خبریں

پارلیامنٹ میں مودی کے بیانات کی سچائی

فیک نیوز راؤنڈ اپ:  مودی نے دعویٰ کیا کہ شہریت قانون میں پاکستان اور ہندوستان کے اقلیتوں کا ہی ذکر ہے اس میں تمام شہریوں کا کوئی  ذکر نہیں ہے  اور اس کی تصدیق خود نہرو لیاقت پیکٹ سے ہو جاتی ہے۔ انہوں  نے اپنے آئین مخالف قانون کے جواز میں اسی نہرو لیاقت پیکٹ کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس پیکٹ میں اقلیتوں کا ذکر ہے  تمام شہریوں کا نہیں۔ اور ایسا کرنے والے خود نہرو تھے۔

فوٹو: پی ٹی آئی/ وکی میڈیا کامنس

فوٹو: پی ٹی آئی/ وکی میڈیا کامنس

انگریزی اخبار دی ٹیلی گراف نے 7 فروری کے شمارے میں وزیر اعظم نریندر مودی کو ‘مسٹر ہاف ٹرتھ’  کہا۔ اخبار نے مارک ٹوین کے مقولہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ایک نیم سچ کھلے جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے! دی ٹیلی گراف کی اس خبر کے شائع ہونے کی کیا وجہ تھی؟

ہندوستانی پارلیامنٹ کے سالانہ بجٹ اجلاس میں پرائم منسٹر نریندر مودی نے تقریباً ایک گھنٹے سے بھی زیادہ دیر تک اپنی تقریر کی اور اس تقریر میں کچھ ایسی باتیں کہیں جو حقائق کے برعکس، جھوٹ پر مبنی اور گمراہ کن تھیں۔ دی ٹیلی گراف نے شائع کیا کہ نریندر مودی صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کے افتتاحی خطاب کے بعد “موشن آف تھینکس” کے تحت شہریت ترمیم قانون کے موضوع پر لوک سبھا میں تقریر کر رہے تھے۔

دی ٹیلی گراف کے مطابق مودی نے اپنے خطاب میں تقریباً 23 مرتبہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا نام لیا۔ غور طلب ہے کہ نہرو کو اپنی تقریر میں یاد فرمانے کا مقصد ان کی تعریف کرنا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے جملوں سے پنڈت نہرو یا کانگریس پارٹی پر سوالیہ نشان لگا رہے تھے۔

شہریت قانون آزادی کے بعد تشکیل دیا گیا تھا اور ہند و پاک میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے دونوں ملکوں کے پرائم منسٹرز کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جو نہرو لیاقت پیکٹ کہلایا۔ موجودہ دور میں فسطائی پارٹی بی جے پی اقتدار میں ہے اور نریندر مودی کی سرپرستی میں شہریت ترمیم قانون کو پارلیامنٹ سے مکمل طور پر وضع کرکے ملک بھر میں نافذ کرنے والی ہے۔ملک بھر میں اس قانون کے خلاف احتجاج ہو رہے ہیں جس کا مرکز دہلی کا شاہین باغ ہے۔

مودی حکومت کے شہریت ترمیم قانون میں بنیادی خرابی یہ ہے کہ یہ مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی مسلمانوں کو  شہریت سے محروم رکھتا ہے اور پڑوسی ملکوں سے آنے والے مہاجرین میں مسلمانوں کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ اس طرح یہ قانون آئین مخالف ہے اور نریندر مودی اس قانون کو صحیح ثابت کرنے کے لیے 7 فروری کو لوک سبھا میں نہرو لیاقت پیکٹ کا حوالہ دے رہے تھے۔

لوک سبھا میں کانگریس کی نشستوں کی طرف مخاطب ہوکر مودی نے دعویٰ کیا کہ شہریت قانون میں پاکستان اور ہندوستان کے اقلیتوں کا ہی ذکر ہے اس میں تمام شہریوں کا کوئی  ذکر نہیں ہے  اور اس کی تصدیق خود نہرو لیاقت پیکٹ سے ہو جاتی ہے۔ اس پیکٹ میں یہ معاہدہ کیا گیا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان اپنے  ملک کی اقلیتوں کے ساتھ بہتر سلوک کریں گے، اُن کو ترقی کے بہتر مواقع فراہم کریں گے۔

مودی کے مطابق پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اُن کو ہندوستانی شہریت دینے کے لیے یہ قانون بنایا گیا ہے جس میں صرف پاکستان کی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر محروم رکھا جا رہا ہے۔ مودی نے اپنے آئین مخالف قانون کے جواز میں اسی نہرو لیاقت پیکٹ کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس پیکٹ میں اقلیتوں کا ذکر ہے اور تمام شہریوں کا نہیں۔ اور ایسا کرنے والے خود نہرو تھے۔

fake 1

دی ٹیلی گراف نے لکھا کہ مودی آدھا سچ بیان کر رہے ہیں اور یہ نیم سچ سفید جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ ٹیلی گراف نے نہرو لیاقت پیکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ پیکٹ کی پہلی ہی لائن میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ ہند و پاک اپنے اقلیتوں کے فروغ کے لیے تمام ممکن کوشش کریں گے اور یہ کوشش کسی کی مذہبی شناخت پر مبنی نہیں ہوگی۔ مودی نے  اس مذہبی شناخت کے اہم موضوع کو شہریت ترمیم قانون اور اپنی تقریر دونوں سے ہی دور رکھا ہے اور ان کی حکومت اور ان کے وزراء اس احمقانہ قانون کی بندوق کبھی مہاتما گاندھی کے کندھے پر رکھ کر چلا رہے ہیں تو کبھی پنڈت نہرو کے!

لہٰذا، یہ واضح ہے کہ شہریت قانون کی شکل میں مودی کی فسطائی سیاست اپنے عروج پر ہے اور بلا شبہ یہ آئین ہند اور مجاہدین آزادی کے اصول اور خوابوں کے خلاف ہے۔

FAKE 2

اسی طرح مودی نے لوک سبھا میں دفعہ 370 پر ایوان کے سامنے غلط حوالہ پیش کیا اور ملک کو گمراہ کیا۔ انہوں نے کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ کو منسوب کرتے ہوئے لوک سبھا میں کہا کہ دفعہ 370 کو ہٹانا ایسا زلزلہ لائے گا کہ کشمیر ہندوستان سے الگ ہو جائے گا اور کشمیر میں ہندوستان کا قومی پرچم بلند کرنے والا کوئی نہیں بچےگا۔ مودی کے خطاب  میں اُن کی اس بات کو یہاں سنا جا سکتا ہے:

اسی بات کو بی جے پی کے آفیشل ٹوئٹر سے بھی ٹویٹ کیا گیا:

آلٹ نیوز نے واضح کیا کہ مودی نے لوک سبھا میں عمر عبداللہ کو منسوب کرتے ہوئے زلزلے کا جو ذکر کیا تھا وہ جھوٹ تھا جس کو دراصل ایک مزاحیہ ویب سائٹ سے لیا گیا تھا۔ یہ مزاحیہ ویبسائٹ فکینگ نیوز کے نام سے معروف ہے اور یہ سیاسی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں پر مزاحیہ مضامین شائع کرتی ہے۔ اسے مودی کی کم علمی اور غیر ذمہ داری ہی مانا جائے گا کہ وہ پارلیامنٹ کی سنجیدہ بحث میں مزاحیہ ویب سائٹ کا حوالہ دیتے ہیں اور ایوان کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ مزاحیہ ویب سائٹ فیکنگ نیوز کے مضمون شائع کرنے سے ایک روز پہلے ہی عمر عبداللہ نے ایک ٹوئٹ کیا تھا جس میں انہوں نے یہ لکھا تھا کہ دفعہ 370 ہٹانے کے بعد کشمیر کا ہندوستان سے الگ ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ عمر نے یہ کہیں بھی نہیں لکھا تھا کہ دفعہ 370 ہٹ جانے کے بعد عظیم زلزلہ آئے گا جس کی وجہ سے کشمیر ہندوستان سے ٹوٹ کا الگ ہو جائے گا!!

لہٰذا، مودی کا حوالہ غلط تھا جس کو عمر عبداللہ سے منسوب کیا گیا تھا اور ملک کو گمراہ کیا گیا تھا۔

ان دونوں معاملوں  پر صحافی رویش کمار کے تبصرے کو یہاں سنا جا سکتا ہے:

دہلی انتخابات کے پرچار کے دوران بی جے پی نے ماحول کو خراب کرنے کی کئی مرتبہ کوشش کی اور سوشل میڈیا پر یہ کام  سمبت پاترا نے جھوٹےویڈیوز عام کر کے کیا۔ ڈاکٹر پاترا نے سب سے پہلے شرجیل امام کی تقریر کا ایک حصہ ٹوئٹ کیا جس میں شرجیل کے قول کا پس منظر اور سیاق و سباق مخفی رکھا گیا، اس کے بعد ڈاکٹر پاترا نے جے این یو کی اسٹوڈنٹ کونسلر آفرین فاطمہ کی تقریر کا ایک حصہ پوسٹ کیا جو گمراہ کن تھا۔ 5 فروری کو سمبت پاترا نے عام آدمی پارٹی کے امانت اللہ خان کے خطاب کا ایک حصہ ٹوئٹ کیا اور یہ الزام لگایا کہ عام آدمی پارٹی اور امانت اللہ خان ملک میں شریعہ لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر پاترا نے اپنے ویڈیو ٹوئٹ میں لکھا:

اللہ نے طے کر دیا ہے کہ ان ظالموں کا خاتمہ ہوگا۔ ہم شریعہ بنیں گے۔ کہیں نہ کہیں سے تو شروعات ہوتی ہی ہے۔

عام آدمی پارٹی کا امانت اللہ خان! دوستوں یہ ہیں عام آدمی پارٹی کے خیالات۔ اب ذرا آپ بھی سوچئے کہ سب کچھ اللہ ہی طے کریں گے يا آپ بھی کچھ طے کریں گے۔ آپ شریعہ بننا چاہتے ہیں یا نہیں۔

