خبریں

کشمیر معاملے میں داخل عرضیوں کو نپٹانے میں سپریم کورٹ کی رفتار سست: اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کے ہائی کمشنر کے ترجمان ، روپرٹ کول وِلے نے کہا کہ ہم انتہائی فکرمند ہیں کہ کشمیر میں لوگ مسلسل وسیع پیمانے پر انسانی حقوق سے محروم ہیں اور ہم ہندوستانی حکام سے صورتحال کو درست کرنے اور لوگوں کے حقوق کو مکمل طور پر بحال کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: نریندر مودی حکومت سے کشمیر میں لوگوں کے حقوق کو پوری طرح سے بحال کرنے کی اپیل کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے منگل کو کہا کہ ہندوستان کا سپریم کورٹ لوگوں کی آمد ورفت کی آزادی اور میڈیا پر لگی پابندی سے متعلق عرضیوں سے نپٹنے میں سست رفتار سے کام کر رہا ہے۔ خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق،اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کے ہائی کمشنر کے ترجمان ، روپرٹ کول وِلے نے کہا، ‘ ہندوستان کا سپریم کورٹ  ہیبیس کارپس، لوگوں کی آمد ورفت کی آزادی اور میڈیا پر پابندیوں سے متعلق عرضیوں سے نپٹنے میں سست رفتار سے کام کر رہا ہے۔ ‘

بتا دیں کہ،گزشتہ  16 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے جموں و کشمیر میں لگائی گئی پابندیوں اور حراست میں لئے گئے لوگوں سے متعلق احکامات کو پیش کرنے کو کہا۔ آر سبھاش ریڈی اور بی آر گوئی کے ساتھ جسٹس این وی رمنا کی تین ججوں کی بنچ کشمیر ٹائمس کی مدیر انورادھا بھسین کی عرضی پر سماعت کر رہی تھی جو کہ وادی میں میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر لگی پابندیوں کو چیلنج دے رہی تھی۔

غور طلب ہے کہ، جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کے اہتماموں کو رد کرنے اور ریاست کو دو یونین ٹریٹری  میں تقسیم کرنے کے حکومت ہند کے پانچ اگست کے فیصلے کے بعد کشمیر میں منگل کو 86ویں دن بھی عام  زندگی متاثر رہی۔ بازار بند رہے اور سڑکوں سے گاڑی بھی ندارد رہی۔ کول وِلے نے کہا، ‘ ہم انتہائی فکرمند ہیں کہ کشمیر میں لوگ مسلسل وسیع پیمانے پر انسانی حقوق سے محروم ہیں اور ہم ہندوستانی حکام سے صورتحال کو درست کرنے اور لوگوں کے حقوق کو مکمل طور پر بحال کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ ‘

انہوں نے کہا کہ اگرچہ کچھ ڈھیل دی گئی ہے، لیکن انسانی حقوق پر اثر مسلسل وسیع طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ کول وِلے نے کشمیر پر ایک پریس کانفرنس  میں کہا کہ افسروں کے ذریعے علاقے میں لگایا گیا غیراعلانیہ کرفیو کچھ ہی دنوں کے اندر جموں اور لداخ کے زیادہ تر حصوں سے ہٹا لیا گیا۔ لیکن کشمیر وادی کے کافی حصوں میں یہ اب بھی نافذ ہے جس سے لوگوں کی آزادانہ آمد ورفت متاثر ہو رہی ہے، وہ پر امن طریقے سے جمع ہونے کے اپنے حق کا استعمال نہیں کر پا رہے ہیں اور اس سے صحت، تعلیم اور مذہبی آزادی کا ان کا حق متاثر ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چھٹ پٹ مظاہرہ کے دوران سکیورٹی فورسز کے ذریعہ ضرورت سے زیادہ فورس استعمال کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ کول وِلے نے کہا، ‘ ہمیں یہ خبریں بھی ملی ہیں کہ کشمیر میں مسلح گروہ سرگرم ہیں اور وہ کاروبار شروع کرنے یا اسکول جانے کی کوشش کرنے والوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ مسلح گروہوں کی ہدایتوں پر عمل نہ کرنے والوں کے خلاف تشدد کے بھی کئی الزامات ہیں۔ ‘

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ سمیت سینکڑوں سیاسی رہنماؤں اور شہری سماج کے لوگوں کو احتیاط کے طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)