خبریں

دہلی فسادات: الیکشن کمیشن پر پولیس سے ووٹر لسٹ شیئر کر نے کا الزام، کمیشن نے کیا انکار

الیکشن کمیشن نے وضاحت جاری کرکے کہا کہ اس نے دیگر سرکاری محکموں کے ساتھ ووٹر لسٹ اور فوٹو شناختی کارڈ شیئر کرنے کے سال 2008 کے اپنے گائیڈ لائن سے کسی بھی طرح انحراف نہیں کیا ہے۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

نئی دہلی:الیکشن کمیشن نےسوموار کو اس الزام پر وضاحت دی، جس میں کہا گیا ہے کہ کمیشن نے دہلی فسادات سے متعلق گرفتاریوں کے لیے دہلی پولیس کے ساتھ ووٹر لسٹ سے جانکاریاں  شیئر کی ہیں۔کمیشن نے کہا کہ اس نے دیگر سرکاری محکموں کے ساتھ ووٹر لسٹ اور فوٹو شناختی کارڈ شیئر کرنے کے سال 2008 کے اپنے گائیڈ لائن سے کسی بھی طرح انحراف نہیں کیا ہے۔

کمیشن نے دعویٰ کیا کہ اس طرح کی خبریں بے بنیاد ہیں،لیکن الیکشن کمیشن نے ان ‘خبروں’کی تفصیلات نہیں دیں جن کی وجہ سے اس کو جواب دینا پڑا۔

حالانکہ یہ جواب کارکن اورصحافی ساکیت گوکھلے اوردیگر کی جانب سےسوشل میڈیا پر ایسے کچھ پوسٹ سامنے کے آنے کے بعد آیا ہے، جن میں الزام لگایا گیا ہے کہ اس سال کے شروع میں دہلی میں ہوئےتشدد کی جانچ کے لیے دہلی پولیس کو ووٹر لسٹ کی تفصیلات   شیئر کرنے کے سلسلے میں الیکشن کمیشن نے خود اپنے ضابطوں کی‘خلاف ورزی ’کی ہے۔

گوکھلے نےالیکشن کمیشن کی جانب سے12 مارچ 2020 کو دہلی کے چیف الیکشن افسر کو لکھے ایک مصدقہ خط کو  شیئر کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن نے اپنے ضابطوں کی خلاف ورزی  کرتے ہوئے شمال -مشرقی دہلی کے تمام لوگوں  کے فوٹو اورپتے دہلی پولیس کے ساتھ  شیئر کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کی پہچان کرنے کے لیے فوٹو کے ساتھ پوری ووٹر لسٹ غیرقانونی ڈھنگ سے پولیس کو دی گئی تھی۔کمیشن کے خط سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ دہلی کے چیف الیکشن افسر(سی ای او)نے چھ مارچ 2020 کو خط لکھ کر ضابطوں  کا حوالہ دیتے ہوئے الیکٹورل ڈیٹابیس شیئر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

حالانکہ الیکشن کمیشن نے اس فیصلہ کو پلٹتے ہوئے کہا کہ دہلی پولیس کی مانگ کو دھیان میں رکھتے ہوئے کہ دہلی میں ہوئے تشدد کے دوران سی سی ٹی وی میں قیدملزمین کی تصویروں کا ملان کرنے کے لیے شمالی- مشرقی، شاہدرہ اور پورے دہلی ضلع  کے الیکٹورل رول میں دستیاب  فوٹو کو  شیئر کیا جائے، یہ فیصلہ  لیا گیا ہے کہ دہلی کے سی ای او جانچ افسران  کے ساتھ یہ جانکاری  شیئر کریں۔

اس بات کے سامنے آنے بعد سوشل میڈیا پر اس کو لےکر زوردار بحث ہوئی، جس کے بعد کمیشن کو یہ وضاحت جاری کرنی پڑی ہے۔

کمیشن نے دعویٰ کیا کہ اس نے2008 کےگائیڈ لائن  اور 2020 کے کلیئرٹی آرڈر سے ‘کسی بھی طرح انحراف نہیں کیا ہے۔’الیکشن کمیشن نےدسمبر 2008 میں مختلف  سرکاری محکموں  کے ساتھ ووٹر لسٹ اور ووٹر شناختی کارڈسے متعلق  جانکاری  شیئر کرنے کو لےکرگائیڈ لائن  جاری کیے تھے۔

کمیشن نے اس سال 16 جولائی کو چیف الیکشن افسروں  کو ہدایت  جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاستی  الیکشن کمیشن  بھی چیف الیکشن افسروں  کی جانب سےفراہم کرائے گئے ووٹر لسٹ کا ڈیٹابیس کسی دوسری تنظیم  یا ایجنسی کو  شیئر نہیں کریں گے۔بیان میں کہا گیا کہ یہ قابل ذکر ہے کہ جہاں تک ایجنسیوں کے ذریعے کسی مجرمانہ جانچ کی بات ہو تو یہ متعلقہ  ایجنسیوں کے خود کے قانون، ضابطوں  اور ہدایات  کے تحت آتا ہے، جنہیں عدالتوں میں کسی بھی معاملے میں چیلنج دیا جا سکتا ہے۔

الیکشن کمیشن نے کہا کہ مجرمانہ  معاملوں کی جانچ کے لیے ایک سسٹم  بنا ہوا ہے اور کمیشن اس میں دخل اندازی نہیں کرتا ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)