سمبت پاترا شہریت قانون کے خلاف شاہین باغ تحریک کے مخالف رہے ہیں اور مسلسل اس کے خلاف فیک نیوز عام کرتے آئے ہیں۔ اس دفعہ بھی جو ویڈیو انہوں نے اپلوڈ کیا تھا اس میں بھی اس کا سیاق تبدیل کر دیا اور ایک لفظ کو غلط طریقے سے پیش کیا۔ آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ امانت اللہ خان نے اپنی تقریر میں “شریعہ” لفظ کا استعمال نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے “ذریعہ” لفظ کا استعمال کیا تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا:

ہر بات کا لکھنے والا تو اللہ ہے نہ، اللہ نے طے کر لیا کہ کون بادشاہ ہوگا، کس کی فتح ہوگی، اللہ نے طے کر لیا کہ کون ذلیل ہوگا، اللہ نے طے کر لیا کہ کس کو عزت ملے گی۔ یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے، بندے کے اختیار میں ہوتا تو اب تک تو سب کو کچل دیتے؛ ہماری کیا حیثیت! اور اللہ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ان ظالموں کا پتن ہوگا، ان ظالموں کا خاتمہ ہوگا۔ ان لوگوں نے جو ظلم کیے ہیں، اُن ظلم کا خاتمہ انشاء اللہ اوکھلا سے ہوگا۔ جامعہ سے ہوگا، ہم ذریعہ بنیں گے انشاء اللہ۔ اور کہیں نہ کہیں سے تو شروعات ہوتی ہیں، آج شاہین باغ نے پوری دنیا کو جگانے کا کام کیا ہے۔

امانت اللہ خان کی مکمل کلپ غور سے سننے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی ظلم کی بات کر رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ ظلم کا ظلم ایک دن ضرور ختم ہوتا ہے۔ اس خاتمے کا تعین اللہ تعالیٰ کرتا ہے اور کسی کو ذریعہ بناتا ہے اور کچھ نہ کچھ اسباب پیدا کرتا ہے۔ بقول امانت اللہ کہنا، شاہین باغ تحریک اس خاتمے کا سبب ہے اور اس تحریک کے شرکاء ظلم کے خاتمے کا ذریعہ بنیں گے۔

دور حاضر میں ہندوستان کے  پڑوسی ملک چین میں کورونا وائرس کی وجہ سے فلو کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر ایک خوف کا ماحول بنا ہوا ہے، یہ ایک عالمی ہیلتھ ایمرجنسی ہے۔

اسی پس منظر میں مختلف طرز پر فیک نیوز عام کی جا رہی ہے۔ فیس بک پر دعویٰ کیا گیا کہ چین نے گزشتہ برسوں میں اپنے مسلمان شہریوں پر بہت ظلم کیے تھے، چین میں اُن کی رہائش گاہوں کو تباہ کیا، اُن کے گھر نیست و نابود کر ڈالے، اُن پر فیملی پلاننگ کی پابندیاں عائد کی اور مسلم خواتین کے حجاب اور برقع پر بین لگایا۔ یہ برقع پر بین کی ہی وجہ ہے کہ اللہ آج ان لوگوں سے بدلہ لے رہا ہے اور چین کے تمام عوام ماسک کی شکل میں حجاب پہننے کے لئے مجبور ہیں۔

اس طرح کے دعوے بے بنیاد ہیں اور احمقانہ ہیں۔ کورونا وائرس کا ایک وبا کی شکل اختیار کر لینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اور اس کا چین میں عام ہونا خدا کا مذہبی انتخاب نہیں ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگینائزیشن کے مطابق اسی دہائی کی شروعات میں 2013کے بعد مغربی ایشیا کے عرب ممالک میں ہی کورونا وائرس کی وبا پھیل گئی تھی جس کو مڈل ایسٹ رسپریٹری سنڈروم کے نام سے جانا گیا۔  2013 میں ہی وہاں کورونا وائرس کا پہلا کیس مل گیا تھا۔ اس سال حج کے موقع پر سعودی حکومت خاص انتظامات بھی کیے تھے تاکہ یہ وبا کنٹرول میں رہے۔

fake 4

کسی بھی وبا کو مذہبی شناخت سے جوڑنا ٹھیک نہیں اور یہ عام فہم اور وجدان کے خلاف ہے۔ چین میں اس وقت بھی مسلمان موجود ہیں، کیا وہ مسلمان اس وبا سے صرف اس لئے محفوظ ہو گئے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں؟

اسی طرح گزشتہ ہفتے ایک ویڈیو سوشل میڈیا میں عام ہوا جس پر یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ چین میں وبا کے عام ہو جانے کے بعد چینی صدر اپنے مسلمان شہریوں سے ملاقات کرنے مسجدوں میں گئے اور وہاں درخواست کی کہ وہ اس مشکل گھڑی میں چین کے لیے دعا کریں۔

آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ چار سال پرانی ویڈیو تھی جس کو 2016 میں اپلوڈ کیا گیا تھا۔ اس کا موجودہ حالات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ویڈیو یہاں دستیاب ہے۔