سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے بعد سے مبینہ طور پر غیر قانونی طریقے سے نابالغوں کو حراست میں رکھے جانے کو لےکر ایک ہفتے کے اندر جواب دینے کو کہا ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر میں نابالغوں کو حراست میں رکھنے سے متعلق الزامات کو لےکر دائر عرضی پر جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے جوینائل جسٹس بورڈ سے جانچ کرنے کو کہا ہے۔ دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی بنچ نے بورڈ کو ایک ہفتے کے اندر جانچ رپورٹ سونپنے کی ہدایت دی ہے۔
سکیورٹی فورسیز کے ذریعے حراست میں لئے گئے ان نابالغوں میں سے کچھ کی عمر 10 سال تک بتائی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت میں تین رکنی بنچ نے کہا کہ وہ فی الحال ان الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کریںگے۔ حالانکہ، عدالت نے کہا کہ چائلڈ رائٹس کارکن اناچھی گانگولی اور شانتا سنہا کے ذریعے دائر عرضی میں نابالغوں کو مبینہ طور پر حراست میں رکھے جانے کا مدعا اٹھایا گیا ہے۔
سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے سپریم کورٹ کے ذریعے نوٹس جاری کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ حالانکہ عدالت نے ان کی گزارش کو منظور نہیں کیا اور کہا کہ کمیٹی کو ان الزامات کی جانچ شروع کرنی چاہیے۔ اس سے پہلے کی سماعت میں عدالت نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے عرضی گزار وکیل اور سینئر وکیل حذیفہ احمدی کے بیان پر رپورٹ درج کرنے کو کہا تھا۔
احمدی نے بتایا تھا کہ پابندیوں کی وجہ سے وادی کے لوگ ہائی کورٹ سے رابطہ نہیں کرپا رہے ہیں۔ سی جے آئی نے کہا کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ذریعے پیش کی گئی رپورٹ درخواست گزار وکیل احمدی کے بیانات سے میل نہیں کھاتی۔ گگوئی نے کہا، ‘ لیکن ہمیں متضاد رپورٹس بھی ملی ہیں۔ یہ معاملہ مبینہ طور پر بچوں کو حراست میں لئے جانے کا ہے تو ہم ہائی کورٹ کے جوینائل جسٹس بورڈ سے اس کی تفتیش کرنے کو کہیںگے۔ ‘
یہ عرضی میڈیا میں پھیلی ان رپورٹس کے بارے میں ہیں، جن میں کہا جا رہا ہے کہ جموں و کشمیر میں غیر قانونی طور سے بچوں کو حراست میں رکھا جا رہا ہے۔ عرضی میں اس معاملے میں عدالت سے مداخلت کرنے کی گزارش کی گئی ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ عدالت حکومت کو ہدایت دے کہ وہ اس معاملے میں اسٹیٹس رپورٹ پیش کرے اور جوینائل جسٹس کمیٹی کو ان معاملوں کی تفتیش کرنے کا حکم دے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ حالات کے عدالتی تجزیہ کے لئے یہ رپورٹس کافی سنگین ہیں اور ان پر جلد سے جلد نوٹس لیا جانا چاہیے۔ غور طلب ہے کہ پانچ اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے بعد سے حراست میں لئے گئے لوگوں کا کوئی سرکاری اعداد و شمار نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے طور پر ریاست میں 4000 لوگوں کو حراست میں لیا گیا، جن میں سے تقریباً 300 لوگوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت حراست میں لیا گیا۔
جموں و کشمیر میں ان پابندیوں کی وجہ سے درجن بھر ہیبیس کارپس عرضیاں دائر کی گئی ہیں، جن میں غیر قانونی طور سے لوگوں کو حراست میں رکھے جانے کو چیلنج کیا گیا ہے اور حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ حراست میں لئے گئے لوگوں کو عدالت کے سامنے پیش کریں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں