خبریں

کمیٹی میں شامل بی جے پی ایم ایل اے نے کہا – بلقیس کے ریپسٹ ’برہمن، اچھےسنسکاروں والے‘

بلقیس بانو ریپ کے11 قصورواروں کی سزا کو معاف کرنے والی سرکاری کمیٹی میں شامل رہےگودھرا سے بی جے پی ایم ایل اے سی کے راؤل جی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ  رہا کیے گئے مجرم اس جرم میں شامل تھے یا نہیں اور یہ ممکن ہے کہ انہیں  پھنسیایاگیاہو۔

گودھرا سے بی جے پی ایم ایل اے سی کے راؤل جی۔ (فوٹو بہ شکریہ: اسکرین گریب/موجو اسٹوری)

گودھرا سے بی جے پی ایم ایل اے سی کے راؤل جی۔ (فوٹو بہ شکریہ: اسکرین گریب/موجو اسٹوری)

نئی دہلی: بلقیس بانو کیس میں 11 قصورواروں کی سزا کو  معاف کرنے والی سرکاری کمیٹی کا حصہ رہے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک ایم ایل اےنے جمعرات کو کہا کہ 2002 کے گجرات فسادات کے اس کیس میں کچھ لوگ برہمن ہیں جن کےاچھے ‘سنسکار’ ہیں اور یہ ممکن ہے کہ ان کوپھنسایا گیا ہو۔

گودھرا سے بی جے پی ایم ایل اے سی کے راؤل جی کمیٹی کے ان چار ممبران میں سے ایک ہیں، ، جو بی جے پی سے وابستہ ہیں، انہوں نے یہ بیان ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارم موجو اسٹوری کو انٹرویو کے دوران دیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ بے گناہ  ہوں کیوں کہ فرقہ وارانہ صورتحال میں ایک کمیونٹی کی طرف سے دوسری کمیونٹی  کے بے گناہ لوگوں کو پھنسانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔

ان 11 قیدیوں کو گجرات حکومت کی سزا معافی پالیسی  کے تحت رہا کیا گیا تھا۔

راؤل جی نے یہ بھی کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ 15 سال سے زیادہ عرصےکے بعد جیل سے رہا ہونے والے مجرم اس جرم میں ملوث تھے یا نہیں۔

اس بارے میں پوچھے جانے پر راؤل جی نے کہا، 2002 کا بلقیس کیس کیا تھا، میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہیں۔ ہم نے سپریم کورٹ کے حکم کی بنیاد پر فیصلہ کیا تھا۔ ہمیں مجرموں کے طرز عمل کو دیکھنا تھا اور ان کی قبل از وقت رہائی کا فیصلہ کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ جیل میں مجرموں کا رویہ اچھا تھا۔

انہوں نے کہا،ہم نے جیلر سے پوچھا اور پتہ چلا کہ جیل میں ان کا طرز عمل اچھا تھا… اس کے علاوہ وہ برہمن ہیں۔ ان کے سنسکار اچھے ہوتے ہیں، ان کے خاندان کا سلوک بھی اچھا رہا ہے۔

راؤل جی نے کہا کہ ہو سکتا ہے مجرموں کو پھنسایا گیا ہو۔ انہوں نے کہا، یہ ممکن ہے کہ انہیں پھنسایا گیا ہو۔ جب ایسے فسادات ہوتے ہیں تو ایسا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے نام آتے ہیں جو ملوث نہیں ہوتے۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے جرم کیا تھایا نہیں۔ ہم نے ان  کے طرز عمل کی بنیاد پر سزا معاف کر دی ہے۔

گجرات حکومت کی جانب سے اس کمیٹی کی سفارش کو قبول کرنے کے بعد بلقیس بانو کے ساتھ ریپ کرنے والےاور ان کے خاندان کے لوگوں کو قتل کرنے والے11 مجرموں کو رہا کر دیا گیا ہے۔

15 اگست کو مجرموں کی جیل سے رہائی کے بعد ان کا استقبال مٹھائی کھلا کر کیا گیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

15 اگست کو مجرموں کی جیل سے رہائی کے بعد ان کا استقبال مٹھائی کھلا کر کیا گیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

اس فیصلے سے مایوس بلقیس نے اپنے وکیل کے ذریعے جاری ایک بیان میں  گجرات سرکارسے اس فیصلے کوواپس لینے کی اپیل کی ہے۔

بلقیس بانو نے کہا ہے کہ اس کیس میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی وجہ سے انصاف پر سے ان کا اعتماد ٹوٹ  گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، میں نے اس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت پر بھروسہ کیا۔ میں نے سسٹم پر بھروسہ کیا اور میں آہستہ آہستہ اپنے صدمے کے ساتھ جینا سیکھ رہی تھی۔ مجرموں کی رہائی نے میرا چین وسکون چھین لیا ہے اور عدالتی نظام سے میرا اعتماد متزلزل ہو گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، میرا دکھ اور متزلزل اعتماد صرف میرے لیے نہیں، بلکہ ان تمام خواتین کے لیے ہے جو آج انصاف کے لیے عدالتوں میں لڑ رہی ہیں۔

دریں اثنا سماجی، خواتین اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں سمیت چھ ہزار سے زائد شہریوں نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ ان 11 افراد کی سزا کومعاف  کرنے کے فیصلے کو رد کرنے کی  ہدایت دی جائے۔

غورطلب  ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔

تین  مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس 20-30 لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جبکہ ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ دیگر چھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

بلقیس کے اس معاملے کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن پہنچنے کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ کیس کے ملزمان کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس بانو نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی سی بی آئی کے جمع کردہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔

بتادیں کہ 21 جنوری 2008 کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 11 ملزمین کوعمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں تعزیرات ہند کے تحت ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل  کی سازش کرنے ، قتل اور غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔

خصوصی عدالت نے دیگر سات ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔ وہیں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں، بمبئی ہائی کورٹ نےملزمین کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے سات لوگوں کو بری کرنے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔

بلقیس نے اس وقت کہا تھا،سپریم کورٹ نے میرے درد، میری تکلیف  اور 2002 کے تشدد میں کھوئے ہوئے میرے آئینی حقوق کو واپس حاصل کرنے کی میری جدوجہد کو سمجھا۔ حکومت کے ہاتھوں کسی بھی شہری کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، جس کا فرض ہماری حفاظت  کرناہے۔

اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