خبریں

دہلی فسادات: مدینہ مسجد آگ زنی معاملے میں پولیس کی لاپرواہی پر عدالت کی سرزنش

پچھلے سال فروری مہینے میں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات  کے دوران شیو وہار کی مدینہ مسجد میں آگ لگا دی گئی تھی۔ اس کے لےکر کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پولیس اس کیس میں ایک الگ ایف آئی آر دائر کرے۔ اب پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے لےکر پہلے ہی ایف آئی ار درج کی گئی تھی، لیکن اس کی جانکاری عدالت کو انجانے میں نہیں دے سکی تھی۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: شمال-مشرقی دہلی فسادات  معاملے کی شنوائی کے دوران یہاں کی ایک عدالت نے کہا کہ ‘وہ مدینہ مسجد آگ زنی معاملے میں پولیس کے ڈھلمل رویے  سے مجروح ہیں۔’دراصل اس کیس کو لےکر ایک حکم جاری کرنے سے پہلے پولیس نے ٹرائل کورٹ کو یہ نہیں بتایا تھا کہ دنگے کے دوران مدینہ مسجد میں ہوئی آگ زنی معاملے میں ایک الگ ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، اس پر عدالت  نے کہا کہ یہ دکھاتا ہے کہ ‘جانچ ایجنسی نے کیساسخت  رویہ اپنایا ہے۔’ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے یہ تبصرہ  کیا، جنہوں نے دہلی پولیس کے ذریعے دائر نظرثانی کی درخواست کو قبول کر لیا اور ریکارڈ ایڈیشنل چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کو واپس بھیج دیا۔

ایڈیشنل چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ(اےسی ایم ایم)نے پورے معاملے پر جامعیت کے ساتھ غور کرنے کے لیے معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم  پاس کیا تھا، کیونکہ ایک الگ ایف آئی آرجیسے نئےحقائق سامنے آئے تھے۔

اس پر شنوائی کے دوران ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے کہا، ‘اےسی ایم ایم(شمال مشرقی)کے ذریعےہدایت  جاری کرنے سے پہلے انہیں اس بات سے واقف نہیں کرایا گیا تھا کہ ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے۔ یہاں تک کہ جانچ ایجنسی کی جانب سے مذکورہ  عدالت  کے سامنے معاملہ درج کرنے کے بارے میں کبھی بھی ایف آئی آر درج کرنے کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا تھا۔ یہ پہلی نظر میں جانچ ایجنسی کی طرف سے سخت رویے/لاپرواہی کو دکھاتا ہے، کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اےسی ایم ایم کے سامنے پوری جانکاری پیش کرتے۔’

عدالت نے کہا کہ اس کیس میں جانچ ایجنسی نے جس طرح کا ڈھلمل رویہ اپنایا ہے، اس سے وہ کافی مجروح ہوئے ہیں۔

عدالت نے کہا، ‘پولیس کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ مدعا علیہ کے اپنی عرضی کے ساتھ اےسی ایم ایم کی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے تک کراول نگر (پولیس اسٹیشن)میں ایک ایف آئی آر پہلے ہی درج کی جا چکی تھی۔ جانچ ایجنسی کی ذمہ داری تھی کہ وہ مکمل حقائق کے بارے میں جان کر اےسی ایم ایم کو واقف کراتی اور اس کے سامنے پورےموادکو رکھتی، جو کہ نہیں کیا گیا۔’

بتا دیں کہ 25 فروری 2020 کو دنگائیوں نے شیو وہار کی مدینہ مسجد پر حملہ کیا تھا۔ اس وقت  علاقے کی بجلی کاٹ دی گئی تھی، جس کے بعد انہوں نے دو ایل پی جی سلنڈر مسجد کے اندر پھینک دیا اور زوردار دھماکہ ہوا۔ بعد میں ایک مقامی شخص نے  گنبد کے اوپر بھگوا جھنڈا لگا دیا تھا۔

اس معاملے کے عینی شاہدوکیل احمد نے بھیڑ کو روکنے کی کوشش کی، لیکن ان پر ایسڈ سے حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے انہیں اپنی آنکھ گنوانی پڑی۔

اس کولےکر چار اپریل،2020 کو پولیس نے مسجد کمیٹی کے ممبر ہاشم علی کو ہی ایک مقامی شخص نریش چند کے ذریعےآگ زنی اور لوٹ کی شکایت کے بعدگرفتار کر لیا۔ نریش چند نے کہا تھا کہ ان کی تین دکانوں میں بھیڑ نے آگ لگا دی تھی اور 28 فروری 2020 کو کئی سامان لوٹ لیے گئے تھے۔

ضمانت ملنے کے بعد ہاشم علی نے 1 مارچ، 2020 کو اپنے گھر میں آگ لگنے کی شکایت درج کرائی تھی، جسے پولیس نے نریش چند کی شکایت کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔

ہاشم علی نے ایک الگ شکایت میں ان 15 دنگائیوں کا بھی نام لیا تھا، جنہوں نے مبینہ طور پر مسجد میں آگ لگائی تھی، جس کے بارے میں پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس معاملے کو بھی اسی ایف آئی آر کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔

ایک فروری2021 کو دہلی کی ایک عدالت نے ان کے وکیل ایم آر شمشاد کی عرضی پر مسجد میں آگ لگانے کے معاملے میں ایک الگ ایف آئی آر دائر کر جانچ کرنے کی ہدایت دی تھی۔

بتادیں کہ 17 مارچ کو، عدالت نے ڈی ایس پی(شمال مشرقی) کو کی گئی جانچ کے بارے میں ایک اسٹیٹس رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت  دی اور پایا تھا کہ پولیس کے ذریعے شکایت گزار ہاشم علی کو گرفتار کرناواضح طور پر نامناسب تھا۔

جب کورٹ نے کیس ڈائری، گواہوں کے بیان اور ثبوتوں پر پولیس سے پوچھ تاچھ کی تو پولیس نے یو ٹرن لیا اور کہا کہ انہیں ایک ایف آئی آر ملی ہے جس میں مسجد جلانے کی شکایت درج کی گئی تھی۔

پولیس کے اس رویے پر کورٹ نے سخت سرزنش کی  ہے۔

معاملے کی شنوائی کرنے والے جج نے پولیس پر جانچ میں ڈھلمل رویہ اپنانے کا الزام لگاتے ہوئے جلدبازی میں آگے بڑھنے اور کیس ڈائری بنانے کے لیے اس نئی ایف آئی آر میں گواہوں کے بیان درج کرنے کا الزام لگایا تھا۔

پولیس نے قبول کیا تھا کہ وہ انجانے میں اپنی پہلے کی اسٹیٹس رپورٹ میں ذکر نہیں کر سکی کہ مدینہ مسجد کی ایف آئی آر اصل میں ایک الگ ایف آئی آر کے روپ میں درج کی گئی تھی۔