی تھی۔اسی طرح 9 دیگر معاملات  ایسے تھے جن  میں حکومت ملزم کو حراست میں لئے جانے  کی کوئی  مناسب وجہ نہیں بتا سکی۔ تین معاملات  ایسے تھے جن کے بارےمیں ہائی کورٹ نے کہا کہ ان معاملات  میں پولیس انتظامیہ کے ذریعے لوگوں کو پہلے سے ہی حراست میں لئے جانے کی وجہ سے ان کو پی ایس اے کے تحت حراست میں نہیں لیا جا سکتا۔

عدالت نے لوگوں کی حراست  کے 9دیگر  معاملات  کو یہ کہتے ہوئے ختم کر دیا کہ یہ لوگ خود کوحراست میں لئے جانے کے بارے میں کوئی موثر جانکاری نہیں دے سکے، عدالت نے ا س کی وجہ  یہ بتائی کہ حکومت کے ذریعے لوگوں کو ان کی حراست سے متعلق حکم سے جڑے تمام دستاویز نہیں دئے گئے تھے۔ان نو معاملات  کے حوالے سے جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ حراست میں لئے گئے لوگوں کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے کہا، ‘ اگر نظربند رکھے گئے شخص کو وہ مواد دستیاب نہیں کرایا گیا، جن کی بنیاد پر اس کو حراست میں رکھے جانے کاحکم دیا گیا تھا تو ایسے میں اس کو حراست میں نہیں رکھا جا سکتا۔ ‘

ہائی کورٹ نے تین دیگر معاملات  میں حکومت کےذریعے ضابطے  کی پیروی نہیں کیے جانے کی وجہ سے حراست کو رد کرنے کا حکم دیا۔ ضابطے کے تحت ملزم کو اس زبان میں تمام مواد دستیاب کرایا جاناہے، جسے  وہ سمجھتا ہے۔ہائی کورٹ نے دو دیگر معاملات  میں یہ کہتے ہوئے حراست میں رکھے جانے کے حکم کو منسوخ کر دیا کہ ریاست کی حفاظت کے لئے کسی بھی طرح کی منفی سرگرمی سے کسی کو روکنے کے لئے عام قانون کافی ہے۔اسی طرح ہائی کورٹ نے چھ دیگر معاملات میں حراست کو منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے  حراست میں لئے جانے کے پچھلے احکام کی بنیاد پر لوگوں کو حراست میں لیا تھا جبکہ اس طرح کے حکم کے لئے نئے حقائق  سامنے ہونا چاہیے۔