خبریں

نیا شہریت قانون بنیادی طور پر تعصب آمیز: اقوام متحدہ

یو این ہیومن رائٹس چیف  میشیل باچیلٹ کے ترجمان جیریمی لارینس نے کہا کہ ہندوستان میں شہریت دینے کے وسیع قانون ابھی بھی ہیں، لیکن یہ ترمیم شہریت حاصل کرنے کے لئے لوگوں پر تعصب آمیز اثر ڈالے‌گی۔

یو این ہیومن رائٹس چیف  میشیل باچیلٹ (فوٹو : رائٹرس)

یو این ہیومن رائٹس چیف  میشیل باچیلٹ (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس باڈی نے ہندوستان کے نئے شہریت قانون کو لےکر جمعہ کو تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کی فطرت ہی ‘ بنیادی طور پر تعصب آمیز ‘ ہے۔ نئے شہریت قانون میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے غیر مسلم مظلوم اقلیتوں کو شہریت دینے کا اہتمام ہے۔ یو این ہیومن رائٹس چیف  میشیل باچیلٹ کے ترجمان جیریمی لارینس نے جنیوا میں کہا، ‘ ہم ہندوستان کے نئے شہریت (ترمیم) قانون 2019 کو لےکر فکرمند ہیں جس کی فطرت ہی بنیادی طور پر تعصب آمیز ہے۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘ ترمیم شدہ قانون ہندوستان کے آئین میں درج قانون کے سامنے مساوات کے عزم کو اور بین الاقوامی شہری اور سیاسی حقوق اور نسلی جانبداری کے خاتمہ سے متعلق  معاہدہ میں ہندوستان کی ذمہ داریوں کو کمتر کرتا دکھتا ہے جن میں ہندوستان ایک فریق ہے جو نسل، ذات یا مذہبی بنیاد پر جانبداری کرنے کو منع کرتا ہے۔ ‘

دہلی میں وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ نیا قانون ہندوستان میں پہلے سے ہی رہ رہے کچھ پڑوسی ممالک کے مظلوم مذہبی اقلیتوں کو ہندوستانی شہریت دینے کے لئے تیزی سے غور کرنے کی بات کہتا ہے۔ وزارت نے کہا تھا کہ ہرایک ملک کو مختلف پالیسیوں کے ذریعے اپنے شہریوں کی تصدیق کرنے اور حساب کرنے کا حق ہے۔

لارینس نے کہا کہ ہندوستان میں شہریت دینے کے وسیع قانون ابھی بھی ہیں، لیکن یہ ترمیم شہریت حاصل کرنے کے لئے لوگوں پر تعصب آمیز اثر ڈالے‌گی۔ انہوں نے کہا کہ ہجرت کے حالات کو دیکھے بنا، تمام مہاجر عزت، تحفظ اور اپنے انسانی حقوق کی تکمیل کے حقدار ہیں۔

لارینس نے کہا کہ محض 12 مہینے پہلے ہی ہندوستان نے ‘ گلوبل کامپیکٹ فار سیف، ریگولر اینڈ آرڈرلی مائیگریشن ‘ کی حمایت کی تھی۔ اس کے تحت ریاست پر عزم  ہے کہ وہ تحفظ کی حالت میں مہاجروں کی ضروریات پر رد عمل دے‌گا، من مانی حراست اور اجتماعی طور پر ملک سےنکالنے سے بچے‌گا اور یقینی بنائے‌گا کہ مہاجروں سے متعلق انتظام انسانی حقوق پر مبنی ہوں۔

ترجمان نے مظلوم گروپ کو تحفظ دینے کے ہدف کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ یہ مضبوط قومی پناہ گزینی نظام کے ذریعے ہونا چاہیے تھا جو مساوات اور جانبداری نہیں کرنے پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان تمام لوگوں پر نافذ ہونا چاہیے جن کو اصل میں ظلم وستم اور دیگر انسانی حقوق کی پامالی سے تحفظ کی ضرورت ہے اور اس میں نسل، ذات، مذہب، قومیت اور دیگر کا امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔

لارینس نے کہا، ‘ ہم سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کا سپریم کورٹ نئے قانون کا تجزیہ کرے‌گا اور امید کرتے ہیں کہ ہندوستان قانون کی عالمی انسانی حقوق سے متعلق  ذمہ داریوں کے ساتھ موافقت پر احتیاط سے غور کرے‌گا۔ ‘ یو این ہائی کمشنر فار ہیومن رائٹس  (او ایچ سی ایچ آر) نے شہریت ترمیم قانون کی مخالفت  میں مظاہرے  میں دو لوگوں کی موت پر بھی تشویش کا اظہار کیا  اور تمام پارٹیوں سے تشدد کو بڑھاوا نہیں دینے کی اپیل کی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)