خبریں

پانچ مہینے بعد کشمیر میں موبائل ایس ایم ایس خدمات شروع، انٹر نیٹ پر اب بھی پابندی

گزشتہ سال 5 اگست کو جموں و کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ ختم کرنے کے بعد سے انتظامیہ نے کمیونی کیشن کی سبھی لائنوں –لینڈ لائن ٹیلی فون خدمات، موبائل فون خدمات اور انٹر نیٹ خدمات کو بند کر دیا تھا۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی:جموں کشمیر سے خصوصی ریاست  کا درجہ ختم  کرنے کے پانچ مہینے یعنی تقریباً 150 دن بعد گزشتہ 31 دسمبر کی رات 12 بجے سے کشمیر میں موبائل ایس ایم ایس خدمات  شروع کر دی گئی۔مرکز کی مودی حکومت  نے پچھلے سال پانچ اگست کو جموں کشمیر کو خصوصی ریاست  کا درجہ دینے سے متعلق  آئین  کے آرٹیکل  370 کے زیادہ تر اہتماموں  کو ختم  کرنے اور ریاست  کو دویونین ٹریٹری جموں کشمیر اور  لداخ میں باٹنے  کا فیصلہ کیا تھا۔ فیصلے کے تحت جموں کشمیر یونین ٹریٹری کی اپنی مقننہ  ہوگی جبکہ لداخ بنامقننہ  والی یونین ٹریٹری ہوگا۔

اس فیصلے کے اعلان کے کچھ گھنٹے پہلے ہی لاء اینڈ آرڈر بنائے رکھنے کا حوالہ دے کر جموں وکشمیر انتظامیہ  نے کمیونی کیشن  کی سبھی لائنوں- لینڈ لائن ٹیلی فون خدمات ، موبائل فون خدمات  اور انٹرنیٹ خدمات  کو بند کر دیا تھا۔اس سے پہلے گزشتہ  14 اکتوبر کو موبائل پوسٹ پیڈ سروس  شروع کر دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ گزشتہ  27 دسمبر کو لداخ کے کارگل ضلعے میں موبائل انٹرنیٹ خدمات  بحال کی گئی تھیں۔

بتا دیں کہ کشمیر کے کچھ سرکاری دفتروں اور کاروباری اداروں  کو چھوڑکر پوری  گھاٹی میں انٹرنیٹ خدمات  گزشتہ  پانچ اگست سے لگاتار بند چل رہی ہیں۔ اس کے بعد پہلے لینڈ لائن ٹیلی فون خدمات  دھیرے دھیرے بحال کی گئیں۔ بعد میں پوسٹ پیڈ موبائل خدمات  بحال ہوئیں۔ حالانکہ موبائل انٹرنیٹ خدمات  اب بھی شروع نہیں کی گئی ہیں۔

موبائل اور انٹرنیٹ خدمات  بند کرنے کے علاوہ جموں کشمیر کے مین اسٹریم  کے بڑے رہنماؤں  کے ساتھ بڑی تعداد  میں سیاسی  کارکنوں  اور دیگر لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔مین اسٹریم  کے کئی رہنما  اور ریاست  کے سابق وزیراعلیٰ پی ایس اے  کے تحت حراست میں اب بھی رکھے گئے ہیں۔

گزشتہ  دنوں جموں کشمیر انتظامیہ  نے نیشنل کانفرنس کے رہنما  اور تین بار وزیراعلیٰ رہے فاروق عبداللہ کی حراست کی مدت  تین مہینے کے لیے بڑھا دی تھی۔ فاروق عبداللہ کے علاوہ ان کے بیٹے اورسابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور سابق وزیراعلیٰ اور پی ڈی پی رہنما  محبوبہ مفتی بھی گزشتہ  پانچ اگست سے حراست میں ہیں۔